Friday, November 22, 2013

جدید ذھن کا تصور اجتہاد اور ھمارے متجددین


جدید ذھن کا دینی طبقوں سے مطالبہ یہ ھے کہ جدید دنیا میں تمام تر فیصلے تو ایک ''ماورائے اسلام'' (تنویری) علمی ڈسکورس کی بنیاد پر ہی کئے جائیں گے، ''ملائیت نہیں چلے گی'' کے نام پر دینی علم کے ماھرین کو تو بے دخل کردیا جائے گا، ھاں اقتدار اور فیصلوں کی کنجیاں ماورائے اسلام علمیت کے ماھرین کے ھاتھ میں بہرحال رہنی چاہئیں کہ یہ 'عقل کا تقاضا' ھے،
البتہ
اس (جاہلی) علمیت سے انسانیت کیلئے جو مسائل پیدا ھورھے ہیں اسلام یا تو اس جدید تناظر کے اندر رھتے ھوئے انکا بطور مشیر حل پیش کرے اور یا پھر اس علمیت سے نکلنے والے مجوزہ حل کو بطور آلہ کار جواز فراھم کرے،

اگر اسلام یہ دونوں کام (سرمایہ داری کی مشیری و نوکری) نہیں کررھا تو اسلام ناقابل عمل اور ناکام ھے۔
گویا
اس جدید ذھن کے نزدیک اسلام کا کام یہ ھے کہ وہ ایک ظالمانہ اور باطل نظم اجتماعی کے پیدا کردہ اور حرص و حسد سے مغلوب جدید انسان کے مسائل کو ''اسی کے اندر'' حل کرنے کے طریقے تجویز کرے۔

مزے کی بات یہ ھے کہ ہمارے یہاں ایسے جدید مذھبی سکالرز و دانشوران کی بھی کوئی کمی نہیں جو ''اجتہاد مطلق کا دروازہ کھولنے'' کے شوق میں اس جدید تصور اجتہاد کی آبیاری کرنے میں مصروف ھیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔