مارکیٹ یا سول سوسائٹی اور مختلف الانواع ذھنی امراض کے فروغ میں بھی راست
تناسب ھے۔ اسکی وجہ اس معاشرت کے افراد پر 'efficiency' (کم سے کم وقت میں
زیادہ سے زیادہ پیداواری کام) کا عمومی جبر ھوتا ھے۔ چنانچہ یہ ایفیشنسی
کا جبر فرد پر بے شمار قسم کے دباؤ مسلط کرکے اسے ذہنی تناؤ (stress) کا
شکار کردیتا ھے۔
کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کا
حصول مسلسل (uninterrupted) کام کا متقاضی ھوتا ھے، جسکے لئے کڑی نگرانی
(surveillance) کا نظم مسلط کرنا ضروری ھوتا ھے (کون کب آتا اور جاتا ھے،
کام کے اوقات کے دوران کیا کرتا ھے اس پر نظر رکھی جاتی ھے، فلاں وقت پر
ڈیوٹی شروع ھوگی اور فلاں پر ختم، نیز فلاں وقت پر کھانے یا چائے کیلئے
مخصوص دورانیے کا وقفہ ھوگا، سال کے آخر میں Annual Performance Report کے
ذریعے کارگردگی کا جائزہ لیا جائے گا وغیرہ)۔ اس سرویلیئنس کے نتیجے میں ان
معاشروں کے لوگ ''گھڑی کے اوقات'' کے بارے میں انتہائی حساس (clock time
conscious) ھوجاتے ہیں (چند منٹوں کا فرق بھی انکے اعصاب پر سوار ھوجاتا
ھے)۔ سرمایہ دارانہ پیداوای نظم (for profit business enterprise) کا فروغ
ہی وہ دور ھے جب گھڑیاں رکھنے کا رواج عام ھوا۔ بڑھوتری سرمایہ پر مبنی یہ
نظام 'کام' کو 'زندگی' پر بری طرح سوار کردیتا ھے (مثلا صبح کے گئے دن ڈھلے
واپسی ھوگی،اور پھر اوور ٹائم، یعنی زندگی کے بہترین اوقات اس نگرانی زدہ
نظام کا شکار ھوجاتے ہیں)، نتیجتا ورک-لائف بیلنس (work-life balance) کے
شدید پریشرز و مسائل پیدا ھوجاتے ہیں (گھریلو زندگی کو وقت نہ دینے کی وجہ
سے تعلقات بھی خراب ھوجاتے ہیں، یہاں تک کہ میاں بیوی اور بچوں کے آپسی
بھی)۔ یہاں فرد ''پروفیشنل تعلقات'' (مثلا آفس کلیگز جن سے بنیادی طور پر
اسکا تعلق محبت نہیں بلکہ اغراض کا ھوتا ھے) کے درمیان گھرا رھتا ھے اور جو
کبھی اسے ''اسکے اپنے'' ھونے کا احساس نہیں دلا سکتے۔
جوں جوں
معاشروں کی مارکیٹ سازی کا عمل آگے بڑھا، نئ قسم کی معاشرتی صف بندی کو
ممکن بنانے والے جدید اداروں (مثلا تعلیمی اداروں، ھسپتال) کی صف بندی بھی
اسی ''فیکٹری ڈسپلن'' پر استوار کی گئی۔ ایفیشنسی (کم سے کم وقت و لاگت میں
زیادہ سے زیادہ سرمائے کے حصول) کا یہ جبر تعلیمی اداروں کے ذریعے مختلف
قسم کے پریشرز کی صورت میں طلباء پر مسلط ھوجاتا ھے اور انہیں مجبور کرتا
ھے کہ وہ ایفیشنٹ بنیں، بصورت دیگر یہ نظام انہیں نکال باھر کرتا ھے (مثلا
گریڈنگ سسٹم کا پریشر کہ کمپنیاں اچھے گریڈرز کو ہی نوکری دیتی ہیں، ہمہ
وقت کوئز (quiz) کا پریشر، وقت پر اسائنمنٹ و پراجیکٹس مکمل کرنے کا پریشر،
حاضری کا پریشر وغیرھم)، الغرض یہ پریشرز ملکر فرد میں ملٹی ٹاسکنگ، ٹائم
مینیجمنٹ، سرویلیئنس کی پابندی وغیرہ کی صلاحیتیں اجاگر کرتی ہیں۔ یہ تعلیم
گاہیں گویا اس جدید انسان کی تربیت گاہ ھوتی ھے جو اسے حصول سرمایہ کیلئے
ایک ایفیشنٹ اوزار (tool) میں تبدیل کردیتی ہیں۔ یہ تناؤ ذدہ (stress
ridden) اس تعلیمی نظام ہی کا نتیجہ ھے کہ یہاں بے شمار طلباء ''ناکامی کے
خوف'' یا ''ناکامی کے احساس ندامت'' کی وجہ سے خودکشیاں کرلیتے ہیں۔
لامحدود خواھشات کی تکمیل کی تگ و دو پر مبنی اس نظام میں فرد مختلف
الانواع قسم کے جن پریشرز و ذہنی امراض کا شکار ھوتا ھے اسے ان سے چھٹکارا
دلانے کیلئے بڑے پیمانے پر ماہرین نفسیات کی ضرورت پڑتی ھے جو فرد کو
''سٹرس مینیجمنٹ'' کے طریقے (stress management techniques) اور ادویات
بتاتے ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا ہر کسی کا ''فیملی نفسیاتی
ڈاکٹر'' ھوتا ھے (جو چھوٹے بچوں سے لیکر بڑوں سب کے 'پاگل پن' کا علاج کرتا
ھے)۔ یہاں پاگل پن ''اس نظم میں کام کرنے نیز اسکا حصہ بننے سے اکتاھٹ کی
کیفیت'' کا نام ھوتا ھے۔ درحقیقت یہ ماہرین نفسیات فرد کے اندر اس نظام کی
وجہ سے جو نفسیاتی مسائل پیدا ھوتے ہیں ان کا حل تلاش کرکے اسے اسی نظم کے
اندر سمونے نیز اسے اسکا حصہ بنے رھنے پر راضی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم
ورک لائف بیلنس قائم نہیں کرپارھے یا تعلیمی ادارے کا پریشر برداشت نہیں
کرپارھے تو یہ نظام کا نہیں بلکہ تمہارا قصور ھے، نظام تو ماشاء اللہ
تمہارے فطری تقاضے (آزادی یعنی سرمائے) کا اظہار ھے، البتہ تمہاری فطرت
''اپنی اصل بنیاد'' سے ذرا ہٹی ھوئی ھے لہذا تم اسکی ''اصلاح و تزکیہ'' کرو
تاکہ اسکا ایفیشنٹ پرزہ بن سکو (یوں سمجھئے یہ نفسیات دان گویا اس نظام
میں تقریبا وہی کام سرانجام دیتے ہیں جو اسلامی معاشرے میں ''مزکیین'' کا
ھوتا ھے)۔
اس تجزئیے سے چند باتیں معلوم ھوئیں:
1) سرمایہ دارانہ نظام ایک انتہائی جابرانہ (coercive) نظام ھے جو سرمائے
میں اضافے (آزادی) کے سواء کسی دوسرے مقصد کی خاطر زندگی ترتیب دینے کے
تمام طرق ناپید کرتا چلا جاتا ھے، گویا یہ ''سرمائے کی غلامی'' کو عمومی
فروغ دے کر انسانیت کو عبدالدرھم و دینار بننے پر مجبور کرتا ھے۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ بدترین شرک ھے جسکی کوئی نظیر نہیں
2) سرمائے میں اضافے کا یہ فروغ چونکہ فطرت انسانی ('بندگی رب' کہ انسان
بہرحال خدا کا بندہ ھے انکار کرے یا اقرار) سے بغاوت ھے لہذا یہ سرمائے
(آزادی) کا جبر فرد کو اضطرار (frustration) کا شکار کرتا ھے، یہی 'ھیومن'
کی بنیادی روحانی کیفیت ھے جو اسے بے چین رکھتی ھے۔ گناہ سے آگاہی ہی ھیومن
(جدید انسان) کے اضطرار کی بنیاد ھے
3) علم نفسیات کو کسی معنی میں
تصوف کا تسلسل یا متبادل سمجھنا کم علمی ھے۔ تصوف وہ عظیم الشان اسلامی علم
ھے جو انسانی ذات کی 'عبدیت' کو بطور مفروضہ قبول کرکے فرد میں اس میلان
کو فروغ دینے اور اس میں اس پر راضی ھونے کی ترغیب و تحریک پیدا کرتا ھے۔
گویا یہ ''تزکیہ نفس'' کا علم ھے (کہ یہ اخلاق رزیلہ کو ختم نیز اخلاق
حمیدہ کو فروغ دے کر نفس کو جذبہ عبدیت پر راضی کرتا ھے)۔ اسکے مقابلے میں
علم نفسیات تحریک تنویر سے پھوٹنے والی وہ علمیت ھے جو نفس انسانی کی آزادی
پر یقین رکھتی ھے اور اسی پیراڈئیم میں اسکا تجزیہ کرکے اسکے ان مسائل کا
تجزیہ کرتی ھے جو اسے آزادی قبول نہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ انہی مسائل کا
حل اسکا اصل میدان ھے۔ گویا یہ ''نفس کو کثیف'' بنانے کا علم ھے (کہ فرد
کو آزادی یعنی بغاوت رب پر مائل کرتی ھے)۔
4) جو لوگ ''حاکمیت سرمایہ''
کو چیلنج کئے بغیر اسی کے تحت ''صالحین پیدا کرنے کے پراجیکٹ'' لگا کر
تقوی و اخلاق حمیدہ کے عمومی فروغ کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ سادہ لوح ہیں
(یہ گویا ''حاکمیت فرعون کے تحت'' صالحین پیدا کرنے کا خواب دیکھتے ہیں)
اور جو لوگ اس نظام کے خلاف جہاد ہی کی ضرورت کے قائل نہیں کہ انکے خیال
میں یہ جبرا انسانیت کو بندگی رب سے دور نہیں کرتا (بلکہ یہ تو ماشاء اللہ
جمہوریت کے ذریعے سب دعوتوں کے فروغ کا موقع دے رھا ھے) وہ بصیرت ہی سے
عاری ہیں۔
مکمل تحریر >>