Monday, November 25, 2013

متجددین کا فکری المیہ



جو لوگ بڑے طمطراق سے تمام مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہا و صوفیا پر جہالت و کم عقلی کا فیصلہ صادر کرتے ہیں انکا مفروضہ یہ ھے کہ نزول قرآن کے بعد امت میں پہلی مرتبہ یہ حادثہ رونما ھوا کہ اچانک قرآن کہیں سے انکے ھاتھ لگ گیا ھے اور اب یہ انکی ذمہ داری ھے کہ امت کو اسکے اصل مفہوم سے آگاہ کریں۔ گویا ان حضرات کے نمودار ھونے سے قبل قران کہیں طاق نسیان پر پڑا ھوا تھا اور امت آج تک شاید بائیبل یا ویداؤوں سے دین اخذ کرتی نیز انہی پر عمل پیرا رہی ھے۔

یہ عجیب تضاد ھے کہ ایک طرف تو ان حضرات کے خیال میں ''قرآن سمجھنا آسان ھے''، اسکے لئے کسی انسان کے وضع کردہ اصولوں کی تفہیم ضروری نہیں، لیکن دوسری طرف یہ اس بات کے مدعی بھی ہیں کہ قرآن اس قدر مشکل ھے کہ چودہ سو سال تک اسے کوئی سمجھ ہی نہ سکا۔ مزے کی بات یہ کہ پہلوں کے اصول تو انہیں اس لئے قبول نہیں کہ یہ ''انسانوں کے بنائے ھوئے'' ہیں، اسکے بعد ھونا تو یہ چاہئے تھا یہ عقلمند کہیں ''آسمان سے'' نئے اصول لاتے، مگر اسکا کیا کریں کہ پھر یہ لوگ ''چند دوسرے انسانوں (بشمول خود) ہی کے اصولوں'' کی تقلید کروانا چاھتے ہیں۔

حیرت ھے، نجانے خدا نے آخر ایک ایسی کتاب نازل ہی کیوں کی جسے کوئی سمجھ ہی نہ سکتا ھو۔ گویا ایک طرف تو خدا اس بات کا اعلان کرتا ھے کہ اس کتاب کو سمجھانا ہماری ذمہ داری ھے (قیامہ 16-17) لیکن دوسری طرف چپکے سے اس بات کا بندوبست بھی کردیتا ھے کہ کسی کو اسکا مفہوم سمجھ ہی نہ آئے۔ اب یا تو معاذاللہ خدا سے وعدہ خلافی ہوگئی اور یا پھر اس سے غلطی ہوگئی کہ اس نے ایک ایسے ماحول میں اپنا آخری رسول بھیج دیا جہاں اسکی بات سمجھنے، سمجھانے اور اس فہم کی حفاظت کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ ظاھر ھے اس قدر لغو مفروضات پر وہی شخص اپنی فکری عمارت قائم کرسکتا ھے جو عقلی طور پر قلاش ھوچکا ھو۔
مکمل تحریر >>

Saturday, November 23, 2013

اسلام اور تھیوکریسی (ملائیت)


جمہوری نظرئیے کے اثرات کے تحت جدید ذھن کے یہاں گویا یہ ایک ثابت شدہ امر ھے کہ ''اسلام میں ملائیت نہیں'' ۔۔۔۔۔ یعنی 'اسلام میں کسی مذہبی گروہ کی اجارہ داری نہیں، اسلام میں کوئی مذہبی طبقہ فیصلے کرنے کا حقدار نہیں' وغیرہ وغیرہ۔ جمہوریت پسند مفکرین کے اس جملے کے پیچھے یہ مفروضہ ھے گویا جمہوریت میں ''عوام فیصلے کرتے ہیں''، جبکہ یہ مفروضہ نہ صرف غیر علمی بلکہ مضحکہ خیز بھی ھے۔ دنیا کے ''کسی بھی'' نظام حیات میں آج تک عوام نے فیصلے نہیں کئے اور نہ وہ اسکے اھل ھوتے ہیں، فیصلے ہمیشہ ایک ''علمی اشرافیہ'' کرتی ھے جو ایک مخصوص علم کے ماھر ھوتے ہیں، وہ علم جو اس مخصوص نظریہ حیات کی روشنی میں معاشرے و ریاست کی تعمیر ممکن بنانے کا طریقہ وضع کرتی ھے جسکی خاطر ریاست تعمیر کی جاتی ھے۔ چنانچہ تعمیر ریاست و علمیت کے درمیان لازمی تعلق ھے، ایسا اس لئے کہ ریاست نام ھے فیصلوں کے صدور و نفاذ کا، اور بغیر علم فیصلوں کا صدور ہی ناممکن ھے۔

یہی وجہ ھے کہ ایک مذہبی ریاست لازما تھیوکریٹک ریاست ھوتی ھے بالکل اسی طرح جیسے جمہوری ریاست لازما ٹیکنوکریٹک (technocratic) ریاست ہوتی ھے۔ چونکہ جمہوری ریاست سرمائے (یعنی آزادی) میں مہمیز اضافے کیلئے قائم کی جاتی ھے لہذا اس ریاست کے تمام کلیدی پالیسی ساز اداروں مین فیصلہ کن حیثیت سرمایہ دارانہ علوم (سائنس و سوشل سائنس) کے ماہرین کو حاصل ھوتی ھے کہ یہی وہ علمیت ہے جو آزادی / سرمائے کی عملی شکل وضع کرتی ھے۔ فیصلوں کے صدور پر سرمایہ دارانہ علوم کے غلبے کے بغیر ایک جمہوری ریاست کا قیام ناممکن ھے۔ گویا ان علوم کے ماہرین کی حیثیت یہاں وہی ھوتی ھے جو مذہبی ریاست میں ''مولوی'' (دینی علوم کے ماہر) کی ھوتی ھے۔ مذہبی ریاست چونکہ خدا کی چاھت پر عمل کو ممکن بنانے کیلئے قائم کی جاتی ھے لہذا یہاں فیصلوں کی کنجیاں انکے ھاتھ میں ھوتی ہیں جو خدا کی مرضی معلوم کرنے کے اھل ھوتے ہیں۔ عوام ہر دو طرز زندگی میں بہرحال ''تقلید'' ہی کرتے ہیں۔

پس خوب سمجھ لینا چاہئے کہ ایک ریاست جتنی مذہبی ھوگی اتنی ہی تھیوکریٹک بھی ہوگی، اور اسکے برعکس جتنی تھیوکریسی سے دور ہوگی اتنی ہی غیر مذہبی بھی ہوگی۔ ریاست کے تھیوکریٹک نہ ھونے کا مطلب ہی یہ ھے کہ فیصلوں کے صدور کی بنیاد خدا کی رضا نہیں بلکہ کچھ اور ھے۔ بعینہہ یہی تعلق جمہوری ریاست و ٹیکنوکریسی کے درمیان بھی موجود ھے۔ جن مسلم مفکرین نے اسلام اور تھیوکریسی کے اس لازمی تعلق کی نفی کی وہ ریاست اور علمیت کے باہمی تعلق نیز جمہوری ریاست کی حقیقت کو سمجھنے سے بھی قاصر رھے۔
مکمل تحریر >>

Friday, November 22, 2013

جدید ذھن کا تصور اجتہاد اور ھمارے متجددین


جدید ذھن کا دینی طبقوں سے مطالبہ یہ ھے کہ جدید دنیا میں تمام تر فیصلے تو ایک ''ماورائے اسلام'' (تنویری) علمی ڈسکورس کی بنیاد پر ہی کئے جائیں گے، ''ملائیت نہیں چلے گی'' کے نام پر دینی علم کے ماھرین کو تو بے دخل کردیا جائے گا، ھاں اقتدار اور فیصلوں کی کنجیاں ماورائے اسلام علمیت کے ماھرین کے ھاتھ میں بہرحال رہنی چاہئیں کہ یہ 'عقل کا تقاضا' ھے،
البتہ
اس (جاہلی) علمیت سے انسانیت کیلئے جو مسائل پیدا ھورھے ہیں اسلام یا تو اس جدید تناظر کے اندر رھتے ھوئے انکا بطور مشیر حل پیش کرے اور یا پھر اس علمیت سے نکلنے والے مجوزہ حل کو بطور آلہ کار جواز فراھم کرے،

اگر اسلام یہ دونوں کام (سرمایہ داری کی مشیری و نوکری) نہیں کررھا تو اسلام ناقابل عمل اور ناکام ھے۔
گویا
اس جدید ذھن کے نزدیک اسلام کا کام یہ ھے کہ وہ ایک ظالمانہ اور باطل نظم اجتماعی کے پیدا کردہ اور حرص و حسد سے مغلوب جدید انسان کے مسائل کو ''اسی کے اندر'' حل کرنے کے طریقے تجویز کرے۔

مزے کی بات یہ ھے کہ ہمارے یہاں ایسے جدید مذھبی سکالرز و دانشوران کی بھی کوئی کمی نہیں جو ''اجتہاد مطلق کا دروازہ کھولنے'' کے شوق میں اس جدید تصور اجتہاد کی آبیاری کرنے میں مصروف ھیں۔
مکمل تحریر >>

''آبادی کا مسئلہ'' اور جدید مذھبی اجتہادات


ایک این جی او کے تحت ''بڑھتی ھوئی آبادی کے مسائل'' پر کانفرنس کے سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ھوئے ایک عالم دین نے ''فیملی پلاننگ کے شرعی جواز'' کے دلائل فرھم کئے (عزل والی احادیث کی بنیاد پر)۔ ایک دوسرے صاحب نے تجدد پسندانہ افکار کو سپورٹ کرتے ھوئے فرمایا کہ اب روایت پسندانہ تشریحات سے علی الرغم بھی تفہیم نصوص پیش کی جاچکی ھے اور اس متبادل فکر کے مطابق اس عمل میں کوئی ممانعت نہیں، خدا نے اس معاملے میں ہمیں اختیار و عقل دی ھے، ہمیں انہیں استعمال کرتے ھوئے اپنے حال پر رحم کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ شرکاء نے ملک کے بیشتر مسائل (مثلا بڑھتے ھوئے جرائم) کی اصل وجہ جاھل و بڑھتی ھوئی آبادی کو قرار دیا، لہذا اسے کم کرنے پر زور دیا گیا۔

جدید نظم معاشرت و ریاست سے جنم لینے والے ایسے بہت سے مسائل ہیں جنکے ''اسلامی حل'' اور ''متبادل'' فراہم کرنے کی ذمہ داری یا تو علماء کے کاندھوں پر ڈال دی جاتی ھے اور یا پھر چند جدید مفکرین خود ہی یہ بار گراں اپنے سر اٹھا لیتے ہیں۔ مگر غور طلب بات یہ ھے کہ کیا ''آبادی کا مسئلہ'' بچے زیادہ پیدا ھوجانے کی وجہ سے پیدا ھوگیا ھے یا یہ نتیجہ ھے کسی دوسرے مسئلے کا؟ درحقیقت آبادی کا مسئلہ چند وجوھات کی بنا پر پیدا ھوا ھے:
1) انسانوں پر ایک ایسے نظم اجتماعی (مارکیٹ و جمہوریت) اور (تنویری) علمی ڈسکورس کا مسلط ھوجانا جو نہ صرف انہیں اپنی ذات و اغراض سے منسلک ھوجانے کو عقل کا تقاضا بتاتے ھیں بلکہ اس جذبے کی آبیاری کیلئے سازگار ماحول بھی فراہم کرتے ھیں، اس ڈسکورس کے تحت یہ جدید انسان لغو اور ذلیل ترین خواھشات (مثلا پرتعیش سامان زیست کی فراہمی، کھیل تماشوں و شکار کا فروغ، فنون لطیفہ کے نام پر فن مصوری، ناچ گانے، مسخرہ پن و اداکاری، آلات موسیقی اور بدکار خواتین کی انڈسٹریز کا فروغ وغیرہ) کی تسکین کو سسکتے ھوئے قریب ترین عزیز و اقارب کی مدد کے مقابلے میں اھم تر، جائز اور اپنا حق سمجھتا ھے اور یہ نظام اسکی ان خواھشات کی تکمیل کیلئے ہر قسم کی سہولیات فراھم کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ نظام ذرائع کے پھیلاؤ کو لگاتار سکیٹرتا چلا جاتا ھے
2) دوسری اھم وجہ ایک ایسے سیاسی نظرئیے کے تحت دنیا کو قومی ریاستوں میں بانٹ دینا ھے جو انسانیت کو کسی ایک جگہ ذرائع کی کمی کے باوجود بھوکوں مرنے پر مجبور کرتا ھے، زمین کے کسی ایک حصے سے دوسرے حصے میں کسے جانے کی اجازت ہوگی اسکا فیصلہ بھی 'سرمایہ ' کرتا ھے

ایسے حالات میں اس جدید انسان کو دنیا میں پیدا ھونے والا بچہ ایک بوجھ (cost) دکھائی دیتا ھے جو اسکے رزق میں حصہ دار اور حریف ھے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ انسان نے اپنی ہی اولاد کو نظریہ نفع و نقصان (cost-benefit analysis) کے مادی پیمانوں میں تولا ھو، اور طرفہ تماشا یہ ھے کہ یہ سب ایک ایسے دور میں ہورہا ہے جب انسان نے اپنی ضرورت سے بہت زیادہ سامان زیست فراہم کرنے کے ذرائع بھی پیدا کرلئے ہیں۔

تو جو اھل علم ان ''جدید مسائل'' کا پس منظر سامنے رکھے بغیر ہی انکے اسلامی حل فراہم کرنے میں مصروف ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا اسلام کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ ایک ظالمانہ اور باطل نظم اجتماعی کے پیدا کردہ اور حرص و حسد سے مغلوب جدید انسان کے مسائل کو ''اسی کے اندر'' حل کرنے کے طریقے تجویز کرے اور انکے جواز فراہم کرے؟ جدید ذھن کا مطالبہ یہ ھے کہ کہ جدید دنیا میں تمام تر فیصلے تو ایک ''ماورائے اسلام'' علمی ڈسکورس کی بنیاد پر ہی کئے جائیں گے، البتہ اس سے جو مسائل پیدا ھورہے ہیں اسلام یا تو اس جدید تناظر کے اندر رھتے ھوئے انکا حل پیش کرے اور یا پھر اس علمیت سے نکلنے والے مجوزہ حل کو جواز فراھم کرے، اگر اسلام یہ دونوں کام نہیں کررھا تو اسلام ناقابل عمل اور ناکام ھے۔ مگر کیا جدید اجتہاد کے نام پر ایسے مسائل کے جو حل پیش کئے جارہے ہیں وہ فروغ اسلام کا پیش خیمہ بننے والے ہیں یا اسی نظم کی ''اسلامی خدمت'' کرکے اسے مضبوط کرنے کے مترادف ہیں؟ اھل علم کو اس سوال پر خوب غور کرنا چاہئے (نفس مسئلہ پر مولانا مودودی کی کتاب ''اسلام اور ضبط ولادت'' اس حوالے سے بہرحال ایک منفرد کتاب ہے کہ مولانا نے مسئلے کو اسکے تناظر میں رکھ کر اس پر حکم لگایا ھے)۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, November 20, 2013

''علل و معلول'' (causation) کی حقیقت


اٹھاریوں و انیسویں صدی کی الحادی سائنس (خصوصا فزکس) سے دماغ کچھ یوں مبہوت ھوئے کہ بڑے بڑے ذہین مسلمان بھی اس کے سامنے سرنگوں دکھائی دئیے۔ اسی کے زیر اثر سرسید جیسوں نے قرآن کے بیان کردہ معجزات کی ایسی مادی تشریحات پیش کیں جن سے انکا معجزاتی پہلو معدوم ھوکر رہ گیا۔ اس فکری کج روی کی وجہ سائنس کے اس دعوے کا رعب تھا کہ ''علل و معلول کے درمیان ایسا لازمی تعلق ھے جسکی ضد ناممکن ھے''۔

درحقیقت یہ دعوی کوئی نیا دعوی نہ تھا بلکہ معتزلہ کے یہاں بھی پایا جاتا تھا جو بعینہ اسی دلیل کی بنیاد پر معجزات پر ھاتھ صاف کیا کرتے تھے۔ امام نے تہافت الفلاسفہ میں اس دلیل کی بے ثباتی جس خوبصورت و قطعی انداز میں واضح کی وہ فلسفے کی دنیا کا ایک اعلی ترین شاھکار بن چکی ھے (مغربی دنیا میں ڈیوڈ ھیوم نے امام سے تقریبا آٹھ سو سال بعد اسی بنیاد پر علل و معلول کے قانون کا نقد پیش کیا تھا)۔

چنانچہ امام (فلاسفہ کے مسئلہ نمبر 17 کے رد میں) بتاتے ہیں کہ جسے ھم علت و معلول کہتے ھیں انکی حقیقت بس صرف اتنی ھے کہ ان میں سے ایک دوسرے کے بعد ظہور پزید ھوتا ھے۔ یہ سمجھنا کہ علت و معلول میں ایک ضروری ربط پایا جاتا ھے اور علت معلول کو پیدا کرتی ھے یہ محض ایک بے بنیاد ظن ھے۔ علت میں نہ کوئی ایسی قوت پائی جاتی ھے جس کی وجہ سے وہ معلول کو وجود بخش سکے اور نہ ہی ان دونوں میں کوئی لازمی و قطعی ربط پایا جاتا ھے جسکی ضد کا تصور محال ھو۔ علل و معلول کی حیثیت مخصوص ترتیب واقعات کے انسانی تجربے (عادت) سے زیادہ کچھ نہیں۔ واقعات کی ترتیب میں جس امر کا ھم عادتا مشاھدہ کرتے ہیں وہ محض 'دو واقعات کی ترتیب' ھوتی ھے نہ کہ 'علت' (cause)، علت تو محض ایک ''ذہنی خیال ھے'' جس کے ذریعے ھم مشاھدے میں آنے والے واقعات میں ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بس۔

امام مزید بتاتے ہیں کہ افعال کا اقتران تقدیر الہی کی وجہ سے ھوتا ھے، اگر ایک فعل دوسرے کے بعد ھوتا ھے تو اسکی وجہ یہ ھے کہ خدا نے انہیں اس طرح پیدا کیا ھے، نہ اس وجہ سے کہ ربط خود ضروری اور ناقابل شکست ھے، تقدیر الہی یوں بھی ھوسکتی تھی کہ بغیر کھائے پیٹ بھر جائے اور گردن کٹنے کے بعد بھی زندگی قائم رھے ....آگ کے روئی کو جلانے کا فاعل ثابت کرنے میں فلسفیوں کے پاس سوائے اس کے کیا دلیل ھے کہ روئی جب آگ سے متصل ھوتی ھے تو وہ جل اٹھتی ھے؟ یعنی انکے پاس محض یہ مشاھدہ ہی ایک دلیل ھے، مگر اس پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ فعل بذات خود آگ کا ھے (پھر امام بہت سی مثالوں سے اسکی وضاحت کرتے ہیں)۔

پس واقعات کی ترتیب اس وقت تک قائم رھتی ھے جب تک خدا کا اذن موجود ھو، جب وہ چاھتا ھے اس ترتیب کو اپنے اذن سے بدل دیتا ھے۔ لہذا معجزے کا انکار کرنا درحقیقت قدرت الہی کو محدود کرنے کے ھم معنی ھے۔ افسوس کہ جدید مسلم متجددین نے نہ اپنوں کے علم الکلام کو غور سے پڑھا اور نہ ہی اھل مغرب کے اور چل نکلے قرآن کی تاویلات باطلہ کرنے۔
مکمل تحریر >>

امام کا علمی منہاج اور شکوک کا ازالہ


کچھ لوگوں کو امام غزالی پر یہ اعتراض رھا ھے کہ امام نے تہافت میں فلسفیوں کے ھتھیار سے فلسفیوں کے افکار کے پرخچے تو اڑا دئیے مگر اثبات الھیات کے باب میں انہوں نے مثبت کلامی دلائل نہ دئیے۔ اس سے بعضوں کو یہ بدگمانی ھوگئی کہ یا تو غزالی نے طلب شہرت کی خاطر فلسفیوں کا رد لکھا (اگرچہ اندر سے انہی باتوں کے قائل تھے) اور یا پھر یہ کہ وہ محض ''تخریب کار'' تھے، انکے پاس کوئی مثبت ایجنڈا موجود نہ تھا۔ مگر یہ دونوں شبہات امام کے طریقہ استدلال اور انکی مجموعی فکر پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ھوئے۔

>> امام کی فکر کا تخریبی پہلو:
یہ وہ پہلو ھے جہاں وہ بالخصوص فلسفیوں کا رد اور اسکا طریقہ کار بتاتے ہیں جسکا افق 'تہافت' میں ملتا ھے (جو گویا ''افکار باطلہ کی تخریب'' کا عمل تھا)۔ اس "تخریب" کیلئے امام نے جو عمومی طرز استدلال اختیار کیا اسے "داخلی تنقید" (internal criticism) کا منہج کہا جاتا ھے۔ اسکے مدمقابل نقد کا دوسرا عمومی طریقہ ''خارجی تنقید'' (external criticism) کہلاتا ھے۔

خارجی تنقید کا مطلب ایک نظرئیے کو کسی دوسرے نظریاتی فریم ورک کے معیارات سے جانچ کر رد کرنا ھوتا ھے۔ مثلا اگر ھم مغربی تصورات کو قرآن و سنت پر پرکھ کر رد کریں تو یہ خارجی نقد کہلائے گا۔ داخلی نقد کا مطلب کسی نظرئیے کو خود اسکے اپنے طے کردہ پیمانوں پر جانچ کر رد کرنا ھوتا ھے۔ اس طریقے کے تحت چند طرح سے تنقید کی جاتی ھے: (i) فریق مخالف کے مفروضات یا دعووں میں تضاد ثابت کرنا، (ii) یہ ثابت کرنا کہ انکے طے شدہ مقدمات سے لازما انکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ھوتے، (iii) مفروضات کی لغویت ثابت کرنا وغیرہ۔ چنانچہ امام نے تہافت الفلاسفہ (Incoherence of Philosophers) میں رداعتزال و فلسفہ کیلئے داخلی نقد کا منہج بطور خاص ھتھیار استعمال کیا (امام سے پہلے اعتزال کے خلاف اسلامی دنیا میں اس طریقے کو اتنے سسٹمیٹک انداز سے کسی متکلم نے استعمال نہیں کیا تھا)۔ امام اس بات کی بطور خاص تاکید کرتے ہیں کہ الحادی مفروضات کو مذھبی پیمانوں پر جانچ کر رد کرنا ممکن نہیں ھوتا کیونکہ مذھب اور الحاد کے علمی تناظر (مفروضات، مقاصد اور نتائج اخذ کرنے کے طریقہ کار) میں بنیادی نوعیت کا فرق ھوتا ھے، لہذا الحاد کو رد کرنے کا درست طریقہ اس پر داخلی تنقید کرنا ھوتا ھے۔ چنانچہ امام یہ خصوصی وضاحت فرماتے ہیں کہ جو لوگ مذھبی نصوص کو الحادی ڈسکورس رد کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف مذھب کا نہایت کمزور مقدمے کی بنا پر دفاع کرتے ہیں بلکہ الٹا اسے نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔

>> امام کی فکر کا تعمیری پہلو:
اگر امام کے ''تعمیری'' پہلو کی طرف نظر کیجائے تو معلوم ھوتا ھے کہ اگرچہ امام نے اس باب میں کلامی و فلسفیانہ طرز پر بھی اسکا اثبات کیا (جسکی نمائندہ کتاب انکا رسالہ ''کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد'' ھے) البتہ امام الہیات کے باب میں اصولا کلام و فلسفے کی بہت زیادہ افادیت کے قائل نہ تھے۔ چنانچہ علم الکلام کا مقصد امام کی نظر میں 'مسلمان شخص کے عقیدے کی حفاظت ھے جو اپنے عقائد کی بنیاد کتاب و سنت قرار دیتا ھو اور یہ چاھتا ھو کہ اسکا عقیدہ فلسفیوں کے شکوک و شبہات سے محفوظ رھے'۔ امام بتاتے ہیں کہ علم الکلام میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایسے شخص کے سینے کو نور ایمان سے منور کردے جو اس سے خالی ھو۔ اسکی وجہ یہ ھے کہ اھل کلام کے پاس جتنے استدلال ہیں وہ بیرونی ساخت کے ہیں اور اسکا حامل انہی دلائل و مسلمات کو لیکر آگے بڑھتا ھے جو یا تو دھوکہ دے جاتے ہیں اور یا پھر کمزور ثابت ھوتے ہیں۔ یہ وجہ ھے کہ اثبات الہیات کے باب میں امام کلام و فلسفے پر زیادہ انحصار نہیں کرتے۔ یہی نقطہ نہ سمجھنے کی بنا پر فلسفہ ذدہ لوگوں نے جب دیکھا کہ امام نے الہیات کا فلسفیانہ اثبات نہ کیا تو وہ مذکور بالا اعتراضات کرنے لگے۔

رہا یہ سوال کہ امام نے پھر اثبات الہیات کا کونسا طریقہ بتایا؟ تو اسکی وضاحت امام نے ''المنقذ من الضلال'' (جو گویا امام کی 'سوانح عمری' ھے) میں کی ھے۔ امام نے یہاں طالبین حق کو چار اقسام میں تقسیم کیا ھے:
1) اہل کلام (اسکی حدود اوپر بیان ھوچکیں)
2) اھل باطن جنکا یہ زعم ھے کہ ھم نے امام معصوم سے سینہ بسینہ تعلیم پائی ھے۔ انکے ساتھ امام اس حد تک تو متفق ہیں کہ عقل محض سے دینی حقائق کا اکتساب نہیں ھوسکتا مگر انکے اس دعوے کو رد کرتے ہیں کہ اس اکتساب کا ذریعہ امام معصوم ھے (امام واضح کرتے ہیں کہ مفروضہ امام معصوم ایک خیالی تصویر ھے جسکا واقعات سے کوئی تعلق نہیں)
3) اھل فلسفہ جنکا یہ گمان ھے کہ ھم ہی اھل منطق ہیں (انکا رد امام نے تہافت میں خود ہی فرما دیا)
4) اھل تصوف جنکا یہ دعوی ھے کہ ھم خاصان بارگاہ ایزدی و اھل مشاھدہ و مکاشفہ ہیں۔ امام فرماتے ہیں کہ صوفیا کا طریقہ علم (دماغی عقل) سے زیادہ 'عمل' (عقلیت قلبی) پر مبنی ھے اور مجھے اس ہی طریقہ کسب کے ذریعے ایمان و ایقان کی دولت میسر آئی۔ امام نے اس طریقہ علم کا ارادہ و تجربہ اس وقت کیا جب وہ اپنے دور کی گویا آکسفورڈ و کیمبرج میں بلند پایہ استاذ الاساتذہ کے مرتبے پر فائز تھے۔ امام خود فرماتےہیں: ''میں نے ایک بہت بڑے جاہ و مرتبہ کو خیرآباد کہا اور زندگی کی عارضی و فانی لذتوں کو جو اس وقت مجھے بلا تکلیف حاصل تھیں کسی اھم مقصد (ایقان بر حقیقت) کی تلاش میں جواب دے دیا، ان لذتوں سے میں اس وقت کنارہ کش ھوا جب انکے حصول میں میرے لئے کوئی مزاحمت نہ تھی''۔ امام کہتے ہیں کہ جب میں اس راستے پر چلا تو مجھ پر بے شمار امور کا انکشاف ھوا اور مجھے معلوم ھوگیا کہ صوفیا ہی حقیقی راستے پر چلنے والے ہیں۔

جب امام کو یہ دولت ایمانی میسر آگئی تو انہوں نے ''احیاء العلوم'' (نیز 'کیمیائے سعادت') تحریر کی جس کے حصہ سوئم و چہارم میں امام اس قلبی عقلیت کی تعمیر کا طریقہ بتاتے ہیں جو حقیقت تک رسائی کا ذریعہ بنتا ھے (جنکے اسرارورموز سے امام نے کتاب الصبر، کتاب الشکر، کتاب المحبت، کتاب التوکل' میں پردہ اٹھانے کی کوشش کی ھے)۔

پس جو لوگ امام کے اس مجموعی فکری نظام پر نظر نہ رکھ سکے وہ امام کے بارے میں طرح طرح کے شبہات کا شکار ھوگئے۔ (سائنسی علمیت سے متاثر ھونے کی بنا پر علامہ اقبال بھی اپنے خطبات میں امام پر ایک اعتراض کرتے ہیں جسکا ذکر انشاء اللہ کسی دوسری پوسٹ میں ھوگا)
مکمل تحریر >>

Monday, November 11, 2013

مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم اور پاگل پن کا فروغ


مارکیٹ یا سول سوسائٹی اور مختلف الانواع ذھنی امراض کے فروغ میں بھی راست تناسب ھے۔ اسکی وجہ اس معاشرت کے افراد پر 'efficiency' (کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداواری کام) کا عمومی جبر ھوتا ھے۔ چنانچہ یہ ایفیشنسی کا جبر فرد پر بے شمار قسم کے دباؤ مسلط کرکے اسے ذہنی تناؤ (stress) کا شکار کردیتا ھے۔

کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کا حصول مسلسل (uninterrupted) کام کا متقاضی ھوتا ھے، جسکے لئے کڑی نگرانی (surveillance) کا نظم مسلط کرنا ضروری ھوتا ھے (کون کب آتا اور جاتا ھے، کام کے اوقات کے دوران کیا کرتا ھے اس پر نظر رکھی جاتی ھے، فلاں وقت پر ڈیوٹی شروع ھوگی اور فلاں پر ختم، نیز فلاں وقت پر کھانے یا چائے کیلئے مخصوص دورانیے کا وقفہ ھوگا، سال کے آخر میں Annual Performance Report کے ذریعے کارگردگی کا جائزہ لیا جائے گا وغیرہ)۔ اس سرویلیئنس کے نتیجے میں ان معاشروں کے لوگ ''گھڑی کے اوقات'' کے بارے میں انتہائی حساس (clock time conscious) ھوجاتے ہیں (چند منٹوں کا فرق بھی انکے اعصاب پر سوار ھوجاتا ھے)۔ سرمایہ دارانہ پیداوای نظم (for profit business enterprise) کا فروغ ہی وہ دور ھے جب گھڑیاں رکھنے کا رواج عام ھوا۔ بڑھوتری سرمایہ پر مبنی یہ نظام 'کام' کو 'زندگی' پر بری طرح سوار کردیتا ھے (مثلا صبح کے گئے دن ڈھلے واپسی ھوگی،اور پھر اوور ٹائم، یعنی زندگی کے بہترین اوقات اس نگرانی زدہ نظام کا شکار ھوجاتے ہیں)، نتیجتا ورک-لائف بیلنس (work-life balance) کے شدید پریشرز و مسائل پیدا ھوجاتے ہیں (گھریلو زندگی کو وقت نہ دینے کی وجہ سے تعلقات بھی خراب ھوجاتے ہیں، یہاں تک کہ میاں بیوی اور بچوں کے آپسی بھی)۔ یہاں فرد ''پروفیشنل تعلقات'' (مثلا آفس کلیگز جن سے بنیادی طور پر اسکا تعلق محبت نہیں بلکہ اغراض کا ھوتا ھے) کے درمیان گھرا رھتا ھے اور جو کبھی اسے ''اسکے اپنے'' ھونے کا احساس نہیں دلا سکتے۔

جوں جوں معاشروں کی مارکیٹ سازی کا عمل آگے بڑھا، نئ قسم کی معاشرتی صف بندی کو ممکن بنانے والے جدید اداروں (مثلا تعلیمی اداروں، ھسپتال) کی صف بندی بھی اسی ''فیکٹری ڈسپلن'' پر استوار کی گئی۔ ایفیشنسی (کم سے کم وقت و لاگت میں زیادہ سے زیادہ سرمائے کے حصول) کا یہ جبر تعلیمی اداروں کے ذریعے مختلف قسم کے پریشرز کی صورت میں طلباء پر مسلط ھوجاتا ھے اور انہیں مجبور کرتا ھے کہ وہ ایفیشنٹ بنیں، بصورت دیگر یہ نظام انہیں نکال باھر کرتا ھے (مثلا گریڈنگ سسٹم کا پریشر کہ کمپنیاں اچھے گریڈرز کو ہی نوکری دیتی ہیں، ہمہ وقت کوئز (quiz) کا پریشر، وقت پر اسائنمنٹ و پراجیکٹس مکمل کرنے کا پریشر، حاضری کا پریشر وغیرھم)، الغرض یہ پریشرز ملکر فرد میں ملٹی ٹاسکنگ، ٹائم مینیجمنٹ، سرویلیئنس کی پابندی وغیرہ کی صلاحیتیں اجاگر کرتی ہیں۔ یہ تعلیم گاہیں گویا اس جدید انسان کی تربیت گاہ ھوتی ھے جو اسے حصول سرمایہ کیلئے ایک ایفیشنٹ اوزار (tool) میں تبدیل کردیتی ہیں۔ یہ تناؤ ذدہ (stress ridden) اس تعلیمی نظام ہی کا نتیجہ ھے کہ یہاں بے شمار طلباء ''ناکامی کے خوف'' یا ''ناکامی کے احساس ندامت'' کی وجہ سے خودکشیاں کرلیتے ہیں۔

لامحدود خواھشات کی تکمیل کی تگ و دو پر مبنی اس نظام میں فرد مختلف الانواع قسم کے جن پریشرز و ذہنی امراض کا شکار ھوتا ھے اسے ان سے چھٹکارا دلانے کیلئے بڑے پیمانے پر ماہرین نفسیات کی ضرورت پڑتی ھے جو فرد کو ''سٹرس مینیجمنٹ'' کے طریقے (stress management techniques) اور ادویات بتاتے ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا ہر کسی کا ''فیملی نفسیاتی ڈاکٹر'' ھوتا ھے (جو چھوٹے بچوں سے لیکر بڑوں سب کے 'پاگل پن' کا علاج کرتا ھے)۔ یہاں پاگل پن ''اس نظم میں کام کرنے نیز اسکا حصہ بننے سے اکتاھٹ کی کیفیت'' کا نام ھوتا ھے۔ درحقیقت یہ ماہرین نفسیات فرد کے اندر اس نظام کی وجہ سے جو نفسیاتی مسائل پیدا ھوتے ہیں ان کا حل تلاش کرکے اسے اسی نظم کے اندر سمونے نیز اسے اسکا حصہ بنے رھنے پر راضی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم ورک لائف بیلنس قائم نہیں کرپارھے یا تعلیمی ادارے کا پریشر برداشت نہیں کرپارھے تو یہ نظام کا نہیں بلکہ تمہارا قصور ھے، نظام تو ماشاء اللہ تمہارے فطری تقاضے (آزادی یعنی سرمائے) کا اظہار ھے، البتہ تمہاری فطرت ''اپنی اصل بنیاد'' سے ذرا ہٹی ھوئی ھے لہذا تم اسکی ''اصلاح و تزکیہ'' کرو تاکہ اسکا ایفیشنٹ پرزہ بن سکو (یوں سمجھئے یہ نفسیات دان گویا اس نظام میں تقریبا وہی کام سرانجام دیتے ہیں جو اسلامی معاشرے میں ''مزکیین'' کا ھوتا ھے)۔

اس تجزئیے سے چند باتیں معلوم ھوئیں:
1) سرمایہ دارانہ نظام ایک انتہائی جابرانہ (coercive) نظام ھے جو سرمائے میں اضافے (آزادی) کے سواء کسی دوسرے مقصد کی خاطر زندگی ترتیب دینے کے تمام طرق ناپید کرتا چلا جاتا ھے، گویا یہ ''سرمائے کی غلامی'' کو عمومی فروغ دے کر انسانیت کو عبدالدرھم و دینار بننے پر مجبور کرتا ھے۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ بدترین شرک ھے جسکی کوئی نظیر نہیں
2) سرمائے میں اضافے کا یہ فروغ چونکہ فطرت انسانی ('بندگی رب' کہ انسان بہرحال خدا کا بندہ ھے انکار کرے یا اقرار) سے بغاوت ھے لہذا یہ سرمائے (آزادی) کا جبر فرد کو اضطرار (frustration) کا شکار کرتا ھے، یہی 'ھیومن' کی بنیادی روحانی کیفیت ھے جو اسے بے چین رکھتی ھے۔ گناہ سے آگاہی ہی ھیومن (جدید انسان) کے اضطرار کی بنیاد ھے
3) علم نفسیات کو کسی معنی میں تصوف کا تسلسل یا متبادل سمجھنا کم علمی ھے۔ تصوف وہ عظیم الشان اسلامی علم ھے جو انسانی ذات کی 'عبدیت' کو بطور مفروضہ قبول کرکے فرد میں اس میلان کو فروغ دینے اور اس میں اس پر راضی ھونے کی ترغیب و تحریک پیدا کرتا ھے۔ گویا یہ ''تزکیہ نفس'' کا علم ھے (کہ یہ اخلاق رزیلہ کو ختم نیز اخلاق حمیدہ کو فروغ دے کر نفس کو جذبہ عبدیت پر راضی کرتا ھے)۔ اسکے مقابلے میں علم نفسیات تحریک تنویر سے پھوٹنے والی وہ علمیت ھے جو نفس انسانی کی آزادی پر یقین رکھتی ھے اور اسی پیراڈئیم میں اسکا تجزیہ کرکے اسکے ان مسائل کا تجزیہ کرتی ھے جو اسے آزادی قبول نہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ انہی مسائل کا حل اسکا اصل میدان ھے۔ گویا یہ ''نفس کو کثیف'' بنانے کا علم ھے (کہ فرد کو آزادی یعنی بغاوت رب پر مائل کرتی ھے)۔
4) جو لوگ ''حاکمیت سرمایہ'' کو چیلنج کئے بغیر اسی کے تحت ''صالحین پیدا کرنے کے پراجیکٹ'' لگا کر تقوی و اخلاق حمیدہ کے عمومی فروغ کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ سادہ لوح ہیں (یہ گویا ''حاکمیت فرعون کے تحت'' صالحین پیدا کرنے کا خواب دیکھتے ہیں) اور جو لوگ اس نظام کے خلاف جہاد ہی کی ضرورت کے قائل نہیں کہ انکے خیال میں یہ جبرا انسانیت کو بندگی رب سے دور نہیں کرتا (بلکہ یہ تو ماشاء اللہ جمہوریت کے ذریعے سب دعوتوں کے فروغ کا موقع دے رھا ھے) وہ بصیرت ہی سے عاری ہیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday, November 7, 2013

سلسلہ تعلیمات غزالی ۔۔۔۔۔۔ کس سے بحث کریں اور کس سے نہیں؟


امام ''ایہا الولد'' میں فرماتے ہیں:

''خوب جان لے (میرے بیٹے) کہ جاھل لوگ ایسے مریضوں کی مانند ھوتے ہیں جن کے دلوں میں خامی ھے اور عالم طبیبوں کی مانند ہیں.....لاعلاج بیماری کے علاج میں مشغول رھنا وقت کا ضیاع ھے۔ اب تو سمجھ کہ جاہل مریض چار قسم کے ھوتے ہیں، ان میں سے ایک کا علاج ممکن ھے باقی تین لاعلاج ہیں۔
- پہلا وہ جو حسد کی وجہ سے سوال پوچھے یا اعتراض کرے۔ حسد ایک ایسی مہلک بیماری ھے (بحث) جس کا علاج نہیں، تو جو بھی جواب دے گا خوہ وہ کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ھو لیکن وہ تجھے اپنا دشمن شمار کرے گا اور اسکی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑکے گی (لہذا وہ اسمیں نکتہ سازی جاری رکھے گا)۔ اس کا مداوا یہ ھے کہ اس حاسد کو تو چھوڑ دے
- دوسرا مریض وہ ھے جسکی بیماری کا سبب اسکی حماقت یا بیوقوفی ھے۔ جاہل احمق وہ ھے جو علم حاصل کرنے میں بہت کم وقت صرف کرتا ھے، نہ ہی علوم نقلیہ و عقلیہ کی ابھی ابتداء کی لیکن بڑے بڑے علماء پر اعتراض کرتا ھے.....اسے معلوم ہی نہیں کہ اسکا یہ اعتراض فضول ھے اور اس بڑے عالم کی علمی گہرائی کو اس نے سمجھا ہی نہیں۔ تو جب وہ یہ سب سوچ ہی نہیں سکتا تو یہ اعتراض و سوال اسکی نادانی ھے۔ ایسے شخص سے بھی الگ رھنا چاہئے اور اسے جواب نہیں دینا چاھئے
- تیسری قسم کا بیمار وہ ھے جو اپنی بے قراری و بے صبرے پن کی وجہ سے اہل علم کی باتیں نہ سمجھے اور اپنی کم عقلی پر بھروسہ کئے رھے۔ ایسا شخص بھولا اور بے عقل ھوتا ھے اور اسکا ذھن حقائق کو سمجھنے سے قاصر ھوتا ھے۔ اسے بھی جواب دینا ضروری نہیں (یہاں امام کا اشارہ غالبا علم کی دنیا کے مبتدی کی طرف ھے، واللہ اعلم)
- چوتھی قسم کا بیمار وہ ھے جو صراط مستقیم کا طلب گار ھو، فرمانبردار اور ذکی ھو، اسمیں غضب، نفس پرستی، حسد اور دولت کی جاہ نہ ھو۔ پس جو راہ حق کا متلاشی ھو اور سوال یا اعتراض حسد، عیب جوئی یا امتحان لینے کی غرض سے نہ کرے ایسا ہی شخص وہ مریض ھے جسکا علاج کیا جاسکتا ھے۔ چنانچہ اس شخص کے سوال کا جواب دینا نہ صرف جائز بلکہ واجب ھے''
مکمل تحریر >>

سلسلہ تعلیمات غزالی ۔۔۔۔۔۔ مناظرے کا اصول


''ایہا الولد'' میں امام نصیحت فرماتے ہیں:

''اول یہ کہ جہاں تک ھوسکے کسی سے مناظرہ نہ کر کیونکہ اس میں بہت سی آفتیں ہیں اور فائدے سے زیادہ نقصان ھے۔ مناظرہ و بحث بازی کا یہ کام برے خصائص مثلا ریاکاری، حسد، غرور، کینہ، دشمنی، فخر اور ناز وغیرہ کا سرچشمہ ھے۔ اگر تیرے اور دوسرے شخص کے درمیان کوئی مسئلہ چھڑ جائے اور تیری خواھش ھو کہ حق ظاھر ھو تو اس مسئلے پر بحث کرنے میں تیری نیت کی درستگی کی دوعلامات ہیں:
1) اگر حق تیری یا تیرے مخالف کی زبان سے ظاھر ھو تو تو اس میں کوئی فرق نہ کرے یعنی دونوں صورتوں میں راضی رھے کہ بہرحال حق ظاھر ھوگیا
2) تو تنہائی میں بحث کرنے کو ترجیح دے۔ اگر دوران بحث تجھے یقین ھوجائے کہ تو حق پر ھے اور مخالف صرف بحث بازی کررھا ھے تو تو خبردار ھوجا اور اس سے بحث نہ کر اور بات کو وہیں ختم کردے (یعنی اپنے نفس کو آڑے نہ آنے دے کہ میں تو ابھی غالب ہی نہیں آیا) ورنہ خوامخواہ رنجش پیدا ھوگی اور کوئی فائدہ نہ ھوگا''
مکمل تحریر >>

سلسلہ تعلیمات غزالی ۔۔۔۔۔۔ تصوف کی حقیقت


امام (رح) کے ایک شاگرد نے سالہا سال آپ سے فیضیاب ھونے کے بعد آپ کو ایک خط لکھا جس میں آپ سے ایسی نصیحت کرنے کو کہا جسے وہ ہر لمحہ مستحضر رکھ کر اس پر عمل کرسکے۔ اسکے جواب میں امام نے جو نصائح تحریر کیں وہ ''ایہا الولد'' (یعنی 'میرے پیارے بیٹے') کے نام سے مشہور ھوئیں۔ ان مختصر اور قیمتی نصیحتوں کے ضمن میں امام تحریر فرماتے ہیں:

''تو نے یہ پوچھا کہ تصوف کیا ھے؟ تصوف دوخصلتوں کا نام ھے: پہلی یہ کہ تو اللہ کا وفادار ھو یعنی شرع پر عمل کرتا ھو اور دوسری یہ کہ اللہ کی مخلوق سے ہمدردی و بھلائی کرنے والا ھو۔ پس جس میں شریعت پر ثابت قدمی اور بندوں کی فلاح کی خوبیاں جمع ھوں وہ صوفی ھے۔ اللہ سے وفا داری یہ ھے کہ اپنی خوشی کو اللہ کے واسطے قربان کردے، لوگوں سے بھلائی یہ ھے کہ لوگوں سے محض اپنی غرض کی خاطر تعلقات نہ رکھے اور نہ ہی خود غرضی سے کام لے بلکہ خود کو لوگوں کی بھلائی کیلئے وقف کرے، بشرطیکہ یہ بھلائی شریعت کے مطابق ھو''

فائدہ: دیکھئے امام نے یہاں کس خوبصورتی کے ساتھ ذاتی اغراض کی متلاشی ذھنیت کی نشاندہی فرما کر مارکیٹ نظم کا رد فرمایا
مکمل تحریر >>

Wednesday, November 6, 2013

کسی نظرئیے یا مقصد کے ساتھ پیش آسکنے والا اصل فکری مسئلہ یہ نہیں کہ وہ مخالفین کی کسی زبردست علمی تنقید کی زد میں ھو بلکہ یہ ھوتا ھے کہ اسکے حامیین کمزور اور غلط بنیادوں پر اسکا دفاع کررھے ھوں۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, November 5, 2013

سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم اور جرائم کی کثرت

جدید دور کی ایک نمایاں خصوصیت جرائم میں بے تحاشا اضافہ بھی ھے۔ جرائم کے اس فروغ اور مارکیٹ نظم میں راست تناسب ھے۔ کیوں؟ تین وجوہات کی بنا پر:
1) مارکیٹ نظم لامحدود خواھشات کی تکمیل کیلئے ہر شخص کو ذاتی اغراض کا اسیر بنا کر حصول سرمایہ کی جدوجہد کو پروان چڑھاتا ھے
2) یہ نظم معاشرے کو انفرادیت پسندی پر منتج کرکے خاندان کی فطری معاشرت کو تہس نہس کردیتا ھے، یوں فردکی تربیت و اصلاح کو محبت و صلہ رحمی کے تانے بانے سے منقطع کرکے فرد کو پروفیشنلز (ڈے کئیر سینٹرز، ٹی وی، ویڈیو گیمز، خود غرضانہ تعلیم دینے والے جدید تعلیمی اداروں وغیرہ) کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ھے
3) خداندانی نظم کے مقابلے میں یہاں ہر فرد 'اکیلا' ھوتا ھے، لہذا روایتی تعلقات کی حدبندیوں اور چیکس اینڈ بیلنسز کے نہ ھونے کے نتیجے میں واردات کرجانا (اس طرح کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلے) نہایت آسان ھوجاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ قبائلی یا برادری نظم معاشرت میں جرائم کی شرح نہایت کم ھوتی ھے کہ یہاں فرد کیلئے ایسے ''نامعلوم افراد'' کے کردہ جرائم کے مواقع ہی نایاب ھوتے ہیں (جو لوگ گاؤں کی زندگی سے واقف ہیں وہ اسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ کس طرح ہر ایک شخص کو جانتے ھوتے ہیں نتیجتا کسی کیلئے جرم کرنا آسان نہیں ھوتا کہ وہ ہزاروں ''جاننے والی آنکھوں'' کے سامنے ھوتا ھے)

جرائم کی حد سے بڑھی ھوئی اس شرح کو کنٹرول کرنے کیلئے زبردست ریاستی نگرانی و جبر (surveillance) کی ضرورت پڑتی ھے، مگر اس کے باوجود بے تحاشا جرائم ھوتے ہیں کیونکہ ریاست بہرحال ہر اکیلے خود غرض فرد کو اپنے سے طاقتور خودغرض اکیلے سے بچانے کیلئے موجود نہیں ھوسکتی اور ریاست کے علاوہ یہاں کوئی پناہ گاہ نہیں ھوتی (جیسے کہ قبائلی یا برادری نظم میں موجود ھوتی ھے)۔ لہذا ریاست ان خود غرض افراد کو تحفظ فراھم کرنے کیلئے سرویلئنس کا دائرہ بڑھاتے بڑھاتے انکے بیڈ روم یہاں تک کہ انکی جیبوں تک پہنچ جاتی ھے (تاکہ ہر کسی پر نظر رکھ سکے کہ کون کیا کررھا ھے)۔


علم معاشیات کا یہ دعوی ھے کہ ذاتی اغراض پر مبنی معاشرتی (مارکیٹ) نظم ایک خودکار ھم آھنگی (equilibrium) سے ہمکنار ھونے والا نظام ھے (یعنی ذاتی اغراض کی جدوجہد معاشرتی ھم آہنگی کے حصول کا سب سے بہترین ذریعہ ھے، لہذا حصول ھم آہنگی کیلئے ریاستی مداخلت کی ضرورت نہیں)۔ مگر یہ ایک سفید جھوٹ ھے (جو نیوکلاسیکل اکنامکس کی تقریبا تمام کتب میں لکھا ھوا ھے)۔ درحقیقت مارکیٹ نظم ایک ایسا معاشرتی نظام ھے جو ہمہ وقت بحرانوں (dis-equilibrium and crises) کا شکار رھتا ھے اور جسے سہارا دئیے رکھنے کیلئے ریاست کی زبردست جابرانہ قوت و ہمہ وقت مداخلت کی ضرورت ھوتی ھے۔ ایسا اس لئے کہ حصول آزادی (لامحدود خواھشات کی تکمیل) ایک غیر عقلی، غیر فطری و نا ممکن الحصول مقصد ھے۔ اس معاشرت میں جرائم و کرپشن کی کثرت اسی غیر عقلیت کا ایک اظہار ھے۔

چنانچہ مارکیٹ نظم میں جرائم کی محض معروف شکلوں (چوری، ڈاکہ، قتل، ریپ، بدکاری وغیرہ) میں ہی اضافہ نہیں ھوتا بلکہ کرپشن (رشوت، جھوٹ، ملاوٹ، دھوکہ بازی، چور بازاری، دو نمبری، لوٹ مار،اختیارات کے بے دریغ استعمال وغیرہ) میں بھی بے پناہ اضافہ ھوتا ھے۔ ذاتی اغراض کی تکمیل کی خاطر کنٹریکٹ پر مبنی اس معاشرت میں ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کا اسیر ھوتا ھے، ھر دوسرا یہاں اصولا اسکا مدمقابل ھے جس کے ساتھ اسکے تعلق کی نوعیت اسے اپنی اغراض کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا ھے۔ مزید یہ کہ یہ نظام اسے لامحدود خواھشات کی تکمیل کا متلاشی بنا کر حصول سرمایہ کی چاھت کو دیگر تمام چاھتوں سے مقدم کرنے پر راضی کرتا ھے۔ نتیجتا ایسی معاشرت میں فرد اپنے فائدے کیلئے دوسرے کو کاٹ کھانے و لوٹ لینے کیلئے چوکنا رھتا ھے۔ بظاہر خوشنما دکھائی دینے والے اس مارکیٹ نظم سے اگر چند لمحوں کیلئے ریاست کی نگرانی ھٹالی جائے تو اسکی بدنما شکل روز روشن کی طرح عیاں ھوجاتی ھے۔ مثلا اس نظم میں اگر ڈاکٹرز، وکیلوں، سکول و یونیورسٹیز، کارخانے داروں، ملٹی نیشنلز، بینکوں وغیرھم سے ریاستی ریگولیشن ختم کردی جائے تو سب اسکا اصلی چہرہ دیکھ لیں گے (اسکے مظاہرے تو آئے دن ھم دیکھتے رھتے ہیں)۔ درحقیقت اس معاشرتی نظم کی اصل شکل دیکھنا ھو تو دنیا کے ایسے ممالک میں دیکئھے جہاں سرمایہ دارانہ ریاست کی سرویلینس کمزور ھے (مثلا پاکستان یا اس جیسے دیگر مریل ٹائپ لبرل سرمایہ دار ممالک)۔ ان ممالک میں پائے جانی والی حد سے بڑھی ھوئی یہ کرپشن و جرائم مارکیٹ نظم کا بھیانک مگر اصلی چہرہ ھے (آج بھی ایسے ممالک کے دیہی علاقوں میں کرپشن و جرائم کی شرح اسکے ترقی یافتہ شہروں کے مقابلے میں نہایت کم ھوتی ھے باوجود اس کے کہ دیہی علاقوں میں ریاست تقریبا نہ ھونے کے برابر ھوتی ھے)۔ ان میں کمی لانے کی واحد سبیل ریاستی ریگولیشن و مداخلت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جانا ھے (نتیجتا ریاست ایک بھوت بن کر فرد کی زندگی پر حاوی ھوجاتی ھے تاکہ ھر ''اکیلے فرد'' کو دیگر تمام اکیلوں سے بچایا جا سکے)۔

اب طرفہ تماشا دیکئھے؛ ایک طرف یہ نظام (اور اسکی علمیت) فرد کو یہ آگہی دیتا اور اسے یقین دلاتا ھے کہ اپنی ذاتی اغراض (آزادی) کی تکمیل کیلئے تمہیں ریاست کی ضرورت نہیں کہ مارکیٹ ایک خودکار نظام ھے، مگر عملا یہاں ہر فرد صرف اور صرف ریاست کے رحم و کرم پر ھوتا ھے اور اسی کی طرف دیکھ رھا ھوتا ھے (کہ ریاست یہ کرے، ریاست وہ کیوں نہیں کررھی وغیرہ)۔ مگر اس قدر واضح تضاد کے باوجود جدید ذھن اس نظام کو اپنا نجات دھندہ سمجھ رھا ھے۔ یہ بھی دھیان کہ یہ وہی جدید ذھن ھے جو مذھبی طبقوں کی طرف سے دی جانے والی ہر متبادل دعوت کو خوردبین لگا کر اسمیں رخنے نکال لاتا ھے۔ اسے کہتے ہیں ڈسکورس کا جبر، اور عام آدمی اسکا شکار ھوئے بنا نہیں رہ سکتا۔
مکمل تحریر >>

سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم اور اسلامی و روایتی انفرادیت کی شکست و ریخت کا باہمی تعلق ۔۔۔۔۔۔۔ اسلاف کے فہم اسلام کی فوقیت نیز مسلم ماڈرنسٹ فکری رویے کی بنیاد


مارکیٹ پر مبنی معاشرتی نظم یا سول سوسائٹی چونکہ ہر فرد کو ''ذاتی اغراض (آزادی) کا متلاشی اکیلا'' انسان تصور کرتی ھے لہذا یہ اسی انفرادیت کے پنپنے کے امکانات ممکن بناتی ھے، سول سوسائٹی اسکے سواء کسی دوسری انفرادیت کے عمومی فروغ کاذریعہ نہیں بن سکتی (جو ایسا سمجھتے ہیں وہ اسکی حقیقت سے واقف ہی نہیں)۔ ذاتی آزادی کے رسیا شخص کیلئے ہر دوسرا شخص اسکی آزادی کو محدود کرنے کی علامت ھے (سارت کے الفاظ میں hell is other people، یعنی میرے علاوہ دوسرے سب لوگ میری جہنم ہیں)۔ لہذا یہاں ایک فرد کے دوسرے فرد کے ساتھ تعلق کی بنیاد ایک عمرانی معاہدہ (سوشل کنٹریکٹ) ھوتا ھے، محبت یا صلہ رحمی نہیں۔ اس کنٹریکٹ کے تحت ذاتی آزادی (حقوق) کے متلاشی یہ افراد ایک دوسرے کو اس بنیاد پر برداشت کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں کہ (1) ہر فرد کو اپنی ایسی ذاتی اغراض کی تکمیل کا پورا پورا موقع ملے گا جس سے دوسرے کے 'حق خود ارادیت' میں مداخلت نہ ھوتی ھو (2) انکے درمیان تعلق کی بنیاد باہمی اغراض کی تکمیل ھوگی۔ یہاں دو افراد کے درمیان تعلق ''محبت و ملاپ'' (union) کا نہیں بلکہ ''معاہدے و ملکیت'' ( possession or contract) کا ھوتا ھے۔

جن جدید مسلم مفکرین نے اس سرمایہ دارانہ (سول سوسائٹی) عمرانی معاہدے کو معاہدہ نکاح پر قیاس کرکے اسلامی معاشرتی و ریاستی نظم کی تشکیل کو عمرانی معاھدے کے تناظر میں دیکھا وہ شدید غلط فہمی کا شکار ھوئے۔ بھلا معاہدہ نکاح و عمرانی معاھدے کا کیا موازنہ، ایک محبت و صلہ رحمی کے جذبات کے تحت عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ ھے جبکہ دوسرا محض دوسرے کو اپنی اغراض کی تکمیل کیلئے ناگزیر برائی سمجھ کر اسے برداشت کرنے کا معاہدہ۔ یہی وجہ ھے کہ عمرانی معاھدے پر مبنی معاشرت میں خاندان لازما تحلیل ھوجاتا ھے (کہ ذاتی اغراض کی عقلیت پر مبنی عمرانی معاھدہ محبت کی نفی ھے)۔ اس عمرانی معاھدے میں شامل ھونے والا فرد ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹا، بیٹی، ماما، تایا، پھوپھی، خالہ الغرض تعلقات سے ڈیفائن ھونے والی کوئی مخصوص انفرادیت نہیں بلکہ ''ذاتی آزادی (اغراض) کا متلاشی مجرد فرد'' ھوتا ھے، اسی طرح مارکیٹ (سول سوسائٹی) فریم ورک ہر فرد کو مسلم، عیسائی، ھندو، سکھ (خدا کا بندہ ھونے کا اقرار کرنے کی مختلف روایتی شکلوں) کے طور پر بھی نہیں دیکھتا بلکہ (غلط طور پر) اسے ان تمام قسم کے تعلقات سے ماوراء و ماقبل متصور کرتا ھے۔

ظاھر ھے ایک ایسا قانونی فریم ورک (ھیومن رائٹس فریم ورک) جو ان تمام تعلقات سے سہو نظر کرکے تعمیر معاشرت کیلئے وضع کیا گیا ھو وہاں روایتی تعلقات اور اس سے تشکیل پانے والی صف بندیاں کیونکر فروغ پا سکتی ہیں؟ نہ صرف اتنا کہ یہاں اسلامی و روایتی انفرادیت پنپ نہیں سکتی بلکہ اس قانونی فریم ورک کے اندر اس انفرادیت کے اظہار کا تقاضا، اسے ممکن بنانے والی ادارتی صف بندی اور اس صف بندی کو ریشنلائز کرنے والا علمی و قانونی (فقہی) فہم سب غیر معتبر معلوم ھونے لگتا ھے۔ یہی ہمارے متجددین کی فکری بنیاد ھے جو فقہ کے تمام ذخیرے کو دریا برد کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ایسا فہم اسلام مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا مقصد اس نئی ادارتی صف بندی اور اسکے تقاضوں کا اسلامی جواز فراھم کرنا ھوتا ھے۔

اب ذرا تصور کیجئے کہ ایک ایسا معاشرتی نظم جہاں خدا کا بندہ ھونے کی شناخت مہمل اور نکاح ہی معدود ھوگئے ھوں؛ وہاں:
- صلہ رحمی کس قدر بے معنی بات معلوم ھوگی (اس معاشرت کا فرد مروت و لحاظ کے جذبات کے تحت ان بیکار کے رشتوں میں کیونکر الجھتا پھرے گا)
- صدقہ خیرات و اموال باطنہ پر زکوت کیلئے قریبی رشتہ داروں کو ترجیح دینے کی بات کس قدر غیر عقلی بن جائے گی (ظاھر ھے ایسے معاشرتی نظم میں لوگ افراد کے بجائے اداروں کو ہی زکوت و صدقات کیلئے ترجیح دیں گے کہ یہی انکے 'خیرخواہ' ھوتے ہیں اور نتیجتا زکوت کیلئے 'تملیک' کی شرط بارگراں معلوم ھوگی کہ کسی نہ کسی طرح اسے غیرضروری ثابت کردیا جائے، جیسا کہ جدید مفکرین نے اسکی کوششیں کیں)
- مرد کی قوامیت پر مبنی نظم معاشرت بھلا کیسے قلوب میں جاگزیں ھوگا
- قانون میراث اور اسکی باریکیاں کس قدر لغو شے بن کررہ جائیں گی (فرد آخر کیونکر ایسے افراد میں اپنی دولت تقسیم ھونے پر راضی ھوگا جنکا یا تو غالب معاشرتی وجود ہی نہ ھو اور یا پھر وہ اس سے غیر متعلق ھوچکے ھوں)
- نکاح کیلئے ھم مذھب ھونے کی حدود کیوں نا غیر فطری معلوم ھونگی
- گستاخی رسول و ارتداد کی سزائیں بھلا کیسے ھضم ھوسکیں گی
- کفر سے بیزاری کا تصور فکر و نظر پر کیوں نہ بوجھل معلوم ھوگا
- اور جو ذھنیت تاریخی معتبر دین اور قرون اولی کی طرف مراجعت کی دعوت دے رہی ھوگی وہ بھلا کیوں نہ دقیانوسی و غیر متعلق معلوم ھوگی

یہ مقام ھمارے 'اجتہاد مطلق' کے شوقین حضرات کیلئے لمحہ فکریہ ھے کہ اجتہاد کا یہ شوق وہ کس تناظر میں بیٹھ کر پورا کررھے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جدید معاشرتی و ریاستی تناظر کا تجزیہ کرکے اسے وحی کی روشنی میں نبی اور اسکے اصحاب کی قائم کردہ معاشرت و ریاست پر جانچنے کے بجائے الٹی گنگا بہانے چل نکلے۔ یہ اس جدید تناظر کے اندر بیٹھ کر اس سے نکلنے والی عقلیت و ادارتی صف بندی کو معیار بناکر پوری اسلامی تاریخ کو ہی جانچنے بیٹھ گئے اور نتیجتا چن چن کر ہر ایسی شے کو وحی کا غلط فہم قرار دیتے گئے جو اس جدید تناظر میں فٹ ھونے کی صلاحیت نہ رکھتی ھو۔ اس فکری روش کا نام انہوں نے ''اجتہاد مطلق'' سمجھ لیا۔ ان ''جدید عقلمندوں'' کے خیال میں اسلاف بھی شاید اجتہاد کے نام پر اسلام کے ساتھ یہی سلوک کرتے آئے ہیں، تب ہی تو یہ ''انکی طرح'' اپنے اجتہاد کا حق منواتے رھتے ہیں۔

پس آئمہ سلف کا فہم اسلام صرف اس لئے ہی معتبر نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کے سکھائے ھووں (رض) کے سکھائے ھوئے لوگوں کا تسلسل ہیں (یقینا یہ بہت بڑی وجہ ھے کہ رہتی دنیا تک کسی کو یہ حظ عظیم نصیب نہیں ھوسکتا) بلکہ اس لئے بھی لائق التفات ھے کہ وہ تناظر جس میں یہ فہم تعمیر ھوا بذات خود وہ تناظر بھی موجودہ تناظر کے مقابلے میں معتبر ھے۔ ہر جمعہ کے خطبے میں سرکار (ص) کا دھرایا جانے والا فرمان 'خیرالقرون قرنی، ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم' محض کوئی اخلاقی قضیہ ہی نہیں بلکہ ایک معاشرتی و ریاستی حقیقت کا بیان ھے۔
مکمل تحریر >>

''اسلام دین ھے'' کا درست معنی


''اسلام دین ھے'' کا یہ معنی سمجھ لیا جاتا ھے کہ اسلام کے پاس چند ایسے ابدی اصول ہیں جنہیں کسی بھی ماورائے اسلام نظام زندگی میں برت کر اسے اسلامی بنایا جاسکتا ھے، نیز اسلام ہر دور کے تقاضوں کا ساتھ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ھے۔ اس معنی کے اعتبار سے اسلام کسی معین شے نہیں بلکہ چند ایسے مبہم اصولوں کا نام رہ جاتا ھے جن کی تطبیق کسی بھی نظام کے ساتھ کرنا ممکن ھے (گویا اسلام 'جیسا دیس ویسا بھیس' کا معاملہ ھے)۔ یہ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ھے کہ مسلم مفکرین دور حاضر کے ہر مظہر کو اسلام سے ثابت کرنے کی فکر میں مبتلا رھتے ہیں، یعنی آج اگر دنیا جمہوریت پر فدا ھے تو یہ اسلام سے جمہوریت نکال لاتے ہیں، اگر آج کا انسان حرص و حسد (سرمائے) کے فروغ کیلئے کارپوریشن و بینک چاھتا ھے تو انکے خیال میں اسلام بھی اسکا متبادل فراھم کرسکتا ھے، اگر آج کا انسان سائنس کو علم سمجھتا ھے تو انکے خیال میں یہ سائنس اسلام ہی کی عطا ھے، آج کا انسان اگر عورت کو پبلک آرڈر میں پروفیشنل دیکھنا چاھتا ھے تو انکے نزدیک اسلام اس امر میں بھی اسکے شانہ بشانہ کھڑا ھے، اگر آج کا انسان میوزک، گانے بجانے کو جمالیاتی احساسات کا تقاضا سمجھتا ھے تو انکے نزدیک اسلام یہاں بھی رکاوٹ نہیں، الغرض اس مفروضہ معنی کی بنا پر کبھی اسلام کو سوشل ازم اور کبھی لبرل ازم سے نتھی کردیا گیا۔ الغرض دور حاضر کے ہر تقاضے (ماوراء اس سے کہ وہ جائز ہے یا ناجائز) کا حل و متبادل اسلام سے فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ھے۔

چنانچہ اسلام دین ھے کا معنی یہ نہیں کہ اسلام ہر دور کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ھے بلکہ یہ ھے کہ اسلام انسانی زندگی (انفرادیت، معاشرت و ریاست) کو خود اپنے اصولوں و اقدار پر اس طرح مرتب کرتا ھے کہ انسانی زندگی کا کوئ گوشہ اسکی گرفت سے باہر نہیں رھتا۔ اسلام کامیاب زندگی کا اپنا ایک تصور رکھتا ھے جسکے اپنے مخصوص تقاضے ہیں اور اسلام اس میں کسی مخالف نظام کی آمیزش قبول نہیں کرتا۔ اسلام باطل تقاضوں کا حل یا متبادل پیش نہیں کرتا بلکہ انہیں تبدیل کرنے کا تقاضا کرتا ھے۔ انبیاء باطل تقاضوں کو پورا کرنے نہیں بلکہ اس ذھن کی اصلاح کرنے آتے ہیں جو ایسے باطل تقاضوں کی تکمیل کا متلاشی ھوتا ھے۔ اس کے برعکس جدید سکالرز و مفکرین نے ان تقاضوں ہی کی آبیاری کا بیڑا اٹھالیا اور نتیجتا جدید ذھن کے تقاضوں کا حل پیش کرتے کرتے دین کا حلیہ تو بگڑ گیا البتہ یہ جدید ذھن آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہمہ تن و ہمہ گوش 'Do more' کی صدا بلند کررھا ھے۔ پس اسلام قیامت تک کیلئے دین ھے کا معنی یہ ھے کہ اسلام قیامت تک ہر دور کو جانچنے کا پیمانہ ھے کہ یہ محفوظ رھے گا، دیگر ادیان کی طرح مسخ نہ ھوگا اور نہ ہی ایسا ھوگا کہ چودہ سو سال تک اسے کوئی سمجھ ہی نہ سکے گا اور امت آج کے کسی سکالر یا مفکر کی منتظر رھے گی جو پہلی دفعہ نصوص کو ڈی کوڈ کرے گا۔
مکمل تحریر >>

Sunday, November 3, 2013

احیاۓ نظام کی جدوجہد کرنے کی کلیدی اہمیت ۔۔۔۔۔ نظام کا مقابلہ نظام کرتا ھے فرد یا ایک اکیلی جماعت نہیں


جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہمیں نظام کو پرابلماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں (کہ شاید وہ خود بخود ٹھیک ھوجاۓ گا یا وہ کمتر اہمیت کا حامل ھے یا فی الحال اسے موخر کرکے کسی اور کام پر توجہ دینی چاھئے) یا یہ کہ ایک پیچیدہ نظام کا مقابلہ اکیلا فرد یا کوئ اکیلی جماعت کرسکتی ھے، درحقیقت ایسے لوگ نظام کی تسخیری قوت سمجھنے سے قاصر ہیں اور اسکا انتہائ غلط اندازہ (underestimate) لگاۓ بیٹھے ہیں۔ اسے ایک آسان مثال سے سمجھتے ہیں۔ عام مشاہدہ ھے کہ ایک بچہ ماں باپ کی بات سننے (یا ان سے گفتگو کرنے) کے بجاۓ ٹی وی (مثلا کارٹون پروگرام یا اشتہار) کی طرف زیادہ متوجہ ھوجاتا ھے۔ آخر اسکی وجہ کیا ھے؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ 'بچہ۔باپ' تعلق 'ایک ذات کا ایک ذات' سے تعلق ھے جبکہ بچہ۔ٹی وی تعلق 'ایک ذات کا ایک ذات سے نہیں بلکہ لاکھوں ذاتوں سے بننے والے ایک ادارے' سے تعلق کا نام ھے۔ ٹی وی درحقیقت ایک ادارہ ھے جو لاکھوں ذہین انسانوں کے تعلقات کے تانے بانے سے وجود میں آتا ھے (مثلا پرڈکشن ہاوسز میں کام کرنے والے لوگ، فنکار و ماڈلز، لیکھاری و شاعر، اشتہاری کمپنیاں،کارپوریشنز کے مارکیٹینگ ڈیپارٹمنٹز، یونیورسٹیز میں مارکیٹینگ پڑھانے والے لوگ وغیرہم)۔ چنانچہ معاشرے کے یہ ہزارہا ذہین ترین دماغ ملکر باقاعدہ علمیت کی بنیاد پر ایک ایسا کارٹون یا اشتہار تشکیل دیتے ہیں جو پچے کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ ظاہر ھے باپ اکیلا ان لاکھوں ذہنوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ یہ لاکھوں لوگ آپس میں 'سرماۓ کے تعلق' سے مربوط و جڑے ہوۓ ہیں، اور یہ سب ملکر بچے (بلکہ سب کو) کو سرماۓ کے اسی جبر کی طرف راغب کررھے ہیں۔

اب ظاہر ھے اس نظام کو انفرادی سطح کی جدوجہد سے شکست نہیں دی جاسکتی (مثلا محض ماں باپ کی محبت جگانے کے دروس سے کام نہیں چلے گا، گوکہ یہ بھی چاھئے)۔ فرد کا مقابلہ فرد کرتا ھے، جماعت کا جماعت اور نظام (ترتیب تعلقات و ادارتی صف بندی) کا مقابلہ نظام ہی کرسکتا ھے (جسے کہتے ہیں کہ a soldier deserves a soldier)۔ اکیلے فرد یا ایک جماعت کی جدوجہد سے یقینا چند نفوس کی اصلاح تو ممکن ھے مگر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اس نظام کے جبر سے بچالے جانا نہایت مشکل امر ھے اور یہ نظام انہیں اپنے بھاؤ کے ساتھ اسی جانب لیجا کر رہتا ھے جہاں وہ خود جارہا ہوتا ھے، چاھے یہ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ لہذا نظام کی تبدیلی کو پرابلماٹائز کرنا ایک نہایت بنیادی ضرورت ھے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاھئے کہ نظام 'صرف' بمبوں سے تباہ یا تبدیل نہیں کئے جاسکتے کیونکہ وہ ایک 'علمیت' پر قائم ہوتے ہیں اور علمیت کا مقابلہ علمیت سے ہی کیا جا سکتا ھے۔
مکمل تحریر >>

''سیکولر ریاست کا کوئ اخلاقی ایجنڈہ نہیں ھوتا''...سیکولرز کی فریب کاریاں


سیکولر لوگ اکثر و بیشتر یہ راگ الاپتے بلکہ اس راگ کے ذریعے اہل مذھب پر 'جھوٹی عقلیت' کا رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ''سیکولرازم کا مطلب محض مذھب اور ریاست کی جدائ ھے اور بس، سیکولر ریاست کا کوئ اخلاقی ایجنڈہ نہیں ھوتا یعنی یہ خیر و شر کے معاملے میں غیر جانبدار (نیوٹرل) ہوتی ھے''۔ اس دعوے کا مقصد یہ ثابت کرنا (بلکہ دھوکہ دینا) ھوتا ھے کہ (1) چونکہ سیکولر ریاست ایک پوزیٹو (positive ،حقیقت جیسی کہ وہ ھے) ریاست ہوتی ھے نہ کہ نارمیٹو (normative، حقیقت جیسی کہ اسے ھونا چاہئے)، (2) اسی وجہ سے سیکولر ریاست کسی بھی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی (3) بلکہ تمام تصورات خیر کے فروغ کے یکساں مواقع فراہم کرتی ھے (4) لہذا ریاست کو پوزیٹو (سیکولر) بنیاد پر قائم ھونا چاھئے نہ کہ مذہبی بنیاد پر کیونکہ مذھب خیر کے معاملے میں جانبدار ھوتا ھے (آپ نے غور کیا کہ بظاہر 'معصوم' نظر آنے والے اس دعوے میں کیسی خطرناک واردات چھپی ہوئ ھے)۔

مگر سیکولر لوگوں کا یہ کہنا کہ 'سیکولرازم کا مطلب محض ریاست اور مذھب کی علیحدگی ھے اور سیکولرریاست کا اپنا کوئ اخلاقی ایجنڈہ (ٹھیک اور غلط کا تصور وپیمانہ) نہیں ھوتا' نہ صرف ایک مضحکہ خیز بلکہ اپنی ذات میں متناقض (self-contradictory) دعوی ھے۔ کیا بذات خود یہ تصور کہ 'مذھب کو ریاست سے الگ ھونا ''چاہئے''' (لفظ 'چاہئیے' پر غور کریں) ایک اخلاقی چوائس و ترجیح کا معاملہ نہیں؟ پھر یہ کہنا کہ 'مذھب کو صرف ذاتی زندگی تک محدود رھنا ''چاھئے''' (پھر لفظ 'چاہئیے' پر توجہ رھے) ٹھیک اور غلط کی ایک مخصوص چوائس و ترجیح نہیں؟ (ظاہر ھے سیکولرازم کے تمام نظرئیے اس اخلاقی ترجیح کے بھی قائل نہیں، مثلا مارکسزم اپنی اصل شکل میں مذھب کی انفرادی ازادی دینے کا بھی روا نہیں)۔ پھر یہ تصور کہ 'اجتماعی نظم زندگی مذھب کے بجاۓ کسی دوسری بنیاد (مثلا ہیومن رائٹس) پر قائم ھونا ''چاہئے''' (لفظ 'چاہئیے' پھر آگیا) صحیح اور غلط کا ایک مخصوص تصور نہیں؟ کیا ہیومن رائٹس سے نکلنے والے تصور خیر کو دیگر تمام تصورات خیر پر ''فوقیت دینا'' ایک اخلاقی ترجیح نہیں، پھر کیا 'دنیا کے تمام تصورات خیر کو ہیومن رائٹس کی کسوٹی پر ''جانچنا'' اور اس ہی کسوٹی پر پرکھ کر انکے ''ٹھیک یا غلط ھونے کا فیصلہ صادر کرنا'' بذاب خود خیر و شر کا ایک پیمانہ وضع کرلینا نہیں ھے؟ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے بچکانہ دعوے وہی شخص کرسکتا ھے جسے سیکولرازم کے ڈسکورس کے بارے میں سرے سے خبر ہی نہ ھو۔ایسے شخص کی عقلی کیفیت پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ھے۔
مکمل تحریر >>

جدید انسان کی سرکشی کی کہانی


اٹھارویں صدی کے ملحد فلاسفہ نے یہ بلند و بانگ دعوی کرکے مذہب کو رد کردیا تھا کہ ھم سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کو وحی کی بنیاد پر قبول کرنے کے بجاۓ انسانی عقل پر تعمیر کریں گے، انکا دعوی تھا کہ سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کی جو تشریح ھم تعمیر کریں گے چونکہ وہ عقلی ھوگی، اسکی بنیاد کسی مفروضے پر نھیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی، لہذا دنیا کے سب انسان اسے ماننے پر مجبور ھونگے۔
مگر پھر کیا ھوا؟ دو سو سال کی فلسفیانہ لم ٹٹول، اور نتیجہ: ''انسان اپنے کلیات سے سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن جان ہی نہیں سکتا''۔
اس مقام پر اصولا انسان کو اپنی علمی کم مائیگی کو پہچان کر اپنے رب کے حضور جبین نیاز خم کردینا چاھئے تھی کہ اسنے اپنے پالن ہار کے آگے سرکشی کرکے خود خدا بننے کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس دعوے میں وہ پوری طرح چت ھوچکا تھا۔
مگر یہ کیسا عجیب معاملہ ھے کہ وہ شکست جو اسکی آنکھیں کھول دینے کیلئے بہت کافی ہوجانی چاہئے تھی اسنے اپنے رب کی اسی نشانی کو اپنی سرکشی میں مزید اضافے کا باعث بنا لیا۔ بجاۓ اپنی شکست قبول کرنے کے اب وہ یہ کہنے لگا کہ سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن نامی کوئ شے ہوتی ہی نہیں، یہ سب اضافی و بے معنی تصورات ہیں۔ آج اپنے اس دعوے کو وہ اپنی 'تلاش' سمجھتا ھے جبکہ فی الحقیقت یہ دعوی صرف اور صرف اسکی 'شکست' (retreat) کا باغیانہ اعتراف ھے اور بس۔
مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ موت اٹل ھے، اپنے رب کے حضور اسکی حاضری کا وقت بالکل قریب ھے۔۔۔۔۔۔ہاں توبہ کا دروازہ ہر آن کھلا ھے اور اسکا رب بڑا رحیم ھے۔
مکمل تحریر >>

متجددین کی چستیاں ۔۔۔۔ ''پچھلے (بشمول صحابہ و تابعین) بھی ہماری طرح انسان تھے''


بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک ابھرتے ھوئے متجدد فرماتے ہیں:
''پچھلے بھی ہماری طرح انسان تھے جنھوں نے حتّی المقدور اپنے حالات میں انبیائی پیغام کو برتنے اور اس کی تحمیل کا خاطر خواہ شرف حاصل کیا ۔ ہم ان کے گرد تقدس کا ہالہ تعمیر نہ کریں تو ان کی لغزشیں ہمارے راستے میں فکری رکاوٹیں پیدا نہیں کریں گی اور ہم اپنے اندر وحی ربّانی سے اسی طرح اخذ و اکتساب کی ہمت پائےںگے جس طرح پچھلوں نے کیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں تاریخ canonization کا شکار ہوجائے اور راسخ العقیدہ فکر اس بات پر مُصر ہو کہ محمد رسول اﷲ کے ساتھ ہی خلفائے اربعہ، ائمہ اربعہ، ائمہ اثنا عشر ، ائمہ سبعہ وغیرہ کو بھی راسخ العقیدگی کا اظہار سمجھا جائے بھلا ایک ایسی راسخ العقیدگی کو وحی ربّانی کا صحیح شارح اور ترجمان کیسے سمجھا جاسکتاہے؟ (راشد شاز)

دیکئھے یہاں شاذ صاحب نے کیا چستی کا مظاہرہ کیا ھے، یعنی یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے براہ راست محمد رسول اللہ (ص) سے بنفس نفیس وحی ربانی کی تعلیمات حاصل کیں اور جو براہ راست اس رسول کے سکھائے ھووں کے سکھائے ھوئے تھے انہیں امت بس شاذ صاحب جیسا 'ایک مفکر' مان لے جو اپنے حالات کے مطابق وحی ربانی کو سمجھ رھے ھیں ۔۔۔۔۔ واہ جی واہ، سبحان اللہ، کیا کہنے ہیں اس علمی دلیل کے۔ ان لوگوں کے بقول جو لوگ ربانی وحی کی تلاوت، تعلیم، تزکیہ وحکمت کے ضمن میں اولین مخاطب اور خود شارح وحی و شارع (ص) کے شاگرد ھوں انکی رائے کی حیثیت بھی علم کے بازار میں بس ہمارے ان متجددین کی سی ھے جنکے علم کا ریفرنس پوائنٹ قرآن و سنت کم اور جدیدی علمی ڈسکورس زیادہ ھے۔ اسے عقلی افلاس نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟

پھر ایک اور چستی دیکھئے، اس دلیل میں تاریخی معتبر دینی تشریحات کو بڑی ھوشیاری کے ساتھ ''اپنے ماحول کے مطابق وحی کا فہم'' (وہ بھی ایسا جو اغلاط سے پر ھے، یعنی آئمہ سلف بیچارے تو اپنے حالات کے مطابق بھی وحی کو درست نہ سمجھ سکے، انکا فہم ہمارے حالات کی کیا خاک کفایت کرے گا) قرار دے کر اسے ترک کرکے نئے فہم کی تعمیر کا جواز فراھم کرنے کی کوشش کی گئی ھے۔ مگر ھمارے یہ متجددین کبھی یہ غور کرنے کی زحمت گورا نہیں کریں گے کہ یہ حالات کیونکر تبدیل ھوگئے، کیا واقعی یہ تبدیل شدہ حالات کوئی فطری شے ھے، کیا تبدیل شدہ حالات وحی کی روشنی میں تبدیل ھوئے یا اسے عضو معطل بنا کر؟ ظاھر ھے جب تک تبدیل شدہ حالات کا علمی تجزیہ کرکے ان پیچیدہ سوالات کا تشفی بخش جواب نہیں دے دیا جاتا اس وقت تک یہ کیسے طے کیا جا سکتا ھے کہ آیا موجودہ وقت ان تبدیل شدہ حالات کو وحی کی تاریخی تشریح کے مطابق ڈھالنے کا ھے یا وحی کو تختہ مشق بنا کر اسے تبدیل شدہ حالات کے مطابق تبدیل کردینے کا ھے؟

کیونکہ حاضر و موجود تبدیل شدہ دنیا کے بارے میں اس قسم کے پیچیدہ تجزیات خاصی محنت کے متقاضی ھوتے ہیں لہذا یہ متجددین ''دین کو جدید بنانے'' کا آسان راستہ اختیار کرلیتے ھیں۔ مگر ظاہر ھے علمی کاہلی کوئی علمی رویہ نہیں۔
مکمل تحریر >>

''زمانہ تو آگے بڑھتا ھے'' ۔۔۔۔۔۔ جدید ذھن کی ایک لا یعنی دلیل


روایتی مذہبی ذھن جب قرون اولی کی بات کرتا ھے تو جدید ذھن ایک چبھتا ھوا اعتراض یہ کرتا ھے کہ ''تم مولوی ہمیں پیچھے لے جانا چاھتے ھو، زمانہ ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتا ھے، یہی قانون فطرت ھے''۔ یہ دلیل پیش کرکے یہ جدید ذھن سمجھتا ھے گویا اس نے کوئی بہت علمی دلیل قائم کرکے بس میدان مار لیا۔ مگر اپنی ہئیت میں یہ نہایت بوگس و غیر علمی دلیل ھے کیونکہ اس دلیل کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ھے گویا تبدیلی بس یونہی آتی ھے یا آرھی ھے، زمانہ گویا کسی مجرد معنی یا ھمہ جہت اطراف میں آگے بڑھ رھا ھے، مگر ایسا ہرگز نہیں۔

آگے بڑھنا کسی مجرد عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک اقداری شے ھے کہ تبدیلی و پیش رفت ہمیشہ کسی 'آئیڈئیل کی طرف' ھوتی ھے (اسکی تفصیل ایک گذشتہ پوسٹ میں ھو چکی)۔ درحقیقت موجودہ دور ''سرمائے میں اضافے اور اسکے تکمیلی لوازمات کی سمت کی طرف آگے بڑھ رھا ھے''، اسی شے کے امکانات بڑھانے کے مواقع یہ پیدا کررھا ھے۔ ایسا نہیں کہ یہ دور ''ھرپیمانے و اطراف'' میں آگے بڑھ رھا ھے (یعنی ایسا نہیں کہ جدید انسان ہر پیمانے پر آگے بڑھا ھوا ھے)۔ مثلا جدید ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت میں اور زمانہ جاہلیت کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رھا، بلکہ یہ جدید انسان دور جاہلیت کے انسان سے دو ھاتھ زیادہ وحشی بن چکا ھے (اس جدید انسان کی منظر کشی بھی ایک گذشتہ پوسٹ میں تفصیل سے کی گئی تھی)۔ جہالت کی جس گھٹا ٹوپ کا یہ جدید انسان آج شکار ھے یہ بس یونہی حادثاتی طور پر پلٹ نہیں آئی، اسکا براہ راست تعلق اس جدید نظام زندگی کے ساتھ ھے جس کی طرف یہ زمانے کو بڑھاوا دے رھا ھے۔ تو ھم کہہ سکتے ہیں کہ بے شمار پیمانوں کی بنیاد پر جدید انسان نہایت پسماندہ انسان ھے (اس معنی میں کہ یہ جہالت کے اسی گڑھے کی مزید گہری پستیوں میں جاگرا جہاں سے کالی کملی والے آقا (ص) اور اسکے اصحاب (رض) نے اسے نکالا تھا)۔

تو اصل مسئلہ اقداری ترجیحات کا ھے، اگر پیمانے بدل لئے جائیں تو تنزلی بھی ترقی دکھائی دینے لگتی ھے اور اسکا برعکس۔ مولوی جب قرون اولی کی طرف مراجعت کی بات کرتا ھے تو پیچھے جانے کی نہیں بلکہ ''آگے جانے'' کی بات کرتا ھے، فرق اقداری ترجیحات کا ھے اور بس (قرون اولی رحمانی اقدار جبکہ سرمایہ دارانہ نظام شیطانی اقدار کی طرف آگے بڑھنے کا نام ھے اور بس)۔ چونکہ جدید ذھن نے گھوڑے و اونٹ کے بجائے گاڑی و جہاز پر سواری، کچے مکان کے بجاۓ ملٹی سٹوری فلیٹس، خط کے بجائے فیس بک اور موبائیل پر میسیج کرنے کو بذات خود اھم ترین اخلاقی شے مان لیا ھے، لہذا یہ ''آگے برھنے'' کو انہی پیمانوں پر جانچ کر دیگر تمام تصورات جواسکی مخصوص اقداری ترجیحات کو ممکن نہیں بناتے انکا مذاق اڑا رھا ھے۔ مگر یہ بیچارہ سمجھ رھا ھے گویا میں کسی نیوٹرل مقام سے کھڑا ھوکر اشیاء کا تجزیہ کرکے انہیں اختیار یا رد کررھا ھوں (اسی لئے اپنے علاوہ سب کو اور مولوی کو بالخصوص بے عقل سمجھتا ھے)۔

جدید ذھن سے زیادہ افسوس ناک کیفیت ان مسلم مفکرین و دانشوروں کی ھے جو جدید ڈسکورس کے ''آگے بڑھنے'' کی اس دلیل کے آگے سرنگوں ھوئے چاھتے ہیں۔ اس ''جدید پیمانوں پر آگے بڑھی ھوئی'' دنیا کے سامنے جب یہ اسلام کو پیش کرکے دیکھتے ہیں کہ اسلام تو اسکے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتا تو مارے شرم پانی پانی ھوکر اسلام کی مرمت کاری شروع کردیتے ہیں اور اپنے اس عمل کا نام ''اجتہاد مطلق'' رکھ لیتے ہیں اور ساتھ ہی اسلاف کوکوسنے لگتے ہیں کہ وہ کون ھوتے ہیں اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کردینے والے (اس بات کا اصل مطلب صرف یہ ھوتا ھے کہ وہ کون ھوتے ہیں اسلام کو سرمایہ داری میں ضم کرنے کا دروازہ بند کرنے والے)۔
مکمل تحریر >>

Saturday, November 2, 2013

حاضروموجود مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ)نظم کے مظالم کی بنیادی وجوہات


جس دنیا میں آج ہم میں سانس لیتے ہیں اسکی ایک اہم ترین خصوصیت عظیم اکثریت کی 'بے یارگی و غیر محفوظیت' (vulnerability) کی کیفیت ھے۔ غیر محفوظیت کی اس کیفیت کا اظہار متعدد شکلوں میں ھوتا ھے: مثلا غربت، افلاس، بے روزگاری، ناداری، جرائم کی کثرت وغیرہ (مگر پھر بھی جدید انسان کا یہ گھمنڈ ھے کہ وہ بہترین دور میں سانسیں لے رھا ھے، اور یہی زعم اسے خیرالقرون کی طرف مراجعت کے تصور سے وحشت دلاتا ھے)۔ غیر محفوظیت کی ان شکلوں کے بارے میں آجکا جدید ذہن کچھ یوں گفتگو کرتا ہے گویا یہ غربت و افلاس کا شکار لوگ شاید درختوں پر اگتے ہیں یا آسمانوں سے ٹپک رھے ہیں۔ موجودہ نظام کے کرتا دھرتا ماہرین معاشیات غربت مٹانے کی بات کچھ یوں کرتے ہیں گویا یہ غربت کسی فطری شے کے طور موجود تھی اور یہ اسے مٹانے کی عظیم الشان ذمہ داری اپنے سر اٹھانے لگے ہیں۔ مگر سچ یہ ھے کہ غیر محفوظیت کی شکلیں تو اسی نظم کی دین ہیں جسے استعمال کرکے یہ اسے ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سترہویں صدی سے قبل دنیا کے مختلف خطے self-sufficient ھواکرتے تھے (مثلا لارڈ میکالے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ برصغیر میں کوئی فقیر نہ پایا جاتا تھا مگر آج ہمارے یہاں کروڑوں لوگ بے یارومددگار ہیں)، مگر پھر efficiency (سرمائے میں مسلسل اضافے کی جدوجہد) کے تصور کے تحت ایک طرف دنیا کے ذرائع کو بے دریغ لوٹ کر یورپ کی فیکٹریاں آبادکرنے کیلئے سرمایہ اکٹھا کیا گیا تو دوسری طرف دنیا کو مارکیٹ نظم بحیثیت 'واحد و آفاقی تصور معاشرت' کا پابندبنایا گیا جس نے معاشروں کو غیر محفوظ (vulnerable) بنانا شروع کیا ۔ غیرمحفوظیت کی اس کیفیت میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر بے پناہ اضافہ ہوا:

1) لبرل سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا فروغ: اسکی تفصیل پچھلی پوسٹ میں بیان ھوچکی کہ مارکیٹ کس طرح معاشرتی تنظیم کو اغراض پر مبنی تعلقات پر استوار کرکے اسے انفرادیت پسندی پر مرکوز کرتی ھے جسکے نتیجے میں یہاں ہر وہ شخص جو کچھ کمانے (یعنی بیچنے) لائق نہیں غیر محفوظ ھوجاتا ھے (مثلا بوڑھے، اپاہج، نادار، بے روزگار، سرمایہ دارانہ علم سے ناخواندہ، بیمار، پاگل)۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس نظام میں ان کے مداوے کا کوئی شافی حل موجود نہیں
2) عالمی استعماری نظام کا فروغ: تنویری فکر کی ایک دلچسپ خصوصیت خوشنما اصطلاحات کے ذریعے آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی ہے۔ چنانچہ یہاں ایک طرف یہ آگاہی عام کی جاتی ہے کہ فرد کی آزادی مقدم ہے، فرد آزادہے (individual is sovereign)، مگر عملا یہ ایک ایسے اجتماعی نظام کو فروغ دیتی ہے جہاں فرد غیر محفوظ ہوکر ایک ایسے نظام کا محتاج ہوجاتا ھے جہاں فیصلے اجتماعی و مرکزی سطح پر ہوتے ہیں (ریاست کی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی)۔ اسکے نتیجے میں دنیا کے کسی ایک ملک میں آنے والے بحران نیز اسے اس بحران سے نکالنے کیلئے اختیار کی جانے والی پالیسیوں کا خمیازہ غریب اور کمزور ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہاں آزاد مارکیٹ کے نام پر کمزور ممالک پر 'لبرلائزیشن اور ریاستی مداخلت میں کمی 'کا کوڑا برسایا جاتا ہے البتہ طاقتور ممالک اپنے مفادات کیلئے اپنی اکانومی میں ریاست کی مداخلت جائز سمجھتے رہتے ہیں (اس رویے کی نہایت گہری بنیادیں ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، خلاصہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام معاشی سطح ایک ماورائے نیشن سٹیٹ شناخت کا تقاضا کرتا ہے البتہ سیاسی سطح پر اب تک یہ ایک قومی شناخت سے زیادہ وسیع شناخت پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے)۔
3) عالمی استعمارانہ مداخلت: غیر محفوظیت کی تیسری وجہ استعماری قوتوں کی اپنے نظریاتی، سیاسی ومعاشی مقاصد کی خاطر دیگر ممالک میں مداخلت بھی ہے (مثلا پاکستان میں جاری غیر محفوظیت کی بہت سی شکلیں امریکہ کے استعمارانہ مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں)۔ اس کے تحت روایتی مقامی کلچراور ادارتی صف بندی کو ختم کرکے (جو اپنے مخصوص طریقوں سے معاشرتی ترتیب قائم کرتے ہیں) ان پر بالجبر مارکیٹ و جمہوری نظم مسلط کردیا جاتا ھے (خوب دھیان رہے، جمہوریت کی تاریخ میں آج تک دنیا کے کسی ملک میں جمہوریت جمہوری طریقے سے نافذ نہیں ہوسکی بلکہ ہر جگہ اسے بالجبر مسلط کیا گیا)۔ یہ سب مداخلت حصول آزادی و ترقی (سرمائے میں اضافے) کے عالمی نظام (گلوبلائزیشن) کو ممکن بنانے کیلئے جاتی ھے مگر نتیجتا مقامی آبادیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر متعدد نوعیت کی بے یارگی کی کیفیات کا شکار ہوجاتی ہیں، اس امید پر کہ ایک دن یہ نظام انکے دکھوں کا مداوا کرہی دے گا۔
4
مکمل تحریر >>

سرمایہ داری کے مظالم اور این جی اوز (پروفیشنل خیراتی اداروں) کا باہمی تعلق (2) ۔۔۔۔۔۔۔ ''جدید دور کو بہتر سمجھنے والی ذھنیت'' کا المیہ (پچھلی پوسٹ سے پیوست)



سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ھے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ھوتا چلا جاتا ھے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ھوتا چلا جاتا ھے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ھی یہی ھوتی ھے) وجود میں آجاتا ھے، مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ ((اور اسی طرح 'حقوق کی جدوجہد' (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی، بھانڈ و کنجروں کے حقوق) کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز)) وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام ''فلاحی ادارے'' مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کیلئے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ھورھا ھے تو اسکا مداوا بھی کررہا ھے کوئی) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔

دھیان رھے، برادری و خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کیلئے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ھے۔ مثلا بیمار ھونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ھوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اسکا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کیلئے اسکے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ھوتا ھے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ھوا کرتا ھے)۔ مگر جب فرد اکیلا ھو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اسکا حال ھوتا ھے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اسکی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ھے کہ اسکے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ھے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کرلیتے ہیں کہ 'ادارہ ھے نا، وہ یہ کام کردے گا')۔ بالکل اسی طرح ھم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ھو جہاں ''پروفیشنل'' (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کرد ئیے گئے ھوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ھوتا ھے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ھے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ھوتی ھے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ھوتا ھے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ھے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ھے (جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس 'ترقی یافتہ' نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذھن فریفتہ ھوا چلا جارھا ھے، دین کو جس کے تقاضوں سے ھم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جارھا ھے، وہ نظام جس سے متاثر ھوکر یہ پوری اسلامی تاریخ کو جانچ کر اپنے اسلاف کو قلت تدبر و سوئے فہم کا مصداق سمجھتا ھے، فیا للعجب)

اب غور کیجئے، برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ''محبت و صلہ رحمی کے جذبات'' کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ھے، جبکہ مارکیٹ نظم انکے لئے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ھے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جاسکتی ھے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رھے ھونگے؟ سوچئے کونسا معاشرتی نظم انسانیت کے لئے رحمت ھے اور کونسا لعنت؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ھوچکا۔۔۔۔۔یورپ و امریکہ۔۔۔۔وہاں ایسا ہی ھوتا ھے اور ھمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ھوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ھے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ھیں!۔ یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا جدید ذھن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ھے۔ ذرا سوچئے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ھو، اسکے ماننے والے آج اپنےیہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ھورھے ہیں۔ گویا انکے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ھے۔۔۔۔۔۔یہ مقام عبرت ھے۔

ہمارے یہاں سرکار (ص) کے اس قول 'خیر القرون قرنی' کو محض ایک اخلاقی قضیہ (moral rhetoric) سمجھ لیا گیا ھے، مگر یہ اس حدیث کا کما حقہ ادراک نہیں۔ سرکار (ص) کا دور انفرادیت، معاشرت و ریاست الغرض ہر اعتبار سے بہترین و آئیڈئیل دور ھے۔ مکہ سے ہجرت کے بعد سرکار (ص) نے مدینہ میں اغراض پر مبنی معاشرت نہیں بلکہ مواخات قائم کی، یہ گویا آپکی ''معاشرتی پالیسی'' تھی جسکے ذریعے محبت و صلہ رحمی کی معاشرت کو فروغ دیا گیا۔ یہ کیسی عجیب بات ھے کہ اس نبی کا نام لیوا جدید مسلم ذھن آج محبت و صلہ رحمی کی جڑ کاٹ کر نسب کو مشکوک بنانے والی جدید معاشرت (سول سوسائٹی) کے گن گارھا ھے، اسے خیرالقرون کی طرف مراجعت کے تصور ہی سے وحشت ھوتی ھے (گویا اپنے تئیں یہ کسی نہایت اعلی اخلاقی دور کا باسی ھے جسے ترک کرنے کی بات کرنے والا شخص اسکی 'شرعی زندگی' میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کررھا ھے)۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ اس نظام کے مظالم و نوعیت سے واقف ہی نہیں اور یا پھر اس کا تصور دین ہی تبدیل ھو چکا ھے (جسکا ریفرنس جدیدی ڈسکورس ھے)۔

پھر یہ بھی کیسی عجیب بات ھے کہ اس نظام کے اس قدر مظالم کے باوجود یہ جدید ذھن اسی نظام سے اپنی امیدیں لگائے بیٹھا ھے۔ اسے کہتے ہیں نظام اور ڈسکورس کا جبر۔ جن مفکرین کے خیال میں یہ نظام ظلم نہیں کرتا لہذا اس کے خلاف جہادکی ضرورت نہیں وہ عقلی افلاس کا شکار ہیں۔
مکمل تحریر >>

Sunday, October 27, 2013

سرمایہ داری کے مظالم اور این جی اوز (پروفیشنل خیراتی اداروں) کا باہمی تعلق (1) ۔۔۔۔۔۔۔ دینی طبقوں سے ''پکا پکایا متبادل مانگنے والی ذھنیت'' کا المیہ


موجودہ دور میں نظر آنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی اداروں اور این جی اوز کا مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم سے جنم لینے والے مظالم کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ھے۔ مارکیٹ یا سول سوسائٹی (جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی) اغراض پر مبنی تعلقات کے تانے بانے کا نام ھے، ھیومن رائٹس پر مبنی یہ معاشرت ذات کو لازما اکیلا (individualize) کرتی ھے، اس نظام میں اسکی بقا و کامیابی (حصول سرمایہ) کو اسکی اکیلی ذات کی پیداواری مستعدی (efficiency) کا مرھون منت بناتی ھے۔ نتیجتا وہ تمام لوگ جو ایفیشنٹ نہیں براہ راست اس نظم کا حصہ نہیں بن پاتے، اور یہ معاشرے کا بڑا طبقہ ھوتے ہیں کہ مارکیٹ معاشرے کی قلیل تعداد کو اپنے اندر سموتی ھے (نان لیبر فورس اور بے روزگار افراد کی تعداد برسرروزگارلوگوں سے زیادہ ھوتی ھے)۔ چنانچہ بوڑھے، بچے، لنگڑے لولے اندھے بہرے، یتیم، بیوہ مطلقہ، بے روزگار، (سرمایہ دارانہ علم سے) ناخواندہ، بیمار، پاگل، یہاں تک کہ مردے، الغرض ہر وہ شخص جو اس نظام میں کچھ ''بیچنے کی صلاحیت'' (ability to sell) نہیں رکھتا غیر محفوظ (vulnerable) و بے یارومددگار ھوجاتا ھے۔

یہ سب کہاں جائیں؟ یہاں انکا پرسان حال کون ھے؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ھیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے (professional philanthropic institutions)۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ کونسا نظم انسانیت پر ظلم کرتا ھے۔ اس گفتگو سے سرکار (ص) کا اپنے دور کو 'خیرالقرون' فرما کر اسے آئیڈئیل قرار دینا انشاء اللہ ایک نئے روپ میں جلوہ گر ھوگا۔

چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ھے جن سے یہ امید کی جاتی ھے کہ وہ ان تمام ''بے کار'' (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں 'پاگل' افراد کہ اسکے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن 'کام نہ ھونے' کی کیفیت کا نام ھے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ھوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کیلئے جس قدر ذرائع کی ضرورت ھوتی ھے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ھوتے (ظاھر ھے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ھوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر رقوم اکٹھی کرسکیں)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ھے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رھتا ھے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک دیرینہ تضاد ھے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ھے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ھے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency) ہی کے نام پر۔

آگے بڑھنے سے قبل ذرا سرمایہ داری کی پچھلی دو سو سالہ تاریخ اور حالیہ گلوبلائزیشن کے عمل پر غور تو کیجئے۔ اس نظام کے تحت انسانیت کو آزادی و ترقی کے نام پر ایک ایسے نظام (لبرل سرمایہ داری) کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں نہیں، کروڑوں بھی نہیں بلکہ بلامبالغہ اربوں انسان بھوک، افلاس، بے روزگاری، بیماری و بے یارگی کی مختلف شکلوں کا شکار ھوکر یا تو لقمہ اجل بن چکے اور یا پھر سسک سسک کر سانسیں پوری کررھے ہیں۔ اب ذرا جدید ذھن کی ذھنی حالت پر توجہ کیجئے، ایک طرف یہ ذھن اس قدر حساس واقع ھوا ھے کہ خاندانی نظم کے اندر اگر کسی مرد کے ھاتھوں عورت (خصوصا بیوی) پر ظلم ھوجائے تو یوں سیخ پا ھونے لگتا ھے گویا اس سے بڑا انسانیت کا کوئی ہمدرد ھے ہی نہیں، نیز اس کے دل میں روایتی معاشرت کو ختم کرکے عورت کو مارکیٹ نظام کا حصہ بنا کر آزاد کرنے کا ایسا جذبہ موجزن ھوتا ھے گویا دکھی انسانیت کے درد کا مداوا ہی اسکی زندگی کا مقصد تھا، پھر یہ وھی جدید ذھن ھے جو دینی جماعتوں سے ''پکے پکائے متبادل'' (وہ بھی صرف ذہنی عیاشی و تجزیوں کیلئے) مانگنے کا رسیا بھی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف یہ جدید ذھن حاضروموجود نظام پر یہ سوال اٹھانے کی تکلیف نہیں کرتا کہ ''اے جدیدیت (آزادی، مساوات و ترقی) کے حامیو، جب تمہارے پاس تمام مسائل کا 'حل پیش کرتا' پکاپکایا متبادل موجود نہیں تھا تو تم نے کیونکر پوری دنیا پر اس ظالمانہ و سفاکانہ نظام کو مسلط کیا؟''

یہ اس جدید ذھن کا المیہ ھے کہ اسے دین کی طرف متوجہ ھونے کیلئے تو پورا پورا کام کرتا، وہ بھی موجودہ تقاضوں سے ھم آھنگ، متبادل 'نظر آنا' چاھئے بصورت دیگراس دعوت کے مدعیین کو اپنے تئیں احمق خیال کرکے اس جدوجہد کا حصہ نہ بننے کو اپنی عقلمندی سمجھتا ھے، البتہ حاضروموجود نظام اگر اونا پونا حل ہی پیش کررھا ھو (وہ بھی ایسا جس کا ظلم اسکے مداوے سے کہیں زیادہ ھو) اسکا حصہ بنے رھنے میں اسے کوئی تضاد محسوس نہیں ھوتا، فیاللععجب۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ حاضروموجود سے واقف ہی نہیں اور محض بھیڑچال کا شکار ھے، ھاں سمجھ یہ رھا ھے کہ میں سب سے زیادہ عقل مند ھوں، پوری اسلامی تاریخ کے اسلاف سے بھی زیادہ؛ اور یا پھر اس نظام پر 'ایمان' لاچکا ھے اور ایمان تو ایسا ہی ھوتا ھے، وہ 'پورے، کام کرتے، تیار شدہ متبادل' کا نہیں بلکہ حصول مقصد کیلئے 'جدوجہد' کا تقاضا کرتا ھے۔ کیا بلال (رض) نے رسول اللہ (ص) سے ایمان لاتے وقت یہ تقاضا کیا تھا کہ ''اچھا تو بتائیے آپ کا پیش کردہ نظام کیسا ھوگا، ذرا اسکا مکمل نقشہ تو کھینچو ابھی میرے سامنے تاکہ میں دیکھ لوں آیا واقعی غلاموں کو اس میں کوئی فائدہ میسر آبھی رھا ھے یا نہیں'' (کوئی کہنے والا کہہ سکتا ھے کہ اگر معاذاللہ بلال (رض) یہ سوال پوچھ لیتے تو رسول خدا اسکا جواب شاید نہ دے پاتے کہ ابھی تو پورا قرآن نازل ہی نہ ھوا تھا)۔

(جاری)
مکمل تحریر >>

''جمہوری سیکولر ریاست فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی'' (2) ۔۔۔۔۔۔ سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں



ابتداء یہ واضح کیا گیا کہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی بدترین جابرانہ ریاستوں کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہاں جمہوری سیکولر ریاست کی فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کی علمی بنیادوں کی وضاحت کی جاتی ھے۔

ھیومن رائٹس (آزادی کے) فریم ورک میں 'اخلاق' (قدر) کا سوال ہی غیر متعلقہ ھوجاتا ھے، یہاں صرف 'قانون' ھوتا ھے، لہذا ھیومن رائٹس فریم ورک فرد کی ساری زندگی (بشمول ذاتی و اجتماعی) کو قانون کا موضوع (subject) بنا کر ریاست کی قانونی مداخلت کے شکنجے کا شکار بنا دیتا ھے۔ ایسا اس لئے کہ ھیومن رائٹس فریم ورک میں 'قدر' (اھم و غیر اھم) کا سوال ہی غیر اھم و لایعنی ھوتا ھے، یہاں اصولا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک فرد اپنے حق آزادی (اختیار) کو استعمال کرکے کیا چاھتا یا چاھنا چاھتا ھے۔ یہاں خواھشات کی تمام تر ترجیحات اصولا مساوی اقداری حیثیت رکھتی ہیں (نماز ادا کرنا، غریب کی مدد کرنا، موسیقی سننا، تمام عمر بطخوں کی فلم بناتے رھنا، گھاس کے پتے گننا، بدکاری کرنا وغیرہ سب مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں)۔ چنانچہ اصولا یہاں کوئی خواہش اخلاقیات کا معاملہ نہیں رھتی، بلکہ ہر معاملہ 'حقوق' کا معاملہ ھوتا ھے جسے بذریعہ قانون ریگولیٹ کیا جاتا ھے۔ اگر ریاست کو معلوم ھوجائے کہ فلاں خواہش یا ترجیح 'اصول آزادی' کے خلاف ھے، یہ فورا اسے قانون کے شکنجے میں لے آتی ھے۔

پس ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ جسے ایک مذہبی ریاست اپنی علمیت کی بنیاد پر اخلاق کا دائرہ سمجھ کر اس میں مداخلت نہیں کرتی، ذاتی زندگی کا وہ دائرہ بھی سیکولر ریاست کی قانونی گرفت سے باھر نہیں رھتا (انسانی تاریخ میں اسکی مثال موجود نہیں کہ کسی ریاست نے یہ قانون بنایا ھو کہ فرد کتنے بچے پیدا کرے، انہیں سکول بھیجے، اپنی بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں کیسا رویہ اختیا رکرے وغیرہ)۔ یہی وجہ ھے کہ ایک اسلامی ریاست کے ماتحت زندگی گزارنے والے غیر مسلمین کیلئے سینکڑوں سال بعد بھی اپنی مذہبی شناخت قائم رکھنا ممکن ھوتا ھے مگر جمہوری سیکولر ریاست افراد پر ھیومن رائٹس کا ایک ایسا جابرانہ قانونی فریم ورک مسلط کرتی ھے جسکے بعد ان کی تمام تر روایتی شناختیں تحلیل ھوکر لبرل سرمایہ دارانہ انفرادیت (ھیومن) میں گم ھوجاتی ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ پختہ جمہوری ریاستوں میں تمام مذہبی شناختیں لایعنی و مہمل بن کر رہ گئی ہیں۔

یہ ان مزعومہ مسلم مفکرین و مذہبی سکالرز کیلئے مقام افسوس ھے جو اس بنیاد پر جمہوری ریاست کی حمایت کرتے ہیں گویا یہ کوئی نیوٹرل (غیرجانبدار) ریاست ھوتی ھے، لہذا انکے خیال میں یہاں فرد کو 'خدائی پلان' کے مطابق 'کفروایمان' اختیار کرنے کا مساوی موقع میسر ھوتا ھے (اور پھر قرآنی آیت فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر سے اپنے اس بے معنی تجزئیے کو استدلال سے مزین کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں)۔ ان بیچاروں کو مذہبی ریاست تو متعصب دکھائی دیتی ھے مگر سیکولر ریاست کا کھلا ھوا علمی و عملی جبر انکی آنکھوں سے اوجھل رھتا ھے۔ اسکی وجہ صرف ایک ھے، یہ متجددین (جو اجتہاد کے نام پر دین پر طبع آزمائی کا ذوق رکھتے ہیں) جدید (جاہلی) علمی ڈسکورس سے ہی ناواقف ہیں۔
مکمل تحریر >>

''جمہوری سیکولر ریاست فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی'' (1) ۔۔۔۔۔۔ سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں


سیکولر لوگوں کی پھیلائی ھوئی بہت سی مغالطہ انگیزیوں (جن کا جائزہ پہلی پوسٹس میں لیا جا چکا) میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ''سیکولر ریاست مذہبی ریاست کی طرح فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی، لہذا یہ مذہبی ریاست کی طرح جابرانہ (coercive) نہیں ھوتی۔ پس ریاست کو مذہبی نہیں بلکہ سیکولر بنیاد پر قائم ھونا چاھئے''۔ مگر حقیقت یہ ھے کہ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی جابر ترین ریاستیں ھیں۔ یہ ریاستیں نگرانی (surveillance) کے ایک ایسے جابرانہ نظام کے ذریعے فرد کی زندگی کو گھیرے میں لئے ھوئی ہیں جس کا تصور بھی اگلی ریاستوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ جدید ٹیکنالوجی (موبائیل، انٹرنیٹ وغیرھم) کے ذریعے یہ مرکزیت قائم کرتے کرتے فرد کے فیصلوں پر مختلف الانواع طرق سے اثر انداز ھوتی ہیں۔ مثلا موبائیل ٹیکنالوجی کے ذریعے کون، کب اور کہاں موجود ھے اس پر نظر رکھی جاتی ھے (اب تو شناختی کارڈ میں ہی 'چپ' (chip) لگا دی گئی ھے)، کون، کس سے، کتنی دیر تک اور کیا بات کررھا ھے سب ریاست کی نظر میں ھے، کون کس سے کتنی رقم لیتا اور کسے دیتا ھے بذریعہ بینک ریاست سب جانتی ھے (اور بینکنگ کے علاوہ ٹرانزیکشن کے دیگر طریقے آہستہ آہستہ غیر قانونی قرار دئیے جاتے ہیں کہ وہ ریاست کی نظر میں نہیں ھوتے)، کون شخص کس ویب سائٹ پر آتا جاتا ھے ریاست کو سب معلوم ھے، لائبریری سے کون لوگ کونسی کتب اشو کروارھے ہیں ریاست یہ بھی جانتی ھے۔

الغرض اس نظام میں شعوری طور پر ایسی ٹیکنالوجی ڈیزائن کی جارہی ھے جو مرکزیت (centralization) کو ممکن بنائے۔ اس مرکزیت کے نتیجے میں فرد ریاست کے سامنے کلیتا بے یارو مددگار ھو جاتا ھے۔ جب تک ریاست (sovereign) کو فرد سے خطرہ لاحق نہیں ھوتا وہ اسے کھلا چھوڑے رکھتی ھے، فرد اس جھانسے کا شکار رھتا ھے کہ ''میں آزاد ھوں''، مگر جونہی ریاست کو اس سے خطرہ لاحق ھوتا ھے اسے یوں غائب کردیتی ھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔۔۔۔۔۔۔ اورجدید مسلم ذھن کی برق گرتی ھے تو بچارے 'اسلامی تاریخ کے ملوک' پرکہ 'وہ جبر کیا کرتے تھے، مخالفین کو ٹھکانے لگادیتے تھے' وغیرہ؛ مگر 'جمہوری ریاست' ایسوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ھے یا تو انہیں اسکا اندازہ ہی نہیں اور یا پھر مارے شرم کے اس معاملے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔

جمہوری سیکولر ریاست کے اس جابرانہ اور مداخلتی رویے کی خالص علمی بنیادیں ہیں۔ آزادی کے فریم ورک میں جب ریاست (sovereign) کسی کی آزادی کے تحفظ کا ذمہ لیتی ھے تو اسکا مطلب یہ ھوتا ھے کہ sovereign جب چاھے اسکی آزادی چھین سکتا ھے، یعنی چونکہ وہ آزادی چھین سکتا ھے اسی لیۓ وہ تحفظ دے سکتا ھے ۔جس کی آزادی sovereign کی پھنچ سے باھر ھو اسے وہ تحفظ بھی نہیں دے سکتا۔ اسی لیۓ موجودہ جمھوری ریاستوں میں فرد کی آزادی ایک سراب ھوتا ھے، ریاست جب چاھے اسے چھین لیتی ھے۔ یھاں جس شے کو فرد "اپنی آزادی کا دائرہ" سمجھتا ھے وہ درحقیقت "sovereign کے کنٹرول کا دائرہ" ھوتا ھے۔ وہ لوگ جو اس "sovereign کے دائرہ تحفظ" کو قبول نہ کریں انکی آزادی sovereign کےلیۓ خطرہ ھے (کیونکہ وہ اسکی پھنچ سے باھر ھے) لھذا یہ انہیں اپنے دائرہ تحفظ قبول کرنے کےلیۓ مجبور کرتا ھے،بصورت دیگر انھیں مار دیتا ھے، جیسے کہ موجودہ استعمار کرتاآرھا ھے۔ چنانچہ جمھوری فریم ورک میں آزادی اسی کی محفوظ ھوتی ھے جو اسے sovereign کے سپرد کرنے کےلیے تیار ھو۔

اب طرفہ تماشا دیکئھے، ایک طرف یہ نظام یہ تعلیم و آگہی عام کرتا ھے کہ فرد کی آزادی مقدم ھے، اسکی ذاتی زندگی مقدس ھے، فرد ہی sovereign ھے وغیرہ (علم معاشیات و لبرل ڈیموکریسی کا پورا ڈسکورس ھے ہی یہی)؛ مگر دوسری طرف عملا یہ نظام فرد کو بے یارومددگار کرتا ھے، کلیتا ریاست کے رحم و کرم کا محتاج بناتا ھے، اسکی ذاتی سے ذاتی خواھش پر اثر انداز ھوتا ھے، وہ بھی اخلاقی پریشر کے طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر (اسکی وضاحت بعد میں کی جائے گی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حد تک کہ اسے کتنے بچے پیدا کرنے چائیے، اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرے (انہیں سکول بھیجے، بصورت دیگر سزا یا جرمانہ ھوگا)، اسکے گھر یہاں تک کہ بیڈ روم کے رویے کو بھی قانون کی گرفت میں لاتا ھے (یورپ و امریکہ میں اگر بیوی یہ کہہ دے کہ اسکے شوھر نے اسکی مرضی کے بغیر اسکے ساتھ ہم بستری کی کوشش کی تو ثابت ھونے پر شوھر کو سزا ھوجاتی ھے)۔ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستوں کی اس صورت حال کو دیکھتے ھوئے انفرادی آزادی پسند جمہوری مفکرین بھی تلملا اٹھے ہیں اور انہیں Monster (خوفناک بھوت) قرار دیتے ہیں جن سے گلو خلاصی انہیں ناقابل حصول شے معلوم ھوتی ھے۔

مگر ہمارے یہاں کا جدید مسلم ذھن ھے کہ موجودہ نظام کی پھیلائی ھوئی اس جھوٹی آگہی سے متاثر ھوکر ان ریاستوں پر فدا ھوا چاھتا ھے، اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اسلاف کو بھی کند ذھن سمجھنے لگا ھے کہ وہ اس آگہی کو ان سے یہلے کیوں نہ پاسکے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے قیامت کی علامت نہ کہیں تو اور کیا کہیں!


(جاری)
مکمل تحریر >>

Thursday, October 24, 2013

ایک روح پرور تبدیلی


ایک دور تھا جب مغربی علمیت سے مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے یہاں مسلم ماڈرنزم نے جنم لیا۔ اس فکر نے دعوی کیا کہ آج تک کوئ اسلام کو درست سمجھا ہی نہیں، اصل اسلام وہ ہے جو مغرب برت رہا ہے۔ انہوں نے 'اسلام کی مغرب کاری' کا بیڑا اٹھایا۔ اس فکر سے بہت سے ذہن متاثر ہوۓ (سر سید، چراغ علی، پرویز وغیرہم)۔ لیکن علماء اسکے آگے ڈٹ گۓ اور اسے شکست فاش سے دوچار کیا (آج جاوید احمد غامدی جیسے مفکرین ایک بار پھر اس مردے میں روح پھونکنے میں مصروف ہیں)۔
لیکن مغربی علمیت پر یہ فتح دیر پا ثابت نہ ہوئ اور اب یہ 'مسلم ترمیمیت پسندی (revisionism)' کی صورت میں نمو دار ھوئ۔اس فکر نے دعوی کیا کہ اسلام اور مغرب میں اصولی مماثلت ہیے لہذا مغرب سے ڈائیلاگ (کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاملہ) ہو سکتا ہے۔اس فکر نے کہا کہ مغربی اقدار و ادارے ہماری ہی تاریخ کا تسلسل ہیں (اور یہ ثابت کرنے کیلۓ انہوں نے اسلامی تاریخ کا ایک ایسا revised ورژن تیار کررکھا ہے جو مغرب کو اپنے اندر سمو نے کی کوشش کرتا ہے (اس فکر کی مثالیں اسلامی بینکاری و جمہوریت ہیں)۔اس فکر نے 'مغرب کی اسلام کاری' کی۔مسلم روژنزم ان معنی میں زیادہ خطرناک ثابت ہوئ کہ اس میں علما کرام بھی اچھی خاصی تعداد میں شامل ہوگۓ۔
یہ دونوں دھارے مغرب سے مرعوبیت اور نامکمل واقفیت کی بنا پر پیدا ہوۓ۔ لیکن آج الحمد للہ امت مسلمہ میں ایسے افراد کا اچھا خاصا جتھا پیدا ہوگیا ہے جو مغرب کی آنگ انگ سے واقف ہے، جو اسکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس سے بات کرتے جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ جو پورے شرح صدر کے ساتھ کہتا ہے کہ 'مغرب جاہلیت خالصہ ہے'، اس کے ساتھ ہمارا ڈائیلاگ نھیں بلکہ 'دعوت' (monologue)کا تعلق ہے۔ قرون اولی کی طرف مراجعت کی دعوت دیتے اسے عار محسوس نہیں ہوتی۔
مکمل تحریر >>

اسلام میں غلامی کی ضرورت و پس منظر


اسلام کا (جنگی قیدیوں کے حوالے سے) غلامی کاآپشن نہایت پسندیدہ و عقلی تصور ہے۔ درحقیت اس کے ذریعے اسلام ان مارجنل لوگوں کو اسلامی معاشرے میں سمو دیتا (internalizeکردیتا) ہے، بجاۓ اس سے کہ وہ ہمیشہ marginal اور alien طبقے ہی رہیں۔ یہ اسی انٹرنلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں باقاعدہ سلطنت غلامان قائم ہونے کی نوبت تک آگئی۔چونکہ اسلامی ریاست ایک جہادی (ever expanding) ریاست ہوتی ہے لہذا اس میں غلامی کا یہ آپشن ہمیشہ کیلیے کھلا رکہا گیا اور فقہا نے ایسا ہی سمجھا (کیونکہ وہ اسلامی ریاست کی اس نوعیت سے بخوبی واقف تھے)۔ پھر جن لوگوں نے اسلامی ریاست کو مغربی ریاستوں کے پیمانوں پر 'ویلفئر نیشن سٹیٹ ' اور اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی کے تناظر میں دیکھا انہیں غلامی کے اس تصور سے عار محسوس ہوئ اور اپنی علمی و سیاسی تاریخ کو نظر انداز کرکے اس دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔سوال یہ ہے کہ جن قوموں نے اسے برا سمجہ کر ترک کیا انہوں نے اس طبقے کو سواۓ گوانتانامو جیسی جیلوں کے اور کچھ دیا؟ آخر ایسی قوموں کی علمیت اور عمل سے متاثر ہونے کی وجہ ہی کیا ہے؟ آج جب دنیا اس بات کو مان رہی ہے کہ معاشرتی مسائل حل کرنے کا درست طریقہ انہیں internalize کرنا ہے (مثلا غربت کے خاتمے کیلے ضروری ہے کہ لوکل سطح پر کوآپریٹوز کے ذریعے ذرائع میں اضافہ کیا جاۓ تاکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں نہ یہ کہ لوگوں کو رقم دے دی جاۓ)، ایسے میں ہم اسلام کے اس عظیم آپشن پر بات کرتے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

جمہوریت: عوامی حاکمیت کا فریب


جدید تہذیب کی دلکش مگر پرفریب ترین اشیاء میں سے سب سے بڑی جمہوریت ھے جو عوام کو یہ سراب دکھاتی ھے کہ ''تمہارے ارد گرد جو کچھ ھورھا ھے یہ سب تمہاری ہی خواہشات اور مرضی کا اظہار و عکس ھے''۔ مگر فی الحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں کیونکہ سرمایہ داری ایک نظام زندگی ھے اور نظام زندگی میں فیصلے اور معاملات 'لوگوں کی آراء' نہیں بلکہ اسکی 'علمیت' سے طے ھوتے ہیں۔ درحقیقت کسی نظرئیے کے نظام زندگی ھونے کا مطلب ہی یہ ھوتا ھے کہ وہ ایک 'علمیت' ھے جو ذاتی و اجتماعی زندگی کی تشکیل کا طریقہ بتاتی ھے۔ سرمایہ دارانہ نظم کو قائم کرنے و رکھنے والی علمیت سوشل سائنسز ھے۔

اس نظم میں ریاست کا کردار کیا ھے یہ عوام نہیں بلکہ علم معاشیات و سیاسیات طے کرتے ھیں، ریاست پابند ھے کہ ان اصولوں کے مطابق معاملات چلائے۔ مثلا علم معاشیات بتاتا ھے کہ اگر مارکیٹ نظم کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو سرمائے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ھوگا۔ لہذا ریاست کی ذمہ داری ھے کہ:
1) وہ ایسی پالیسیاں بنائے جن سے حاضروموجود غیر سرمایہ دارانہ معاشرہ آہستہ آہستہ مارکیٹ بنے
2) سرمایہ دارانہ لااینڈ آرڈر (ھیومن رائٹس کی بالادستی) قائم کرے
3) سرمایہ دارانہ علمیت کو فروغ دے
4) جو قوتیں سرمایہ دارانہ نظم کے خلاف ہیں انکی بیخ کنی کرے
5) جو کام مارکیٹ نہیں کرسکتی اسکی ادائیگی اپنے ذمے لے
6) معاشرے کے وہ تمام محروم افراد اور طبقے جو مارکیٹ مظالم کا شکار ھوں انکے مسائل کا مداوا کرتی رھے
7) مارکیٹ نظم میں ارتکاز سرمایہ و قوت کے نتیجے میں جو استحصال کے مواقع پیدا ھوتے رھتے ہیں انہین ریگولیٹ کرتی رھے
(8) پرائیویٹائزیشن و لبرلائزیشن جیسی پالیسیوں کے ذریعے مقامی ریاست کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی باجگزار ریاست بنائے (اس عمل کو گلوبلائزیشن کہتے ہیں)
9) اس عالمی نظام کو قائم رکھنے کیلئے جو عالمی نگران ادارے موجود ہیں انکی زیر نگرانی کام کرے

اب آپ تھرڈ ورلڈ نہیں (کہ انہیں تو ڈکٹیشن لینے والی ریاستیں سمجھا جاتا ھے) بلکہ یورپ و امریکہ (جنہیں جمہوریت کا چمپئین سمجھا جاتا ھے) کی جمہوری ریاستوں کا چکر لگا کر دیکھ آئیں کہ انکی حکومتیں و دیگر ریاستی ادارے درج بالا انواع سے کس قدر مختلف پالیسی سازی کرنے میں مصروف عمل ہیں اور آج تک مصروف رھے ہیں۔ اگر وہ یہی سب کچھ کررہی ہیں اور کئی دھائیوں سے کرتی آرہی ہیں جیسا کا امر واقعہ ھے تو پھر 'عوام کی رائے' سے کیا ھورھا ھے، یہ سب تو علم معاشیات نے بتایا؟

درحقیقت جمہوریت عوامی رائے (will of all) نہیں بلکہ ارادہ عمومی (general will)، یعنی آزادی/سرمائے میں مہمیز اضافے، کی بنیاد پر ریاست تعمیر کرنے کا نظام ھے۔ اس ارادہ عمومی کی تشریح (یعنی آزادی/سرمائے میں اضافہ کیسے ھوتا ھے کی تشریح) ھیومن رائٹس و سوشل سائنسز کے فریم ورک سے ھوتی ھے (یوں سمجھئے کہ ان سوشل سائنسز کی حیثیت یہاں گویا علم فقہ و اصول فقہ کی سی ھے)۔ اگر عوام کی اکثریت وہ چاھے یا چاھنے کی خواھش رکھے جو اس ارادہ عمومی کے خلاف ھے (مثلا پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن یا مارکیٹ نظم کی مخالفت؛ یا شرع یا ذات پات کے نظام کا نفاذ) تو ایسی ھر خواھش و ارادہ ''اصولا'' (علمی طور پر) غلط ھے۔ کیوں؟ اسلئے کہ لوگوں نے وہ نہیں چاھا جو انہیں چاھنا چاھئے تھا، دوسرے لفظوں میں ایسی 'ناجائز خواھش' کے ذریعے لوگوں نے اپنے ارادے کو اپنی آزادی (ارادہ عمومی) کی نفی کے اظہار کا ذریعہ بنایا جسکی اجازت اس نظام میں ہرگز موجود نہیں کہ یہ اس سے سرکشی و بغاوت ھے۔ ایسی ہر خواھش قابل اصلاح و مردود ھے۔

مگر 'عام' آدمی کو یہ نظام بذریعہ میڈیا یہ جھانسہ دیتا رھتا ھے کہ یہاں جو کچھ ھورھا ھے یہ سب ''تم 'اکیلوں' کے ووٹ'' سے ھورھا ھے اور یہ جھانسہ اس عام آدمی کو ہر چار پانچ سال بعد 'اپنی' آزادی و مساوات کے اظہار کیلئے پولنگ بوتھ کھینچ لاتا ھے، اس امید پر کہ 'اب کہ شاید وہی ھوگا جو میں چاھتا ھوں'۔

ہمارے یہاں کے مفکرین کو بھی جمہوریت کا یہ فریب خاصا بھلا معلوم ھوا (اور ایک مصنف کے بقول) وہ اس ولایتی گوری میم کو اپنے یہاں بیاہ لائے۔ اس ولایتی میم کو ''شرعی رنگ روپ'' دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے، اسے کلمہ بھی پڑھایا ۔۔۔۔۔ اور وہ بھی پورے خلوص نیت کے ساتھ۔ مگر اس ولایتی گوری میم نے انکے دیسی معاشروں کا وہی حشر کیا جسکے لئے یہ تیار کی گئی تھی۔ تاریخ کے اوراق چلا چلا کر گواہی دے رھے ہیں کہ یہ ولایتی میم جس جگہ گئی اسے گورا بنایا نہ کہ خود دیسی بن گئی۔ اپنے اپنے دیس کے باسیوں نے چاھے اس پر کتنے ہی تڑکے کیوں نہ لگائے ھوں، یہ اپنا رنگ روپ اور جلوہ دکھانے سے باز نہیں آتی۔ مگر ھم ہیں کہ یہ 'معصوم' تصور قائم کئے بیٹھے ہیں کہ نہیں یہ گوری تو تھی ہی ہماری، ھمیشہ سے، اور یہ ہمارا ہی ورثہ ھے، لہذا یہ ھم سے دغا نہیں کرے گی۔
مکمل تحریر >>

تصور 'یونیورسل اخلاقیات' کے خوفناک ابہامات ۔۔۔۔۔۔۔ خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے


عام طور پر اخلاقی اقدار کو 'انسانی شے' سمجھ کر انہیں 'یونیورسل' تصور سمجھ لیا جاتا ھے، مگر یہ صرف ایک فکری خلجان (کنفیوژن) ھے۔ اس تصور کے تحت خیر کے چند تصورات (مثلا سچ بولنے) کو 'بنیادی انسانی اقدار' فرض کرکے انہیں انسانیت کا مظہر قرار دیا جاتا ھے۔ مزید یہ کہ ان بنیادی اخلاقی اقدار کو ان معنی میں مذھب سے ماوراء قرار دیا جاتا ھے کہ اپنے جواز کیلئے یہ مذہبی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ اپنا جواز یہ اپنے اندر از خود رکھتے ہیں، نیز ان تصورات کو تمام مذاھب نے اسی وجہ سے بطور خیر متعارف کروایا ھے کہ یہ آفاقی انسانی اقدار ہیں۔

درج بالا کنفیوژن کی وجہ یہ ھوتی ھے کہ اخلاقی تصورات کو مقاصد سے علی الرغم مجرد طریقہ کار '(procedure)' فرض کرلیا جاتا ھے۔ چنانچہ اس مجرد 'پروسیجرل گڈ' (procedural good) کے تصور کی بنیاد پر سچ بولنے، ایمانداری، خلوص نیت وغیرھم جیسی اقدار کو بذات خود خیر سمجھ لیا جاتا ھے، علی الرغم ان مقاصد کہ جن کے حصول کا یہ ذریعہ ھیں۔ اسی وجہ سے یہ جملے کہے جاتے ھیں کہ ''ہمیں یہ اقدار اپنانی چاہئیں، اسلئے نہیں کہ مذھب کہتا ھے بلکہ اس لئے کہ یہ ہیں ہی اچھی چیزیں''، یا ''یہ اقدار جس انسان میں بھی ہیں وہ ایک اچھا انسان ھے، چاھے مذھب کو مانتا ھے یا نہیں''، یا ''ان اخلاقیات کو مانو، چاھے خدا کے کہنے کے جواز پر یا انسانی خوبی سمجھ کر''۔ ان تمام جملوں میں یہ فرض کرلیا جاتا ھے گویا سچ بولنا و ایمانداری اختیار کرنا بالذات اچھی بات ھے، علی الرغم اس سے کہ یہ اختیار کرنا حصول رضائے الہی کیلئے ھے یا کسی دوسرے مقصد (مثلا سرمایہ داری کے فروغ) کیلئے۔

ماخذ و مقاصد سے علی الرغم خیر و شر کا یہ پروسیجرل تصور بظاھر خاصا مسحور کن معلوم ھوتا ھے مگر اپنے اندر یہ عمیق گمراھیوں کو سموئے ھوئے ھے اور تنویری فکر کے تحت تو یہ باقاعدہ ایک 'نظریہ' بن چکا ھے (چنانچہ آج مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ھیں جو یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ 'ہمیں اچھے اخلاق اس لئے اختیار نہیں کرنے چاھئے کہ ایسا خدا نے کہا ھے بلکہ اسلئے کرنے چاہئے کہ یہ اچھی بات ھے یا یہ انسانیت کا تقاضا ھے، یا یہ ہمارے ضمیر کی آواز ھے وغیرہ')۔ یہاں اس کی وضاحت کی جاتی ھے۔

مقاصد سے علی الرغم خیر کا فلسفہ باطل ھے کہ مقاصد سے علی الرغم تو برائی (مثلا جوے، بدکاری یا قتل و غارت گری کو فروغ دینا) بھی انتہائی ایمانداری، سچائی و خلوص نیت کے ساتھ ممکن العمل ھے۔ مثلا جوا کھیلنے کی مثال لیں۔ چنانچہ اسکے 'پرامن' قیام و بقا کیلئے چیکس اینڈ بیلینسز پر مبنی ایسا طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ھے جس میں جوے بازوں کی 'خلوص نیت' پر مبنی شرکت اور 'ایمانداری و سچائی' کے ساتھ اسکے قوانین کی پاسداری انکے باہمی اختلاف کو ناممکن بنا دے۔ فرض کریں پوری ''دیانت داری'' کے ساتھ سب لوگوں کو جوا کھیلنے کا ''مساوی موقع'' فراھم کرنے کیلئے اسکے چند ''عالمی قوانین'' طے کردئیے جائیں، پھر اسے کھیلنے والے شرکاء پوری ''ایمانداری و سچائی'' کے ساتھ ان قوانین کی پاسداری کریں، پھر دوران کھیل ان قوانین کے اجرا کیلئے پولیس و نگران ایجنسیوں کا بندوبست بھی کردیا جائے تاکہ ''قانون کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر'' کی سرکوبی کیلئے ان پر کڑی نظر رکھی جاسکے نیز ''ادارے کی رٹ'' بھی قائم رھے۔ اتنا ہی نہیں، اس کھیل کی گلوبلائزیشن کیلئے عالمی نگران ادارے بھی قائم کردئیے جائیں جو عالمی سطح پر اس کھیل کے سچائی و ایمانداری کے ساتھ انعقاد کو ممکن بنائیں تاکہ ''قانون کی بالادستی'' کے نتیجے میں ''عدل و انصاف'' کا بول بالا ھو۔

بھلا غور تو کیجئے، اس پورے نقشے میں کتنی 'اخلاقی اقدار' کا پاس رکھا گیا ھے نیز یہ افراد کی کتنی ہی عظیم الشان اخلاقی اقدار کی تربیت کا بندوبست فراھم کررھا ھے۔ خیالی نقشے کو چھوڑئیے، عملی دنیا کے بارے میں غور کیجئے کہ ہر روز یہاں کتنے ملین لوگ ہر روز پوری سچائی، ایمانداری و خلوص نیت کے ساتھ جوے اور قحبہ خانوں میں شرکت کرتے ہیں! سوال یہ ھے کہ کیا سچائی و ایمانداری کے ساتھ جوے کے اس کھیل میں شریک ھونا اور اسے بڑھاوا دینا 'بذات خود' قابل تحسین اقدار کہلائیں گی؟

اگر نہیں اور ہر گز نہیں، تو خوب جان لینا چاہئے کہ خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے۔ سچ بولنا یا ایمانداری بذات خود نہیں بلکہ خدا کے ریفرنس (یعنی خدا کا انہیں اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ کہنے کی وجہ) سے خیر ہیں۔ درحقیقت قدر سچ بولنا نہیں بلکہ حصول رضائے الہی ھے، سچ بولنا محض اس مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ھے۔ اس خدائی ریفرنس کے علاوہ کسی دوسری بنیاد (مثلا انسانیت کی بھلائی، اصول پسندی، ضمیر کی آواز) پر انہیں اختیار کرنا ہرگز قدر و اخلاق نہیں (بلکہ اس صورت میں یہ ھیومن ازم سے نکلنے والی 'شرک فی الارادہ' کی ایک شکل بن جاتی ھے جس کی تفصیل درج ذیل لنک میں دیکھی جا سکتی ھے)۔ جن مفکرین نے تنویری علمی ڈسکورس کے زیر اثر اخلاقیات نیز معروف و منکر کا مبدا، ماخذ و مقصد عقل، فطرت یا نفس انسانی وغیرہ کو قرار دیا وہ قدیم معتزلہ کی اسی غلط فہمی کا شکار ھوئے جسکی اصلاح امام اشعری و غزالی نے صدیوں قبل فرما دی تھی۔

http://www.eeqaz.com/ebooks/022shirk_akbar/022shirk_akbar08.htm
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 22, 2013

تحفظ عورت، خاندان اور مارکیٹ ۔۔۔۔ ایک اھم شبے کا ازالہ


اس عنوان کی پچھلی پوسٹ میں بتایا گیا کہ مارکیٹ معاشرت کیونکر عورت کی کفالت کا بوجھ اسکے کاندھوں پر ڈال کر اس پر ظلم کرتی نیز اسے غیر محفوظ کرتی ھے۔ اس پر ایک شبہ یہ وارد کیا جاتا ھے کہ موجودہ خاندانی نظم کے اندر بھی عورت پر طرح طرح کے مظالم ھوتے ہیں نیز اگر عورت بیوہ یا طلاق یافتہ ھوجائے اور اسکے باپ یا بھائی اسکی کفالت کی ذمہ داری نہ اٹھائیں یا اٹھانے لائق نہ ھوں تو اس عورت کیلئے تو مارکیٹ کا حصہ بننا ایک نعمت ھے، گویا مارکیٹ ایسی خواتین کیلئے بہترین متبادل فراہم کررھی ھے۔

مگر اعتراض کرنے والے نے خاندان کا نقشہ بس 'ماں باپ اور بچوں' تک محدود سمجھا، ظاھر ھے جسے خاندان بمعنی 'برادری' یا 'قبیلہ' کہتے ہیں وہ محض ان تین تعلقات کا نام نہیں بلکہ اس سےبہت وسیع تر تصور ھے۔ تو پہلی بات یہ کہ خاندانی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ واقعی موجود ھو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی قوت اسکی برادری و خاندان ھوتا ھے اکیلی عورت نہیں، لہذا اسے دبوچ کر اس پر ظلم کر لینا کوئی آسان کام نہیں ھوتا۔ دوسری بات یہ کہ جو عورت بیوہ ھوجائے یا اسے طلاق ھوجاۓ تو اس کا مداوا بھی یہی نظام کردیتا ھے۔ مثلا ہمارے یہاں آج بھی اس امر کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ اور اسکے بچوں کو سہارا دینے کیلئے (اپنی تمام تر خواہشات کی قربانی دے کر) اس سے نکاح کرلیتا ھے، اگر نکاح ممکن نہ ھو تب بھی دادا یا دیگر بھائی وغیرھم ملکر خاتون خانہ اور اسکے بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے اور خاندانوں میں ہر سو پھیلی یہ مثالیں نظر نہیں آتیں، ہاں چند ظلم کرنے والے مرد نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر طلاق ھوجائے تو بھی عورت بے یارومددگار نہیں ھوجاتی (ویسے یہ بھی عجیب ذہنیت ھے کہ جدید ذہن کو طلاق کے بعد ہمیشہ عورت ہی کی فکر دامن گیر رہتی ھے، مرد اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے جو پریشان ھوتا ھے وہ تو اسکے یہاں کسی کھاتے میں ہی نہیں)۔

چنانچہ مسئلہ تب پیدا ھوتا ھے جب فرد کی ان بنیادوں پر تربیت نہ کی جائے یا ممکن نہ رھے جو خاندانی نظام کے کرائسز مینیجمنٹ پروسسز کو اکٹیویٹ کرتی ھے، اور اس تربیت سازی میں بہت بڑی رکاوٹ خود جدید تعلیم و مارکیٹ سوسائٹی کا پھیلاؤ ھے جو فرد کو خود غرضی کی عقلیت و جبر قبول کرنے پر راضی کرتی ھے۔ خواہشات و ذاتی اغراض کا اسیر یہ 'فرد' (ھیومن) تو ماں باپ کو ہی گھر سے نکال باہر کرتا ھے، بیوہ یا مطلقہ عورت کا رونا کیا روئیں۔ گویا خاندان کا تحفظ ختم ھونے سے صرف 'روایتی عورت' (ماں، بہن، بیٹی، بیوی) ہی غیر محفوظ نہیں ھوتی بلکہ 'بوڑھے' (ماں باپ) بھی غیر محفوظ ھوجاتے ہیں۔ درحقیقت مارکیٹ یا سول سوسائٹی انفرادیت کے ہر روایتی اظہار یا تعلق کو غیر معقول و لایعنی بنا کر انکے وجود کو 'غیر محفوظ' کردیتی ھے۔ ایسا اس لئے کہ مارکیٹ یا سول سوسائٹی 'مجرد فرد' کی تکمیل اغراض کی خاطر وجود میں آنے والے تعلقات کا نظام ھے۔ اس معاشرت میں 'اغراض سے ماوراء' ہر تعلق غیر معتبر ھوجاتا ھے لہذا محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی اجتماعیتیں (مثلا خاندان و قبائل) تحلیل ھوجاتے ھیں۔ ھیومن رائٹس پر مبنی اس معاشرت میں ہر فرد کو اپنا 'area of non-encroachable' (ذاتی زندگی کے حقوق کا وہ دائرہ جس میں 'کسی' کی مداخلت جائز نہیں) کا تحفظ اور اس میں توسیع ہر دوسری شے سے عزیز تر ھوتی ھے، لہذا اس معاشرت میں خاندان لازما تحلیل ھوکر رھتا ھے (جس معاشرت میں ھیومن رائٹس کے نام پر بچوں کی شکایت پر ماں باپ کو عدالتوں اور تھانوں میں طلب کیا جارہا ھو بھلا وہاں خاندان باقی رہ سکتا ھے؟ ایں خیال است محال است)۔ آزادی و اغراض کا فروغ لازما رحمی رشتوں کو مخاصمت میں تبدیل کرکے رھتا ھے۔

تو خوب دھیان رھے کہ خاندانی نظام بس یونہی شکست و ریخت کا شکار نہیں ھورھا بلکہ یہ بذات خود مارکیٹ نظم کا نتیجہ ھے۔ جوں جوں مارکیٹ کا دائرہ پھیلتا ھے، روایتی معاشرت کی شکست و ریخت کا عمل تیز تر ھوجاتا ھے نتیجتا ہر روایتی تعلق (بشمول 'روایتی عورت') روایتی تحفظات سے محروم ھوکر غیر محفوظ ھونے لگتا ھے اور اسے اپنی آخری پناہ گاہ بادل ناخواستہ مارکیٹ میں تلاش کرنا پڑتی ھے۔ درحقیقت مارکیٹ کسی دوسرے نظام کے ستائے ھوئے لوگوں کو نہیں بلکہ خود اپنے پیدا کردہ ظلم کے مارے چند لوگوں کو اپنے اندر سموتی ھے اور بڑی اکثریت کو این جی اوز، پروفیشنل خیراتی اداروں اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تھپیڑوں کے حوالے کردیتی ھے۔

اور پھر ذرا تصور کیجئے ان عورتوں کے بارے میں بھی جو یا تو کمانے لائق نہیں یا پھر بہت کم کماتی ہیں ۔۔۔۔ آخر یہ مارکیٹ نظام انکے ساتھ کیا کررھا ھے؟ ھوسکتا ھے آپ کہیں کہ وہ انشورنش کروائیں، مگر اسکے لئے تو رقم چاہئے جو کمائے بغیر ممکن نہیں، ھوسکتا ھے آپ کے ذہن میں یہ خیال مچل رھا ھو کہ انکی کفالت ریاست کرے گی مگر اس دنیا کی کتنی ریاستیں ہیں جنکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنی ساری محروم آبادی کیلئے آمدن کا بندوبست کردے؟ تو سوال یہ ھے کہ یہ جو اتنی کثیر تعداد میں خواتین بے یارومددگار گھوم رہی ہیں ان کیلئے اس نظام میں کیا ھے؟ تو یہاں کوئی جدید ذھن کیوں یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ 'اے ظالمو جب تمہارے پاس ان خواتین کے بندوبست کا کوئی نظام موجود نہیں تھا تو کیونکر تم نے خاندان کو تحلیل کرکے مارکیٹ نظم قائم کیا؟' ۔۔۔۔۔ کیا یہ جدید ذھن کا کھلا تضاد نہیں کہ دینی طبقے سے تو دین پر عمل پیرا ھونے کیلئے پہلے 'ہر مسئلے کا پکا پکایا متبادل' فراہم کرنے کی شرط لگاتا ھے مگر خود اپنے نظام پر یہی سوال نہیں اٹھاتا؟

تو مارکیٹ جو بحرانوں کا شکار چند عورتوں کو سپورٹ کررھی ھے وہ بس یونہی نہیں کررہی، بلکہ معاشرے سے اسکی پوری پوری قیمت وصول کررہی ھے۔

پس کرنے کا کام خاندان کو مارکیٹ میں ضم کردینا نہیں (کہ یہ تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ھے) بلکہ مرد کی 'درست تربیت' پر توجہ دینا ھے تاکہ وہ اپنی 'ذمہ داری' کو پہچانے۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں، اس مارکیٹ نظم کو تحلیل کرنا اس تربیت سازی سے بھی زیادہ ضروری عمل ھے کہ اسکے بنا یہ تربیت کبھی عام نہ ھوسکے گی۔
مکمل تحریر >>

Monday, October 21, 2013

تحفظ عورت، خاندان اور مارکیٹ ۔۔۔۔ حقیقت اور افسانوں کا فرق


تصور کریں اس عورت کے بارے میں جسکا خاوند، باپ، بھائی یا بیٹا (یا کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار) اسکی معاشی کفالت کا پورا ذمہ اٹھائے ھوئے ھے، گھر سے باہر آتے جاتے وقت اسکے تحفظ کی خاطر اسکے ساتھ ھونے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ھے، اسکی ضرورت کی ہر شے اسے گھر کی دہلیز پر مہیا کرتا ھے، اپنی عمر بھر کی کمائی ہنسی خوشی اس پر خرچ کردیتا ھے، اسے اچھا کھلاتا اور پہناتا ھے، اسکی عزت کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک قربان کردینے کیلئے تیار رھتا ھے، اور 'بالآخر' (بادل ناخواستہ ہی صحیح) گھر کے معاملات بھی اسی عورت کی جھولی میں ڈال دیتا ھے (یہ تصور کہ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی عورت کے پاس فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی ایک افسانہ ھے، خاندانی نظم کے اندر بچوں کی عمر ذرا زیادہ ھونے کے بعد عورت بالعموم کس قدر بااختیار ھوجاتی ھے اسکا اندازہ ہر شوھر کو ھوتا ھے )۔ یہاں جس عورت کی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا یہ کوئی تخیلاتی عورت نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں آج بھی خواتین کی غالب ترین اکثریت کم و بیش یہی زندگی گزار رھی ھے (کچھ اس خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور کچھ مارکیٹ نظم کا حصہ بن جانے کی وجہ سے مظالم کا شکار ہیں، ان مظالم کا تعلق ہرگز خاندانی نظام کے ڈھانچے سے نہیں جیسا کہ ہمارا لبرل طبقہ جھانسا دینے کی کوشش کرتا ھے کیونکہ اس صورت میں یہ غالب ترین اکثریت بھی ان مظالم سے محفوظ نہ ھوتی)۔

اب اسکا موازنہ کریں اس عورت کی زندگی سے جو اپنی معاشی کفالت کی خود ذمہ دار ھے، گھر اور بچوں کی ذمہ داری بھی اسی کے کاندھوں پر ھے، صبح ناشتہ بھی بناتی ھے، بچوں کو تیار بھی کرتی ھے، انکے لنچ کا بندوبست بھی کرتی ھے، آفس کے جبر کو بھی برداشت کرتی ھے، باس کی باتیں بھی سنتی ھے، شام کو سب کیلئے کھانا بھی بناتی ھے، لانڈری بھی کرتی ھے۔ اگر قسمت نے یارانہ کیا تو شاید عمر بھر ساتھ نبھانے والا کوئی شوھر ہاتھ آجائے وگرنہ یہ سارا بوجھ اکیلے ہی اٹھائے پھرے گی۔ یہ نقشہ ھے جدید و ترقی یافتہ معاشروں کی غالب ترین خواتین کی زندگی کا۔ اس عورت کو اپنے تحفظ و بقا کیلئے ان پروسزز ، اشیاء و خدمات کی ضرورت ھے جنہیں مارکیٹ سے 'خریدنا' پڑتا ھے لہذا یہ عورت اس نظام کے تحت مجبور ھے کہ اپنی قوت خرید کو برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ کا حصہ بنی رھے۔ یہ اس نظام کا عورت پر جبر ھے۔

نفس معاملہ یہ ھے کہ ھیومن رائٹس اور اسپر مبنی مارکیٹ اور جمہوری نظم معاشرے کی اکائی کو فرد تک محدود (individualize) کرکے عورت کی کفالت کی ذمہ داری خود عورت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں عورت پر ھونے والے بدترین مظالم میں سے عظیم تر ظلم ھے، ایک اس لئے کہ یہ اس جنس پر ایک ایسا بوجھ ڈال دینا ھے جو اسکی تخلیق کے مقصد ہی کے خلاف ھے، دوئم اس لئے کہ جدید نظام اس ظلم و شر کو عدل و خیر کے پردوں میں چھپا کر انسانوں کیلئے قابل قبول بناتا ھے (اس اعتبار سے یہ عورت کی بلا وجہ مار پیٹ کرنے سے بھی بڑا ظلم ھے کہ اس عمل کو ہر معاشرت و نظرئیے نے بہرحال برا ہی سمجھا مگر عورتوں میں پروفیشنل ازم کے فروغ کے ذریعے انکی مارکیٹائزیشن کے عمل کو آزادی و خودمختاری کے خوشنما نعروں میں پیش کیا جارہا ھے)۔ مارکیٹ نظم میں عورت اور مرد 'فرد' ہیں، یہاں دونوں اپنے تحفظ کیلئے غیر جذباتی و غیر شخصی ریاستی اداروں (impersonal and procedural state institutions) کے محتاج ہیں، جہاں ریاست کی پہنچ نہیں (ظاہر ھے ریاست ہر جگہ موجود نہیں ھوسکتی) وہاں طاقتور 'اکیلا' کمزور 'اکیلے' کو دبوچ لیتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ مارکیٹ نظم کے پھیلنے کے نتیجے میں ریپ (rape) کے مواقع بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روایتی برادری نظم میں عورت کے تحفظ کا دائرہ محرم (اور بعض اوقات خاندان سے متعلقہ چند قریبی اور قابل اعتماد غیر محرم) رشتہ داروں کے گرد بنا جاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ روایتی معاشرت میں ریپ کے وارداتیں انتہائی شاذونادر ھوتی ہیں کیونکہ ایک فرد (یا چند افراد) کے ہاتھ یہ موقع آجانا ہی خاصا مشکل امر ھوتا ھے کہ وہ ایک اکیلی عورت کو اس حالت میں کہیں پالے کہ اسے اپنی ھوس کا نشانہ بنا سکے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔

ان دونوں میں سے کونسی عورت زیادہ محفوظ و آسودہ زندگی گزار رھی ھے؟ آخر ان دونوں کے حال میں اس قدر فرق کیوں ھے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ھے کہ ایک عورت اس نظم کا حصہ ھے جو خدا کی بتائی ھوئی فطری طرز معاشرت میں زندگی بسر کررھی ھے، وہ معاشرت جو محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تعمیر ھوتی ھے، دوسری عورت تسکین لذات و بڑھوتری سرمایہ کی خاطر اغراض کی بنیاد پر تعمیر کی گئی معاشرت کا ایک پرزہ بنا دی گئی ھے اور جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ یہ نظام اسے فراھم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی لئے پہلی عورت محفوظ ھے جبکہ دوسری غیر محفوظ (vulnerable)۔ جن 'دانشوروں' اور 'سکالرز' کا خیال یہ ھے کہ موجودہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ ظلم نہیں کرتا وہ بصیرت ہی سے محروم ہیں، انکے یہ لایعنی تجزئیے انہیں موجودہ نظام کے خلاف جہاد کرنے سے روکتے ہیں کہ انکے نزدیک یہ نظام فتنہ، ظلم و فساد فی الارض کا باعث نہیں بن رھا۔ جبکہ حقیقت یہ ھے کہ انسانی تاریخ میں تہذیب کا ایسا اجاڑ آج تک کسی معاشرتی و ریاستی نظم نے اس منظم طور پر نہ کیا ھوگا جتنا اس نام نہاد ترقی یافتہ جدید تہذیب نے کیا ھے۔

آخر اسکی وجہ کیا ھے کہ جدید انسان بہر حال اس محفوظ عورت کو غیرمحفوظ بنانے کیلئے اسے مارکیٹ کے مظالم و جبر کا شکار کرنا چاھتا اور ایسا کرنے کو عقل کا تقاضا بھی سمجھتا ھے (جیسے اس نے مرد کو اس ظلم و جبر کا شکار کرڈالا ھے)؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ جدید انسان آزادی یعنی بڑھوتری سرمایہ کو بالذات مقصد گردانتا ھے اور اس کائنات کی ہر شے (بشمول انسان) اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ھے، لہذا عورت بھی اس اصول سے مستثنی نہیں۔ عمل تکاثر میں مہمیز اضافے کی خواہش ہی اسکی قلب کی اصل کثافت ھے۔
20Like
مکمل تحریر >>