Sunday, November 3, 2013

''زمانہ تو آگے بڑھتا ھے'' ۔۔۔۔۔۔ جدید ذھن کی ایک لا یعنی دلیل


روایتی مذہبی ذھن جب قرون اولی کی بات کرتا ھے تو جدید ذھن ایک چبھتا ھوا اعتراض یہ کرتا ھے کہ ''تم مولوی ہمیں پیچھے لے جانا چاھتے ھو، زمانہ ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتا ھے، یہی قانون فطرت ھے''۔ یہ دلیل پیش کرکے یہ جدید ذھن سمجھتا ھے گویا اس نے کوئی بہت علمی دلیل قائم کرکے بس میدان مار لیا۔ مگر اپنی ہئیت میں یہ نہایت بوگس و غیر علمی دلیل ھے کیونکہ اس دلیل کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ھے گویا تبدیلی بس یونہی آتی ھے یا آرھی ھے، زمانہ گویا کسی مجرد معنی یا ھمہ جہت اطراف میں آگے بڑھ رھا ھے، مگر ایسا ہرگز نہیں۔

آگے بڑھنا کسی مجرد عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک اقداری شے ھے کہ تبدیلی و پیش رفت ہمیشہ کسی 'آئیڈئیل کی طرف' ھوتی ھے (اسکی تفصیل ایک گذشتہ پوسٹ میں ھو چکی)۔ درحقیقت موجودہ دور ''سرمائے میں اضافے اور اسکے تکمیلی لوازمات کی سمت کی طرف آگے بڑھ رھا ھے''، اسی شے کے امکانات بڑھانے کے مواقع یہ پیدا کررھا ھے۔ ایسا نہیں کہ یہ دور ''ھرپیمانے و اطراف'' میں آگے بڑھ رھا ھے (یعنی ایسا نہیں کہ جدید انسان ہر پیمانے پر آگے بڑھا ھوا ھے)۔ مثلا جدید ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت میں اور زمانہ جاہلیت کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رھا، بلکہ یہ جدید انسان دور جاہلیت کے انسان سے دو ھاتھ زیادہ وحشی بن چکا ھے (اس جدید انسان کی منظر کشی بھی ایک گذشتہ پوسٹ میں تفصیل سے کی گئی تھی)۔ جہالت کی جس گھٹا ٹوپ کا یہ جدید انسان آج شکار ھے یہ بس یونہی حادثاتی طور پر پلٹ نہیں آئی، اسکا براہ راست تعلق اس جدید نظام زندگی کے ساتھ ھے جس کی طرف یہ زمانے کو بڑھاوا دے رھا ھے۔ تو ھم کہہ سکتے ہیں کہ بے شمار پیمانوں کی بنیاد پر جدید انسان نہایت پسماندہ انسان ھے (اس معنی میں کہ یہ جہالت کے اسی گڑھے کی مزید گہری پستیوں میں جاگرا جہاں سے کالی کملی والے آقا (ص) اور اسکے اصحاب (رض) نے اسے نکالا تھا)۔

تو اصل مسئلہ اقداری ترجیحات کا ھے، اگر پیمانے بدل لئے جائیں تو تنزلی بھی ترقی دکھائی دینے لگتی ھے اور اسکا برعکس۔ مولوی جب قرون اولی کی طرف مراجعت کی بات کرتا ھے تو پیچھے جانے کی نہیں بلکہ ''آگے جانے'' کی بات کرتا ھے، فرق اقداری ترجیحات کا ھے اور بس (قرون اولی رحمانی اقدار جبکہ سرمایہ دارانہ نظام شیطانی اقدار کی طرف آگے بڑھنے کا نام ھے اور بس)۔ چونکہ جدید ذھن نے گھوڑے و اونٹ کے بجائے گاڑی و جہاز پر سواری، کچے مکان کے بجاۓ ملٹی سٹوری فلیٹس، خط کے بجائے فیس بک اور موبائیل پر میسیج کرنے کو بذات خود اھم ترین اخلاقی شے مان لیا ھے، لہذا یہ ''آگے برھنے'' کو انہی پیمانوں پر جانچ کر دیگر تمام تصورات جواسکی مخصوص اقداری ترجیحات کو ممکن نہیں بناتے انکا مذاق اڑا رھا ھے۔ مگر یہ بیچارہ سمجھ رھا ھے گویا میں کسی نیوٹرل مقام سے کھڑا ھوکر اشیاء کا تجزیہ کرکے انہیں اختیار یا رد کررھا ھوں (اسی لئے اپنے علاوہ سب کو اور مولوی کو بالخصوص بے عقل سمجھتا ھے)۔

جدید ذھن سے زیادہ افسوس ناک کیفیت ان مسلم مفکرین و دانشوروں کی ھے جو جدید ڈسکورس کے ''آگے بڑھنے'' کی اس دلیل کے آگے سرنگوں ھوئے چاھتے ہیں۔ اس ''جدید پیمانوں پر آگے بڑھی ھوئی'' دنیا کے سامنے جب یہ اسلام کو پیش کرکے دیکھتے ہیں کہ اسلام تو اسکے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتا تو مارے شرم پانی پانی ھوکر اسلام کی مرمت کاری شروع کردیتے ہیں اور اپنے اس عمل کا نام ''اجتہاد مطلق'' رکھ لیتے ہیں اور ساتھ ہی اسلاف کوکوسنے لگتے ہیں کہ وہ کون ھوتے ہیں اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کردینے والے (اس بات کا اصل مطلب صرف یہ ھوتا ھے کہ وہ کون ھوتے ہیں اسلام کو سرمایہ داری میں ضم کرنے کا دروازہ بند کرنے والے)۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔