Sunday, November 3, 2013

احیاۓ نظام کی جدوجہد کرنے کی کلیدی اہمیت ۔۔۔۔۔ نظام کا مقابلہ نظام کرتا ھے فرد یا ایک اکیلی جماعت نہیں


جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہمیں نظام کو پرابلماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں (کہ شاید وہ خود بخود ٹھیک ھوجاۓ گا یا وہ کمتر اہمیت کا حامل ھے یا فی الحال اسے موخر کرکے کسی اور کام پر توجہ دینی چاھئے) یا یہ کہ ایک پیچیدہ نظام کا مقابلہ اکیلا فرد یا کوئ اکیلی جماعت کرسکتی ھے، درحقیقت ایسے لوگ نظام کی تسخیری قوت سمجھنے سے قاصر ہیں اور اسکا انتہائ غلط اندازہ (underestimate) لگاۓ بیٹھے ہیں۔ اسے ایک آسان مثال سے سمجھتے ہیں۔ عام مشاہدہ ھے کہ ایک بچہ ماں باپ کی بات سننے (یا ان سے گفتگو کرنے) کے بجاۓ ٹی وی (مثلا کارٹون پروگرام یا اشتہار) کی طرف زیادہ متوجہ ھوجاتا ھے۔ آخر اسکی وجہ کیا ھے؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ 'بچہ۔باپ' تعلق 'ایک ذات کا ایک ذات' سے تعلق ھے جبکہ بچہ۔ٹی وی تعلق 'ایک ذات کا ایک ذات سے نہیں بلکہ لاکھوں ذاتوں سے بننے والے ایک ادارے' سے تعلق کا نام ھے۔ ٹی وی درحقیقت ایک ادارہ ھے جو لاکھوں ذہین انسانوں کے تعلقات کے تانے بانے سے وجود میں آتا ھے (مثلا پرڈکشن ہاوسز میں کام کرنے والے لوگ، فنکار و ماڈلز، لیکھاری و شاعر، اشتہاری کمپنیاں،کارپوریشنز کے مارکیٹینگ ڈیپارٹمنٹز، یونیورسٹیز میں مارکیٹینگ پڑھانے والے لوگ وغیرہم)۔ چنانچہ معاشرے کے یہ ہزارہا ذہین ترین دماغ ملکر باقاعدہ علمیت کی بنیاد پر ایک ایسا کارٹون یا اشتہار تشکیل دیتے ہیں جو پچے کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ ظاہر ھے باپ اکیلا ان لاکھوں ذہنوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ یہ لاکھوں لوگ آپس میں 'سرماۓ کے تعلق' سے مربوط و جڑے ہوۓ ہیں، اور یہ سب ملکر بچے (بلکہ سب کو) کو سرماۓ کے اسی جبر کی طرف راغب کررھے ہیں۔

اب ظاہر ھے اس نظام کو انفرادی سطح کی جدوجہد سے شکست نہیں دی جاسکتی (مثلا محض ماں باپ کی محبت جگانے کے دروس سے کام نہیں چلے گا، گوکہ یہ بھی چاھئے)۔ فرد کا مقابلہ فرد کرتا ھے، جماعت کا جماعت اور نظام (ترتیب تعلقات و ادارتی صف بندی) کا مقابلہ نظام ہی کرسکتا ھے (جسے کہتے ہیں کہ a soldier deserves a soldier)۔ اکیلے فرد یا ایک جماعت کی جدوجہد سے یقینا چند نفوس کی اصلاح تو ممکن ھے مگر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اس نظام کے جبر سے بچالے جانا نہایت مشکل امر ھے اور یہ نظام انہیں اپنے بھاؤ کے ساتھ اسی جانب لیجا کر رہتا ھے جہاں وہ خود جارہا ہوتا ھے، چاھے یہ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ لہذا نظام کی تبدیلی کو پرابلماٹائز کرنا ایک نہایت بنیادی ضرورت ھے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاھئے کہ نظام 'صرف' بمبوں سے تباہ یا تبدیل نہیں کئے جاسکتے کیونکہ وہ ایک 'علمیت' پر قائم ہوتے ہیں اور علمیت کا مقابلہ علمیت سے ہی کیا جا سکتا ھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔