Saturday, November 2, 2013

حاضروموجود مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ)نظم کے مظالم کی بنیادی وجوہات


جس دنیا میں آج ہم میں سانس لیتے ہیں اسکی ایک اہم ترین خصوصیت عظیم اکثریت کی 'بے یارگی و غیر محفوظیت' (vulnerability) کی کیفیت ھے۔ غیر محفوظیت کی اس کیفیت کا اظہار متعدد شکلوں میں ھوتا ھے: مثلا غربت، افلاس، بے روزگاری، ناداری، جرائم کی کثرت وغیرہ (مگر پھر بھی جدید انسان کا یہ گھمنڈ ھے کہ وہ بہترین دور میں سانسیں لے رھا ھے، اور یہی زعم اسے خیرالقرون کی طرف مراجعت کے تصور سے وحشت دلاتا ھے)۔ غیر محفوظیت کی ان شکلوں کے بارے میں آجکا جدید ذہن کچھ یوں گفتگو کرتا ہے گویا یہ غربت و افلاس کا شکار لوگ شاید درختوں پر اگتے ہیں یا آسمانوں سے ٹپک رھے ہیں۔ موجودہ نظام کے کرتا دھرتا ماہرین معاشیات غربت مٹانے کی بات کچھ یوں کرتے ہیں گویا یہ غربت کسی فطری شے کے طور موجود تھی اور یہ اسے مٹانے کی عظیم الشان ذمہ داری اپنے سر اٹھانے لگے ہیں۔ مگر سچ یہ ھے کہ غیر محفوظیت کی شکلیں تو اسی نظم کی دین ہیں جسے استعمال کرکے یہ اسے ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سترہویں صدی سے قبل دنیا کے مختلف خطے self-sufficient ھواکرتے تھے (مثلا لارڈ میکالے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ برصغیر میں کوئی فقیر نہ پایا جاتا تھا مگر آج ہمارے یہاں کروڑوں لوگ بے یارومددگار ہیں)، مگر پھر efficiency (سرمائے میں مسلسل اضافے کی جدوجہد) کے تصور کے تحت ایک طرف دنیا کے ذرائع کو بے دریغ لوٹ کر یورپ کی فیکٹریاں آبادکرنے کیلئے سرمایہ اکٹھا کیا گیا تو دوسری طرف دنیا کو مارکیٹ نظم بحیثیت 'واحد و آفاقی تصور معاشرت' کا پابندبنایا گیا جس نے معاشروں کو غیر محفوظ (vulnerable) بنانا شروع کیا ۔ غیرمحفوظیت کی اس کیفیت میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر بے پناہ اضافہ ہوا:

1) لبرل سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا فروغ: اسکی تفصیل پچھلی پوسٹ میں بیان ھوچکی کہ مارکیٹ کس طرح معاشرتی تنظیم کو اغراض پر مبنی تعلقات پر استوار کرکے اسے انفرادیت پسندی پر مرکوز کرتی ھے جسکے نتیجے میں یہاں ہر وہ شخص جو کچھ کمانے (یعنی بیچنے) لائق نہیں غیر محفوظ ھوجاتا ھے (مثلا بوڑھے، اپاہج، نادار، بے روزگار، سرمایہ دارانہ علم سے ناخواندہ، بیمار، پاگل)۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس نظام میں ان کے مداوے کا کوئی شافی حل موجود نہیں
2) عالمی استعماری نظام کا فروغ: تنویری فکر کی ایک دلچسپ خصوصیت خوشنما اصطلاحات کے ذریعے آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی ہے۔ چنانچہ یہاں ایک طرف یہ آگاہی عام کی جاتی ہے کہ فرد کی آزادی مقدم ہے، فرد آزادہے (individual is sovereign)، مگر عملا یہ ایک ایسے اجتماعی نظام کو فروغ دیتی ہے جہاں فرد غیر محفوظ ہوکر ایک ایسے نظام کا محتاج ہوجاتا ھے جہاں فیصلے اجتماعی و مرکزی سطح پر ہوتے ہیں (ریاست کی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی)۔ اسکے نتیجے میں دنیا کے کسی ایک ملک میں آنے والے بحران نیز اسے اس بحران سے نکالنے کیلئے اختیار کی جانے والی پالیسیوں کا خمیازہ غریب اور کمزور ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہاں آزاد مارکیٹ کے نام پر کمزور ممالک پر 'لبرلائزیشن اور ریاستی مداخلت میں کمی 'کا کوڑا برسایا جاتا ہے البتہ طاقتور ممالک اپنے مفادات کیلئے اپنی اکانومی میں ریاست کی مداخلت جائز سمجھتے رہتے ہیں (اس رویے کی نہایت گہری بنیادیں ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، خلاصہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام معاشی سطح ایک ماورائے نیشن سٹیٹ شناخت کا تقاضا کرتا ہے البتہ سیاسی سطح پر اب تک یہ ایک قومی شناخت سے زیادہ وسیع شناخت پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے)۔
3) عالمی استعمارانہ مداخلت: غیر محفوظیت کی تیسری وجہ استعماری قوتوں کی اپنے نظریاتی، سیاسی ومعاشی مقاصد کی خاطر دیگر ممالک میں مداخلت بھی ہے (مثلا پاکستان میں جاری غیر محفوظیت کی بہت سی شکلیں امریکہ کے استعمارانہ مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں)۔ اس کے تحت روایتی مقامی کلچراور ادارتی صف بندی کو ختم کرکے (جو اپنے مخصوص طریقوں سے معاشرتی ترتیب قائم کرتے ہیں) ان پر بالجبر مارکیٹ و جمہوری نظم مسلط کردیا جاتا ھے (خوب دھیان رہے، جمہوریت کی تاریخ میں آج تک دنیا کے کسی ملک میں جمہوریت جمہوری طریقے سے نافذ نہیں ہوسکی بلکہ ہر جگہ اسے بالجبر مسلط کیا گیا)۔ یہ سب مداخلت حصول آزادی و ترقی (سرمائے میں اضافے) کے عالمی نظام (گلوبلائزیشن) کو ممکن بنانے کیلئے جاتی ھے مگر نتیجتا مقامی آبادیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر متعدد نوعیت کی بے یارگی کی کیفیات کا شکار ہوجاتی ہیں، اس امید پر کہ ایک دن یہ نظام انکے دکھوں کا مداوا کرہی دے گا۔
4

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔