Sunday, October 27, 2013

سرمایہ داری کے مظالم اور این جی اوز (پروفیشنل خیراتی اداروں) کا باہمی تعلق (1) ۔۔۔۔۔۔۔ دینی طبقوں سے ''پکا پکایا متبادل مانگنے والی ذھنیت'' کا المیہ


موجودہ دور میں نظر آنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی اداروں اور این جی اوز کا مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم سے جنم لینے والے مظالم کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ھے۔ مارکیٹ یا سول سوسائٹی (جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی) اغراض پر مبنی تعلقات کے تانے بانے کا نام ھے، ھیومن رائٹس پر مبنی یہ معاشرت ذات کو لازما اکیلا (individualize) کرتی ھے، اس نظام میں اسکی بقا و کامیابی (حصول سرمایہ) کو اسکی اکیلی ذات کی پیداواری مستعدی (efficiency) کا مرھون منت بناتی ھے۔ نتیجتا وہ تمام لوگ جو ایفیشنٹ نہیں براہ راست اس نظم کا حصہ نہیں بن پاتے، اور یہ معاشرے کا بڑا طبقہ ھوتے ہیں کہ مارکیٹ معاشرے کی قلیل تعداد کو اپنے اندر سموتی ھے (نان لیبر فورس اور بے روزگار افراد کی تعداد برسرروزگارلوگوں سے زیادہ ھوتی ھے)۔ چنانچہ بوڑھے، بچے، لنگڑے لولے اندھے بہرے، یتیم، بیوہ مطلقہ، بے روزگار، (سرمایہ دارانہ علم سے) ناخواندہ، بیمار، پاگل، یہاں تک کہ مردے، الغرض ہر وہ شخص جو اس نظام میں کچھ ''بیچنے کی صلاحیت'' (ability to sell) نہیں رکھتا غیر محفوظ (vulnerable) و بے یارومددگار ھوجاتا ھے۔

یہ سب کہاں جائیں؟ یہاں انکا پرسان حال کون ھے؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ھیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے (professional philanthropic institutions)۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ کونسا نظم انسانیت پر ظلم کرتا ھے۔ اس گفتگو سے سرکار (ص) کا اپنے دور کو 'خیرالقرون' فرما کر اسے آئیڈئیل قرار دینا انشاء اللہ ایک نئے روپ میں جلوہ گر ھوگا۔

چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ھے جن سے یہ امید کی جاتی ھے کہ وہ ان تمام ''بے کار'' (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں 'پاگل' افراد کہ اسکے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن 'کام نہ ھونے' کی کیفیت کا نام ھے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ھوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کیلئے جس قدر ذرائع کی ضرورت ھوتی ھے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ھوتے (ظاھر ھے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ھوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر رقوم اکٹھی کرسکیں)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ھے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رھتا ھے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک دیرینہ تضاد ھے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ھے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ھے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency) ہی کے نام پر۔

آگے بڑھنے سے قبل ذرا سرمایہ داری کی پچھلی دو سو سالہ تاریخ اور حالیہ گلوبلائزیشن کے عمل پر غور تو کیجئے۔ اس نظام کے تحت انسانیت کو آزادی و ترقی کے نام پر ایک ایسے نظام (لبرل سرمایہ داری) کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں نہیں، کروڑوں بھی نہیں بلکہ بلامبالغہ اربوں انسان بھوک، افلاس، بے روزگاری، بیماری و بے یارگی کی مختلف شکلوں کا شکار ھوکر یا تو لقمہ اجل بن چکے اور یا پھر سسک سسک کر سانسیں پوری کررھے ہیں۔ اب ذرا جدید ذھن کی ذھنی حالت پر توجہ کیجئے، ایک طرف یہ ذھن اس قدر حساس واقع ھوا ھے کہ خاندانی نظم کے اندر اگر کسی مرد کے ھاتھوں عورت (خصوصا بیوی) پر ظلم ھوجائے تو یوں سیخ پا ھونے لگتا ھے گویا اس سے بڑا انسانیت کا کوئی ہمدرد ھے ہی نہیں، نیز اس کے دل میں روایتی معاشرت کو ختم کرکے عورت کو مارکیٹ نظام کا حصہ بنا کر آزاد کرنے کا ایسا جذبہ موجزن ھوتا ھے گویا دکھی انسانیت کے درد کا مداوا ہی اسکی زندگی کا مقصد تھا، پھر یہ وھی جدید ذھن ھے جو دینی جماعتوں سے ''پکے پکائے متبادل'' (وہ بھی صرف ذہنی عیاشی و تجزیوں کیلئے) مانگنے کا رسیا بھی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف یہ جدید ذھن حاضروموجود نظام پر یہ سوال اٹھانے کی تکلیف نہیں کرتا کہ ''اے جدیدیت (آزادی، مساوات و ترقی) کے حامیو، جب تمہارے پاس تمام مسائل کا 'حل پیش کرتا' پکاپکایا متبادل موجود نہیں تھا تو تم نے کیونکر پوری دنیا پر اس ظالمانہ و سفاکانہ نظام کو مسلط کیا؟''

یہ اس جدید ذھن کا المیہ ھے کہ اسے دین کی طرف متوجہ ھونے کیلئے تو پورا پورا کام کرتا، وہ بھی موجودہ تقاضوں سے ھم آھنگ، متبادل 'نظر آنا' چاھئے بصورت دیگراس دعوت کے مدعیین کو اپنے تئیں احمق خیال کرکے اس جدوجہد کا حصہ نہ بننے کو اپنی عقلمندی سمجھتا ھے، البتہ حاضروموجود نظام اگر اونا پونا حل ہی پیش کررھا ھو (وہ بھی ایسا جس کا ظلم اسکے مداوے سے کہیں زیادہ ھو) اسکا حصہ بنے رھنے میں اسے کوئی تضاد محسوس نہیں ھوتا، فیاللععجب۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ حاضروموجود سے واقف ہی نہیں اور محض بھیڑچال کا شکار ھے، ھاں سمجھ یہ رھا ھے کہ میں سب سے زیادہ عقل مند ھوں، پوری اسلامی تاریخ کے اسلاف سے بھی زیادہ؛ اور یا پھر اس نظام پر 'ایمان' لاچکا ھے اور ایمان تو ایسا ہی ھوتا ھے، وہ 'پورے، کام کرتے، تیار شدہ متبادل' کا نہیں بلکہ حصول مقصد کیلئے 'جدوجہد' کا تقاضا کرتا ھے۔ کیا بلال (رض) نے رسول اللہ (ص) سے ایمان لاتے وقت یہ تقاضا کیا تھا کہ ''اچھا تو بتائیے آپ کا پیش کردہ نظام کیسا ھوگا، ذرا اسکا مکمل نقشہ تو کھینچو ابھی میرے سامنے تاکہ میں دیکھ لوں آیا واقعی غلاموں کو اس میں کوئی فائدہ میسر آبھی رھا ھے یا نہیں'' (کوئی کہنے والا کہہ سکتا ھے کہ اگر معاذاللہ بلال (رض) یہ سوال پوچھ لیتے تو رسول خدا اسکا جواب شاید نہ دے پاتے کہ ابھی تو پورا قرآن نازل ہی نہ ھوا تھا)۔

(جاری)
مکمل تحریر >>

''جمہوری سیکولر ریاست فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی'' (2) ۔۔۔۔۔۔ سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں



ابتداء یہ واضح کیا گیا کہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی بدترین جابرانہ ریاستوں کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہاں جمہوری سیکولر ریاست کی فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کی علمی بنیادوں کی وضاحت کی جاتی ھے۔

ھیومن رائٹس (آزادی کے) فریم ورک میں 'اخلاق' (قدر) کا سوال ہی غیر متعلقہ ھوجاتا ھے، یہاں صرف 'قانون' ھوتا ھے، لہذا ھیومن رائٹس فریم ورک فرد کی ساری زندگی (بشمول ذاتی و اجتماعی) کو قانون کا موضوع (subject) بنا کر ریاست کی قانونی مداخلت کے شکنجے کا شکار بنا دیتا ھے۔ ایسا اس لئے کہ ھیومن رائٹس فریم ورک میں 'قدر' (اھم و غیر اھم) کا سوال ہی غیر اھم و لایعنی ھوتا ھے، یہاں اصولا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک فرد اپنے حق آزادی (اختیار) کو استعمال کرکے کیا چاھتا یا چاھنا چاھتا ھے۔ یہاں خواھشات کی تمام تر ترجیحات اصولا مساوی اقداری حیثیت رکھتی ہیں (نماز ادا کرنا، غریب کی مدد کرنا، موسیقی سننا، تمام عمر بطخوں کی فلم بناتے رھنا، گھاس کے پتے گننا، بدکاری کرنا وغیرہ سب مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں)۔ چنانچہ اصولا یہاں کوئی خواہش اخلاقیات کا معاملہ نہیں رھتی، بلکہ ہر معاملہ 'حقوق' کا معاملہ ھوتا ھے جسے بذریعہ قانون ریگولیٹ کیا جاتا ھے۔ اگر ریاست کو معلوم ھوجائے کہ فلاں خواہش یا ترجیح 'اصول آزادی' کے خلاف ھے، یہ فورا اسے قانون کے شکنجے میں لے آتی ھے۔

پس ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ جسے ایک مذہبی ریاست اپنی علمیت کی بنیاد پر اخلاق کا دائرہ سمجھ کر اس میں مداخلت نہیں کرتی، ذاتی زندگی کا وہ دائرہ بھی سیکولر ریاست کی قانونی گرفت سے باھر نہیں رھتا (انسانی تاریخ میں اسکی مثال موجود نہیں کہ کسی ریاست نے یہ قانون بنایا ھو کہ فرد کتنے بچے پیدا کرے، انہیں سکول بھیجے، اپنی بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں کیسا رویہ اختیا رکرے وغیرہ)۔ یہی وجہ ھے کہ ایک اسلامی ریاست کے ماتحت زندگی گزارنے والے غیر مسلمین کیلئے سینکڑوں سال بعد بھی اپنی مذہبی شناخت قائم رکھنا ممکن ھوتا ھے مگر جمہوری سیکولر ریاست افراد پر ھیومن رائٹس کا ایک ایسا جابرانہ قانونی فریم ورک مسلط کرتی ھے جسکے بعد ان کی تمام تر روایتی شناختیں تحلیل ھوکر لبرل سرمایہ دارانہ انفرادیت (ھیومن) میں گم ھوجاتی ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ پختہ جمہوری ریاستوں میں تمام مذہبی شناختیں لایعنی و مہمل بن کر رہ گئی ہیں۔

یہ ان مزعومہ مسلم مفکرین و مذہبی سکالرز کیلئے مقام افسوس ھے جو اس بنیاد پر جمہوری ریاست کی حمایت کرتے ہیں گویا یہ کوئی نیوٹرل (غیرجانبدار) ریاست ھوتی ھے، لہذا انکے خیال میں یہاں فرد کو 'خدائی پلان' کے مطابق 'کفروایمان' اختیار کرنے کا مساوی موقع میسر ھوتا ھے (اور پھر قرآنی آیت فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر سے اپنے اس بے معنی تجزئیے کو استدلال سے مزین کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں)۔ ان بیچاروں کو مذہبی ریاست تو متعصب دکھائی دیتی ھے مگر سیکولر ریاست کا کھلا ھوا علمی و عملی جبر انکی آنکھوں سے اوجھل رھتا ھے۔ اسکی وجہ صرف ایک ھے، یہ متجددین (جو اجتہاد کے نام پر دین پر طبع آزمائی کا ذوق رکھتے ہیں) جدید (جاہلی) علمی ڈسکورس سے ہی ناواقف ہیں۔
مکمل تحریر >>

''جمہوری سیکولر ریاست فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی'' (1) ۔۔۔۔۔۔ سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں


سیکولر لوگوں کی پھیلائی ھوئی بہت سی مغالطہ انگیزیوں (جن کا جائزہ پہلی پوسٹس میں لیا جا چکا) میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ''سیکولر ریاست مذہبی ریاست کی طرح فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی، لہذا یہ مذہبی ریاست کی طرح جابرانہ (coercive) نہیں ھوتی۔ پس ریاست کو مذہبی نہیں بلکہ سیکولر بنیاد پر قائم ھونا چاھئے''۔ مگر حقیقت یہ ھے کہ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی جابر ترین ریاستیں ھیں۔ یہ ریاستیں نگرانی (surveillance) کے ایک ایسے جابرانہ نظام کے ذریعے فرد کی زندگی کو گھیرے میں لئے ھوئی ہیں جس کا تصور بھی اگلی ریاستوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ جدید ٹیکنالوجی (موبائیل، انٹرنیٹ وغیرھم) کے ذریعے یہ مرکزیت قائم کرتے کرتے فرد کے فیصلوں پر مختلف الانواع طرق سے اثر انداز ھوتی ہیں۔ مثلا موبائیل ٹیکنالوجی کے ذریعے کون، کب اور کہاں موجود ھے اس پر نظر رکھی جاتی ھے (اب تو شناختی کارڈ میں ہی 'چپ' (chip) لگا دی گئی ھے)، کون، کس سے، کتنی دیر تک اور کیا بات کررھا ھے سب ریاست کی نظر میں ھے، کون کس سے کتنی رقم لیتا اور کسے دیتا ھے بذریعہ بینک ریاست سب جانتی ھے (اور بینکنگ کے علاوہ ٹرانزیکشن کے دیگر طریقے آہستہ آہستہ غیر قانونی قرار دئیے جاتے ہیں کہ وہ ریاست کی نظر میں نہیں ھوتے)، کون شخص کس ویب سائٹ پر آتا جاتا ھے ریاست کو سب معلوم ھے، لائبریری سے کون لوگ کونسی کتب اشو کروارھے ہیں ریاست یہ بھی جانتی ھے۔

الغرض اس نظام میں شعوری طور پر ایسی ٹیکنالوجی ڈیزائن کی جارہی ھے جو مرکزیت (centralization) کو ممکن بنائے۔ اس مرکزیت کے نتیجے میں فرد ریاست کے سامنے کلیتا بے یارو مددگار ھو جاتا ھے۔ جب تک ریاست (sovereign) کو فرد سے خطرہ لاحق نہیں ھوتا وہ اسے کھلا چھوڑے رکھتی ھے، فرد اس جھانسے کا شکار رھتا ھے کہ ''میں آزاد ھوں''، مگر جونہی ریاست کو اس سے خطرہ لاحق ھوتا ھے اسے یوں غائب کردیتی ھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔۔۔۔۔۔۔ اورجدید مسلم ذھن کی برق گرتی ھے تو بچارے 'اسلامی تاریخ کے ملوک' پرکہ 'وہ جبر کیا کرتے تھے، مخالفین کو ٹھکانے لگادیتے تھے' وغیرہ؛ مگر 'جمہوری ریاست' ایسوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ھے یا تو انہیں اسکا اندازہ ہی نہیں اور یا پھر مارے شرم کے اس معاملے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔

جمہوری سیکولر ریاست کے اس جابرانہ اور مداخلتی رویے کی خالص علمی بنیادیں ہیں۔ آزادی کے فریم ورک میں جب ریاست (sovereign) کسی کی آزادی کے تحفظ کا ذمہ لیتی ھے تو اسکا مطلب یہ ھوتا ھے کہ sovereign جب چاھے اسکی آزادی چھین سکتا ھے، یعنی چونکہ وہ آزادی چھین سکتا ھے اسی لیۓ وہ تحفظ دے سکتا ھے ۔جس کی آزادی sovereign کی پھنچ سے باھر ھو اسے وہ تحفظ بھی نہیں دے سکتا۔ اسی لیۓ موجودہ جمھوری ریاستوں میں فرد کی آزادی ایک سراب ھوتا ھے، ریاست جب چاھے اسے چھین لیتی ھے۔ یھاں جس شے کو فرد "اپنی آزادی کا دائرہ" سمجھتا ھے وہ درحقیقت "sovereign کے کنٹرول کا دائرہ" ھوتا ھے۔ وہ لوگ جو اس "sovereign کے دائرہ تحفظ" کو قبول نہ کریں انکی آزادی sovereign کےلیۓ خطرہ ھے (کیونکہ وہ اسکی پھنچ سے باھر ھے) لھذا یہ انہیں اپنے دائرہ تحفظ قبول کرنے کےلیۓ مجبور کرتا ھے،بصورت دیگر انھیں مار دیتا ھے، جیسے کہ موجودہ استعمار کرتاآرھا ھے۔ چنانچہ جمھوری فریم ورک میں آزادی اسی کی محفوظ ھوتی ھے جو اسے sovereign کے سپرد کرنے کےلیے تیار ھو۔

اب طرفہ تماشا دیکئھے، ایک طرف یہ نظام یہ تعلیم و آگہی عام کرتا ھے کہ فرد کی آزادی مقدم ھے، اسکی ذاتی زندگی مقدس ھے، فرد ہی sovereign ھے وغیرہ (علم معاشیات و لبرل ڈیموکریسی کا پورا ڈسکورس ھے ہی یہی)؛ مگر دوسری طرف عملا یہ نظام فرد کو بے یارومددگار کرتا ھے، کلیتا ریاست کے رحم و کرم کا محتاج بناتا ھے، اسکی ذاتی سے ذاتی خواھش پر اثر انداز ھوتا ھے، وہ بھی اخلاقی پریشر کے طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر (اسکی وضاحت بعد میں کی جائے گی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حد تک کہ اسے کتنے بچے پیدا کرنے چائیے، اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرے (انہیں سکول بھیجے، بصورت دیگر سزا یا جرمانہ ھوگا)، اسکے گھر یہاں تک کہ بیڈ روم کے رویے کو بھی قانون کی گرفت میں لاتا ھے (یورپ و امریکہ میں اگر بیوی یہ کہہ دے کہ اسکے شوھر نے اسکی مرضی کے بغیر اسکے ساتھ ہم بستری کی کوشش کی تو ثابت ھونے پر شوھر کو سزا ھوجاتی ھے)۔ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستوں کی اس صورت حال کو دیکھتے ھوئے انفرادی آزادی پسند جمہوری مفکرین بھی تلملا اٹھے ہیں اور انہیں Monster (خوفناک بھوت) قرار دیتے ہیں جن سے گلو خلاصی انہیں ناقابل حصول شے معلوم ھوتی ھے۔

مگر ہمارے یہاں کا جدید مسلم ذھن ھے کہ موجودہ نظام کی پھیلائی ھوئی اس جھوٹی آگہی سے متاثر ھوکر ان ریاستوں پر فدا ھوا چاھتا ھے، اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اسلاف کو بھی کند ذھن سمجھنے لگا ھے کہ وہ اس آگہی کو ان سے یہلے کیوں نہ پاسکے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے قیامت کی علامت نہ کہیں تو اور کیا کہیں!


(جاری)
مکمل تحریر >>

Thursday, October 24, 2013

ایک روح پرور تبدیلی


ایک دور تھا جب مغربی علمیت سے مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے یہاں مسلم ماڈرنزم نے جنم لیا۔ اس فکر نے دعوی کیا کہ آج تک کوئ اسلام کو درست سمجھا ہی نہیں، اصل اسلام وہ ہے جو مغرب برت رہا ہے۔ انہوں نے 'اسلام کی مغرب کاری' کا بیڑا اٹھایا۔ اس فکر سے بہت سے ذہن متاثر ہوۓ (سر سید، چراغ علی، پرویز وغیرہم)۔ لیکن علماء اسکے آگے ڈٹ گۓ اور اسے شکست فاش سے دوچار کیا (آج جاوید احمد غامدی جیسے مفکرین ایک بار پھر اس مردے میں روح پھونکنے میں مصروف ہیں)۔
لیکن مغربی علمیت پر یہ فتح دیر پا ثابت نہ ہوئ اور اب یہ 'مسلم ترمیمیت پسندی (revisionism)' کی صورت میں نمو دار ھوئ۔اس فکر نے دعوی کیا کہ اسلام اور مغرب میں اصولی مماثلت ہیے لہذا مغرب سے ڈائیلاگ (کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاملہ) ہو سکتا ہے۔اس فکر نے کہا کہ مغربی اقدار و ادارے ہماری ہی تاریخ کا تسلسل ہیں (اور یہ ثابت کرنے کیلۓ انہوں نے اسلامی تاریخ کا ایک ایسا revised ورژن تیار کررکھا ہے جو مغرب کو اپنے اندر سمو نے کی کوشش کرتا ہے (اس فکر کی مثالیں اسلامی بینکاری و جمہوریت ہیں)۔اس فکر نے 'مغرب کی اسلام کاری' کی۔مسلم روژنزم ان معنی میں زیادہ خطرناک ثابت ہوئ کہ اس میں علما کرام بھی اچھی خاصی تعداد میں شامل ہوگۓ۔
یہ دونوں دھارے مغرب سے مرعوبیت اور نامکمل واقفیت کی بنا پر پیدا ہوۓ۔ لیکن آج الحمد للہ امت مسلمہ میں ایسے افراد کا اچھا خاصا جتھا پیدا ہوگیا ہے جو مغرب کی آنگ انگ سے واقف ہے، جو اسکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس سے بات کرتے جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ جو پورے شرح صدر کے ساتھ کہتا ہے کہ 'مغرب جاہلیت خالصہ ہے'، اس کے ساتھ ہمارا ڈائیلاگ نھیں بلکہ 'دعوت' (monologue)کا تعلق ہے۔ قرون اولی کی طرف مراجعت کی دعوت دیتے اسے عار محسوس نہیں ہوتی۔
مکمل تحریر >>

اسلام میں غلامی کی ضرورت و پس منظر


اسلام کا (جنگی قیدیوں کے حوالے سے) غلامی کاآپشن نہایت پسندیدہ و عقلی تصور ہے۔ درحقیت اس کے ذریعے اسلام ان مارجنل لوگوں کو اسلامی معاشرے میں سمو دیتا (internalizeکردیتا) ہے، بجاۓ اس سے کہ وہ ہمیشہ marginal اور alien طبقے ہی رہیں۔ یہ اسی انٹرنلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں باقاعدہ سلطنت غلامان قائم ہونے کی نوبت تک آگئی۔چونکہ اسلامی ریاست ایک جہادی (ever expanding) ریاست ہوتی ہے لہذا اس میں غلامی کا یہ آپشن ہمیشہ کیلیے کھلا رکہا گیا اور فقہا نے ایسا ہی سمجھا (کیونکہ وہ اسلامی ریاست کی اس نوعیت سے بخوبی واقف تھے)۔ پھر جن لوگوں نے اسلامی ریاست کو مغربی ریاستوں کے پیمانوں پر 'ویلفئر نیشن سٹیٹ ' اور اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی کے تناظر میں دیکھا انہیں غلامی کے اس تصور سے عار محسوس ہوئ اور اپنی علمی و سیاسی تاریخ کو نظر انداز کرکے اس دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔سوال یہ ہے کہ جن قوموں نے اسے برا سمجہ کر ترک کیا انہوں نے اس طبقے کو سواۓ گوانتانامو جیسی جیلوں کے اور کچھ دیا؟ آخر ایسی قوموں کی علمیت اور عمل سے متاثر ہونے کی وجہ ہی کیا ہے؟ آج جب دنیا اس بات کو مان رہی ہے کہ معاشرتی مسائل حل کرنے کا درست طریقہ انہیں internalize کرنا ہے (مثلا غربت کے خاتمے کیلے ضروری ہے کہ لوکل سطح پر کوآپریٹوز کے ذریعے ذرائع میں اضافہ کیا جاۓ تاکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں نہ یہ کہ لوگوں کو رقم دے دی جاۓ)، ایسے میں ہم اسلام کے اس عظیم آپشن پر بات کرتے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

جمہوریت: عوامی حاکمیت کا فریب


جدید تہذیب کی دلکش مگر پرفریب ترین اشیاء میں سے سب سے بڑی جمہوریت ھے جو عوام کو یہ سراب دکھاتی ھے کہ ''تمہارے ارد گرد جو کچھ ھورھا ھے یہ سب تمہاری ہی خواہشات اور مرضی کا اظہار و عکس ھے''۔ مگر فی الحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں کیونکہ سرمایہ داری ایک نظام زندگی ھے اور نظام زندگی میں فیصلے اور معاملات 'لوگوں کی آراء' نہیں بلکہ اسکی 'علمیت' سے طے ھوتے ہیں۔ درحقیقت کسی نظرئیے کے نظام زندگی ھونے کا مطلب ہی یہ ھوتا ھے کہ وہ ایک 'علمیت' ھے جو ذاتی و اجتماعی زندگی کی تشکیل کا طریقہ بتاتی ھے۔ سرمایہ دارانہ نظم کو قائم کرنے و رکھنے والی علمیت سوشل سائنسز ھے۔

اس نظم میں ریاست کا کردار کیا ھے یہ عوام نہیں بلکہ علم معاشیات و سیاسیات طے کرتے ھیں، ریاست پابند ھے کہ ان اصولوں کے مطابق معاملات چلائے۔ مثلا علم معاشیات بتاتا ھے کہ اگر مارکیٹ نظم کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو سرمائے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ھوگا۔ لہذا ریاست کی ذمہ داری ھے کہ:
1) وہ ایسی پالیسیاں بنائے جن سے حاضروموجود غیر سرمایہ دارانہ معاشرہ آہستہ آہستہ مارکیٹ بنے
2) سرمایہ دارانہ لااینڈ آرڈر (ھیومن رائٹس کی بالادستی) قائم کرے
3) سرمایہ دارانہ علمیت کو فروغ دے
4) جو قوتیں سرمایہ دارانہ نظم کے خلاف ہیں انکی بیخ کنی کرے
5) جو کام مارکیٹ نہیں کرسکتی اسکی ادائیگی اپنے ذمے لے
6) معاشرے کے وہ تمام محروم افراد اور طبقے جو مارکیٹ مظالم کا شکار ھوں انکے مسائل کا مداوا کرتی رھے
7) مارکیٹ نظم میں ارتکاز سرمایہ و قوت کے نتیجے میں جو استحصال کے مواقع پیدا ھوتے رھتے ہیں انہین ریگولیٹ کرتی رھے
(8) پرائیویٹائزیشن و لبرلائزیشن جیسی پالیسیوں کے ذریعے مقامی ریاست کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی باجگزار ریاست بنائے (اس عمل کو گلوبلائزیشن کہتے ہیں)
9) اس عالمی نظام کو قائم رکھنے کیلئے جو عالمی نگران ادارے موجود ہیں انکی زیر نگرانی کام کرے

اب آپ تھرڈ ورلڈ نہیں (کہ انہیں تو ڈکٹیشن لینے والی ریاستیں سمجھا جاتا ھے) بلکہ یورپ و امریکہ (جنہیں جمہوریت کا چمپئین سمجھا جاتا ھے) کی جمہوری ریاستوں کا چکر لگا کر دیکھ آئیں کہ انکی حکومتیں و دیگر ریاستی ادارے درج بالا انواع سے کس قدر مختلف پالیسی سازی کرنے میں مصروف عمل ہیں اور آج تک مصروف رھے ہیں۔ اگر وہ یہی سب کچھ کررہی ہیں اور کئی دھائیوں سے کرتی آرہی ہیں جیسا کا امر واقعہ ھے تو پھر 'عوام کی رائے' سے کیا ھورھا ھے، یہ سب تو علم معاشیات نے بتایا؟

درحقیقت جمہوریت عوامی رائے (will of all) نہیں بلکہ ارادہ عمومی (general will)، یعنی آزادی/سرمائے میں مہمیز اضافے، کی بنیاد پر ریاست تعمیر کرنے کا نظام ھے۔ اس ارادہ عمومی کی تشریح (یعنی آزادی/سرمائے میں اضافہ کیسے ھوتا ھے کی تشریح) ھیومن رائٹس و سوشل سائنسز کے فریم ورک سے ھوتی ھے (یوں سمجھئے کہ ان سوشل سائنسز کی حیثیت یہاں گویا علم فقہ و اصول فقہ کی سی ھے)۔ اگر عوام کی اکثریت وہ چاھے یا چاھنے کی خواھش رکھے جو اس ارادہ عمومی کے خلاف ھے (مثلا پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن یا مارکیٹ نظم کی مخالفت؛ یا شرع یا ذات پات کے نظام کا نفاذ) تو ایسی ھر خواھش و ارادہ ''اصولا'' (علمی طور پر) غلط ھے۔ کیوں؟ اسلئے کہ لوگوں نے وہ نہیں چاھا جو انہیں چاھنا چاھئے تھا، دوسرے لفظوں میں ایسی 'ناجائز خواھش' کے ذریعے لوگوں نے اپنے ارادے کو اپنی آزادی (ارادہ عمومی) کی نفی کے اظہار کا ذریعہ بنایا جسکی اجازت اس نظام میں ہرگز موجود نہیں کہ یہ اس سے سرکشی و بغاوت ھے۔ ایسی ہر خواھش قابل اصلاح و مردود ھے۔

مگر 'عام' آدمی کو یہ نظام بذریعہ میڈیا یہ جھانسہ دیتا رھتا ھے کہ یہاں جو کچھ ھورھا ھے یہ سب ''تم 'اکیلوں' کے ووٹ'' سے ھورھا ھے اور یہ جھانسہ اس عام آدمی کو ہر چار پانچ سال بعد 'اپنی' آزادی و مساوات کے اظہار کیلئے پولنگ بوتھ کھینچ لاتا ھے، اس امید پر کہ 'اب کہ شاید وہی ھوگا جو میں چاھتا ھوں'۔

ہمارے یہاں کے مفکرین کو بھی جمہوریت کا یہ فریب خاصا بھلا معلوم ھوا (اور ایک مصنف کے بقول) وہ اس ولایتی گوری میم کو اپنے یہاں بیاہ لائے۔ اس ولایتی میم کو ''شرعی رنگ روپ'' دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے، اسے کلمہ بھی پڑھایا ۔۔۔۔۔ اور وہ بھی پورے خلوص نیت کے ساتھ۔ مگر اس ولایتی گوری میم نے انکے دیسی معاشروں کا وہی حشر کیا جسکے لئے یہ تیار کی گئی تھی۔ تاریخ کے اوراق چلا چلا کر گواہی دے رھے ہیں کہ یہ ولایتی میم جس جگہ گئی اسے گورا بنایا نہ کہ خود دیسی بن گئی۔ اپنے اپنے دیس کے باسیوں نے چاھے اس پر کتنے ہی تڑکے کیوں نہ لگائے ھوں، یہ اپنا رنگ روپ اور جلوہ دکھانے سے باز نہیں آتی۔ مگر ھم ہیں کہ یہ 'معصوم' تصور قائم کئے بیٹھے ہیں کہ نہیں یہ گوری تو تھی ہی ہماری، ھمیشہ سے، اور یہ ہمارا ہی ورثہ ھے، لہذا یہ ھم سے دغا نہیں کرے گی۔
مکمل تحریر >>

تصور 'یونیورسل اخلاقیات' کے خوفناک ابہامات ۔۔۔۔۔۔۔ خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے


عام طور پر اخلاقی اقدار کو 'انسانی شے' سمجھ کر انہیں 'یونیورسل' تصور سمجھ لیا جاتا ھے، مگر یہ صرف ایک فکری خلجان (کنفیوژن) ھے۔ اس تصور کے تحت خیر کے چند تصورات (مثلا سچ بولنے) کو 'بنیادی انسانی اقدار' فرض کرکے انہیں انسانیت کا مظہر قرار دیا جاتا ھے۔ مزید یہ کہ ان بنیادی اخلاقی اقدار کو ان معنی میں مذھب سے ماوراء قرار دیا جاتا ھے کہ اپنے جواز کیلئے یہ مذہبی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ اپنا جواز یہ اپنے اندر از خود رکھتے ہیں، نیز ان تصورات کو تمام مذاھب نے اسی وجہ سے بطور خیر متعارف کروایا ھے کہ یہ آفاقی انسانی اقدار ہیں۔

درج بالا کنفیوژن کی وجہ یہ ھوتی ھے کہ اخلاقی تصورات کو مقاصد سے علی الرغم مجرد طریقہ کار '(procedure)' فرض کرلیا جاتا ھے۔ چنانچہ اس مجرد 'پروسیجرل گڈ' (procedural good) کے تصور کی بنیاد پر سچ بولنے، ایمانداری، خلوص نیت وغیرھم جیسی اقدار کو بذات خود خیر سمجھ لیا جاتا ھے، علی الرغم ان مقاصد کہ جن کے حصول کا یہ ذریعہ ھیں۔ اسی وجہ سے یہ جملے کہے جاتے ھیں کہ ''ہمیں یہ اقدار اپنانی چاہئیں، اسلئے نہیں کہ مذھب کہتا ھے بلکہ اس لئے کہ یہ ہیں ہی اچھی چیزیں''، یا ''یہ اقدار جس انسان میں بھی ہیں وہ ایک اچھا انسان ھے، چاھے مذھب کو مانتا ھے یا نہیں''، یا ''ان اخلاقیات کو مانو، چاھے خدا کے کہنے کے جواز پر یا انسانی خوبی سمجھ کر''۔ ان تمام جملوں میں یہ فرض کرلیا جاتا ھے گویا سچ بولنا و ایمانداری اختیار کرنا بالذات اچھی بات ھے، علی الرغم اس سے کہ یہ اختیار کرنا حصول رضائے الہی کیلئے ھے یا کسی دوسرے مقصد (مثلا سرمایہ داری کے فروغ) کیلئے۔

ماخذ و مقاصد سے علی الرغم خیر و شر کا یہ پروسیجرل تصور بظاھر خاصا مسحور کن معلوم ھوتا ھے مگر اپنے اندر یہ عمیق گمراھیوں کو سموئے ھوئے ھے اور تنویری فکر کے تحت تو یہ باقاعدہ ایک 'نظریہ' بن چکا ھے (چنانچہ آج مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ھیں جو یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ 'ہمیں اچھے اخلاق اس لئے اختیار نہیں کرنے چاھئے کہ ایسا خدا نے کہا ھے بلکہ اسلئے کرنے چاہئے کہ یہ اچھی بات ھے یا یہ انسانیت کا تقاضا ھے، یا یہ ہمارے ضمیر کی آواز ھے وغیرہ')۔ یہاں اس کی وضاحت کی جاتی ھے۔

مقاصد سے علی الرغم خیر کا فلسفہ باطل ھے کہ مقاصد سے علی الرغم تو برائی (مثلا جوے، بدکاری یا قتل و غارت گری کو فروغ دینا) بھی انتہائی ایمانداری، سچائی و خلوص نیت کے ساتھ ممکن العمل ھے۔ مثلا جوا کھیلنے کی مثال لیں۔ چنانچہ اسکے 'پرامن' قیام و بقا کیلئے چیکس اینڈ بیلینسز پر مبنی ایسا طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ھے جس میں جوے بازوں کی 'خلوص نیت' پر مبنی شرکت اور 'ایمانداری و سچائی' کے ساتھ اسکے قوانین کی پاسداری انکے باہمی اختلاف کو ناممکن بنا دے۔ فرض کریں پوری ''دیانت داری'' کے ساتھ سب لوگوں کو جوا کھیلنے کا ''مساوی موقع'' فراھم کرنے کیلئے اسکے چند ''عالمی قوانین'' طے کردئیے جائیں، پھر اسے کھیلنے والے شرکاء پوری ''ایمانداری و سچائی'' کے ساتھ ان قوانین کی پاسداری کریں، پھر دوران کھیل ان قوانین کے اجرا کیلئے پولیس و نگران ایجنسیوں کا بندوبست بھی کردیا جائے تاکہ ''قانون کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر'' کی سرکوبی کیلئے ان پر کڑی نظر رکھی جاسکے نیز ''ادارے کی رٹ'' بھی قائم رھے۔ اتنا ہی نہیں، اس کھیل کی گلوبلائزیشن کیلئے عالمی نگران ادارے بھی قائم کردئیے جائیں جو عالمی سطح پر اس کھیل کے سچائی و ایمانداری کے ساتھ انعقاد کو ممکن بنائیں تاکہ ''قانون کی بالادستی'' کے نتیجے میں ''عدل و انصاف'' کا بول بالا ھو۔

بھلا غور تو کیجئے، اس پورے نقشے میں کتنی 'اخلاقی اقدار' کا پاس رکھا گیا ھے نیز یہ افراد کی کتنی ہی عظیم الشان اخلاقی اقدار کی تربیت کا بندوبست فراھم کررھا ھے۔ خیالی نقشے کو چھوڑئیے، عملی دنیا کے بارے میں غور کیجئے کہ ہر روز یہاں کتنے ملین لوگ ہر روز پوری سچائی، ایمانداری و خلوص نیت کے ساتھ جوے اور قحبہ خانوں میں شرکت کرتے ہیں! سوال یہ ھے کہ کیا سچائی و ایمانداری کے ساتھ جوے کے اس کھیل میں شریک ھونا اور اسے بڑھاوا دینا 'بذات خود' قابل تحسین اقدار کہلائیں گی؟

اگر نہیں اور ہر گز نہیں، تو خوب جان لینا چاہئے کہ خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے۔ سچ بولنا یا ایمانداری بذات خود نہیں بلکہ خدا کے ریفرنس (یعنی خدا کا انہیں اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ کہنے کی وجہ) سے خیر ہیں۔ درحقیقت قدر سچ بولنا نہیں بلکہ حصول رضائے الہی ھے، سچ بولنا محض اس مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ھے۔ اس خدائی ریفرنس کے علاوہ کسی دوسری بنیاد (مثلا انسانیت کی بھلائی، اصول پسندی، ضمیر کی آواز) پر انہیں اختیار کرنا ہرگز قدر و اخلاق نہیں (بلکہ اس صورت میں یہ ھیومن ازم سے نکلنے والی 'شرک فی الارادہ' کی ایک شکل بن جاتی ھے جس کی تفصیل درج ذیل لنک میں دیکھی جا سکتی ھے)۔ جن مفکرین نے تنویری علمی ڈسکورس کے زیر اثر اخلاقیات نیز معروف و منکر کا مبدا، ماخذ و مقصد عقل، فطرت یا نفس انسانی وغیرہ کو قرار دیا وہ قدیم معتزلہ کی اسی غلط فہمی کا شکار ھوئے جسکی اصلاح امام اشعری و غزالی نے صدیوں قبل فرما دی تھی۔

http://www.eeqaz.com/ebooks/022shirk_akbar/022shirk_akbar08.htm
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 22, 2013

تحفظ عورت، خاندان اور مارکیٹ ۔۔۔۔ ایک اھم شبے کا ازالہ


اس عنوان کی پچھلی پوسٹ میں بتایا گیا کہ مارکیٹ معاشرت کیونکر عورت کی کفالت کا بوجھ اسکے کاندھوں پر ڈال کر اس پر ظلم کرتی نیز اسے غیر محفوظ کرتی ھے۔ اس پر ایک شبہ یہ وارد کیا جاتا ھے کہ موجودہ خاندانی نظم کے اندر بھی عورت پر طرح طرح کے مظالم ھوتے ہیں نیز اگر عورت بیوہ یا طلاق یافتہ ھوجائے اور اسکے باپ یا بھائی اسکی کفالت کی ذمہ داری نہ اٹھائیں یا اٹھانے لائق نہ ھوں تو اس عورت کیلئے تو مارکیٹ کا حصہ بننا ایک نعمت ھے، گویا مارکیٹ ایسی خواتین کیلئے بہترین متبادل فراہم کررھی ھے۔

مگر اعتراض کرنے والے نے خاندان کا نقشہ بس 'ماں باپ اور بچوں' تک محدود سمجھا، ظاھر ھے جسے خاندان بمعنی 'برادری' یا 'قبیلہ' کہتے ہیں وہ محض ان تین تعلقات کا نام نہیں بلکہ اس سےبہت وسیع تر تصور ھے۔ تو پہلی بات یہ کہ خاندانی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ واقعی موجود ھو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی قوت اسکی برادری و خاندان ھوتا ھے اکیلی عورت نہیں، لہذا اسے دبوچ کر اس پر ظلم کر لینا کوئی آسان کام نہیں ھوتا۔ دوسری بات یہ کہ جو عورت بیوہ ھوجائے یا اسے طلاق ھوجاۓ تو اس کا مداوا بھی یہی نظام کردیتا ھے۔ مثلا ہمارے یہاں آج بھی اس امر کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ اور اسکے بچوں کو سہارا دینے کیلئے (اپنی تمام تر خواہشات کی قربانی دے کر) اس سے نکاح کرلیتا ھے، اگر نکاح ممکن نہ ھو تب بھی دادا یا دیگر بھائی وغیرھم ملکر خاتون خانہ اور اسکے بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے اور خاندانوں میں ہر سو پھیلی یہ مثالیں نظر نہیں آتیں، ہاں چند ظلم کرنے والے مرد نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر طلاق ھوجائے تو بھی عورت بے یارومددگار نہیں ھوجاتی (ویسے یہ بھی عجیب ذہنیت ھے کہ جدید ذہن کو طلاق کے بعد ہمیشہ عورت ہی کی فکر دامن گیر رہتی ھے، مرد اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے جو پریشان ھوتا ھے وہ تو اسکے یہاں کسی کھاتے میں ہی نہیں)۔

چنانچہ مسئلہ تب پیدا ھوتا ھے جب فرد کی ان بنیادوں پر تربیت نہ کی جائے یا ممکن نہ رھے جو خاندانی نظام کے کرائسز مینیجمنٹ پروسسز کو اکٹیویٹ کرتی ھے، اور اس تربیت سازی میں بہت بڑی رکاوٹ خود جدید تعلیم و مارکیٹ سوسائٹی کا پھیلاؤ ھے جو فرد کو خود غرضی کی عقلیت و جبر قبول کرنے پر راضی کرتی ھے۔ خواہشات و ذاتی اغراض کا اسیر یہ 'فرد' (ھیومن) تو ماں باپ کو ہی گھر سے نکال باہر کرتا ھے، بیوہ یا مطلقہ عورت کا رونا کیا روئیں۔ گویا خاندان کا تحفظ ختم ھونے سے صرف 'روایتی عورت' (ماں، بہن، بیٹی، بیوی) ہی غیر محفوظ نہیں ھوتی بلکہ 'بوڑھے' (ماں باپ) بھی غیر محفوظ ھوجاتے ہیں۔ درحقیقت مارکیٹ یا سول سوسائٹی انفرادیت کے ہر روایتی اظہار یا تعلق کو غیر معقول و لایعنی بنا کر انکے وجود کو 'غیر محفوظ' کردیتی ھے۔ ایسا اس لئے کہ مارکیٹ یا سول سوسائٹی 'مجرد فرد' کی تکمیل اغراض کی خاطر وجود میں آنے والے تعلقات کا نظام ھے۔ اس معاشرت میں 'اغراض سے ماوراء' ہر تعلق غیر معتبر ھوجاتا ھے لہذا محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی اجتماعیتیں (مثلا خاندان و قبائل) تحلیل ھوجاتے ھیں۔ ھیومن رائٹس پر مبنی اس معاشرت میں ہر فرد کو اپنا 'area of non-encroachable' (ذاتی زندگی کے حقوق کا وہ دائرہ جس میں 'کسی' کی مداخلت جائز نہیں) کا تحفظ اور اس میں توسیع ہر دوسری شے سے عزیز تر ھوتی ھے، لہذا اس معاشرت میں خاندان لازما تحلیل ھوکر رھتا ھے (جس معاشرت میں ھیومن رائٹس کے نام پر بچوں کی شکایت پر ماں باپ کو عدالتوں اور تھانوں میں طلب کیا جارہا ھو بھلا وہاں خاندان باقی رہ سکتا ھے؟ ایں خیال است محال است)۔ آزادی و اغراض کا فروغ لازما رحمی رشتوں کو مخاصمت میں تبدیل کرکے رھتا ھے۔

تو خوب دھیان رھے کہ خاندانی نظام بس یونہی شکست و ریخت کا شکار نہیں ھورھا بلکہ یہ بذات خود مارکیٹ نظم کا نتیجہ ھے۔ جوں جوں مارکیٹ کا دائرہ پھیلتا ھے، روایتی معاشرت کی شکست و ریخت کا عمل تیز تر ھوجاتا ھے نتیجتا ہر روایتی تعلق (بشمول 'روایتی عورت') روایتی تحفظات سے محروم ھوکر غیر محفوظ ھونے لگتا ھے اور اسے اپنی آخری پناہ گاہ بادل ناخواستہ مارکیٹ میں تلاش کرنا پڑتی ھے۔ درحقیقت مارکیٹ کسی دوسرے نظام کے ستائے ھوئے لوگوں کو نہیں بلکہ خود اپنے پیدا کردہ ظلم کے مارے چند لوگوں کو اپنے اندر سموتی ھے اور بڑی اکثریت کو این جی اوز، پروفیشنل خیراتی اداروں اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تھپیڑوں کے حوالے کردیتی ھے۔

اور پھر ذرا تصور کیجئے ان عورتوں کے بارے میں بھی جو یا تو کمانے لائق نہیں یا پھر بہت کم کماتی ہیں ۔۔۔۔ آخر یہ مارکیٹ نظام انکے ساتھ کیا کررھا ھے؟ ھوسکتا ھے آپ کہیں کہ وہ انشورنش کروائیں، مگر اسکے لئے تو رقم چاہئے جو کمائے بغیر ممکن نہیں، ھوسکتا ھے آپ کے ذہن میں یہ خیال مچل رھا ھو کہ انکی کفالت ریاست کرے گی مگر اس دنیا کی کتنی ریاستیں ہیں جنکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنی ساری محروم آبادی کیلئے آمدن کا بندوبست کردے؟ تو سوال یہ ھے کہ یہ جو اتنی کثیر تعداد میں خواتین بے یارومددگار گھوم رہی ہیں ان کیلئے اس نظام میں کیا ھے؟ تو یہاں کوئی جدید ذھن کیوں یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ 'اے ظالمو جب تمہارے پاس ان خواتین کے بندوبست کا کوئی نظام موجود نہیں تھا تو کیونکر تم نے خاندان کو تحلیل کرکے مارکیٹ نظم قائم کیا؟' ۔۔۔۔۔ کیا یہ جدید ذھن کا کھلا تضاد نہیں کہ دینی طبقے سے تو دین پر عمل پیرا ھونے کیلئے پہلے 'ہر مسئلے کا پکا پکایا متبادل' فراہم کرنے کی شرط لگاتا ھے مگر خود اپنے نظام پر یہی سوال نہیں اٹھاتا؟

تو مارکیٹ جو بحرانوں کا شکار چند عورتوں کو سپورٹ کررھی ھے وہ بس یونہی نہیں کررہی، بلکہ معاشرے سے اسکی پوری پوری قیمت وصول کررہی ھے۔

پس کرنے کا کام خاندان کو مارکیٹ میں ضم کردینا نہیں (کہ یہ تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ھے) بلکہ مرد کی 'درست تربیت' پر توجہ دینا ھے تاکہ وہ اپنی 'ذمہ داری' کو پہچانے۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں، اس مارکیٹ نظم کو تحلیل کرنا اس تربیت سازی سے بھی زیادہ ضروری عمل ھے کہ اسکے بنا یہ تربیت کبھی عام نہ ھوسکے گی۔
مکمل تحریر >>

Monday, October 21, 2013

تحفظ عورت، خاندان اور مارکیٹ ۔۔۔۔ حقیقت اور افسانوں کا فرق


تصور کریں اس عورت کے بارے میں جسکا خاوند، باپ، بھائی یا بیٹا (یا کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار) اسکی معاشی کفالت کا پورا ذمہ اٹھائے ھوئے ھے، گھر سے باہر آتے جاتے وقت اسکے تحفظ کی خاطر اسکے ساتھ ھونے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ھے، اسکی ضرورت کی ہر شے اسے گھر کی دہلیز پر مہیا کرتا ھے، اپنی عمر بھر کی کمائی ہنسی خوشی اس پر خرچ کردیتا ھے، اسے اچھا کھلاتا اور پہناتا ھے، اسکی عزت کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک قربان کردینے کیلئے تیار رھتا ھے، اور 'بالآخر' (بادل ناخواستہ ہی صحیح) گھر کے معاملات بھی اسی عورت کی جھولی میں ڈال دیتا ھے (یہ تصور کہ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی عورت کے پاس فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی ایک افسانہ ھے، خاندانی نظم کے اندر بچوں کی عمر ذرا زیادہ ھونے کے بعد عورت بالعموم کس قدر بااختیار ھوجاتی ھے اسکا اندازہ ہر شوھر کو ھوتا ھے )۔ یہاں جس عورت کی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا یہ کوئی تخیلاتی عورت نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں آج بھی خواتین کی غالب ترین اکثریت کم و بیش یہی زندگی گزار رھی ھے (کچھ اس خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور کچھ مارکیٹ نظم کا حصہ بن جانے کی وجہ سے مظالم کا شکار ہیں، ان مظالم کا تعلق ہرگز خاندانی نظام کے ڈھانچے سے نہیں جیسا کہ ہمارا لبرل طبقہ جھانسا دینے کی کوشش کرتا ھے کیونکہ اس صورت میں یہ غالب ترین اکثریت بھی ان مظالم سے محفوظ نہ ھوتی)۔

اب اسکا موازنہ کریں اس عورت کی زندگی سے جو اپنی معاشی کفالت کی خود ذمہ دار ھے، گھر اور بچوں کی ذمہ داری بھی اسی کے کاندھوں پر ھے، صبح ناشتہ بھی بناتی ھے، بچوں کو تیار بھی کرتی ھے، انکے لنچ کا بندوبست بھی کرتی ھے، آفس کے جبر کو بھی برداشت کرتی ھے، باس کی باتیں بھی سنتی ھے، شام کو سب کیلئے کھانا بھی بناتی ھے، لانڈری بھی کرتی ھے۔ اگر قسمت نے یارانہ کیا تو شاید عمر بھر ساتھ نبھانے والا کوئی شوھر ہاتھ آجائے وگرنہ یہ سارا بوجھ اکیلے ہی اٹھائے پھرے گی۔ یہ نقشہ ھے جدید و ترقی یافتہ معاشروں کی غالب ترین خواتین کی زندگی کا۔ اس عورت کو اپنے تحفظ و بقا کیلئے ان پروسزز ، اشیاء و خدمات کی ضرورت ھے جنہیں مارکیٹ سے 'خریدنا' پڑتا ھے لہذا یہ عورت اس نظام کے تحت مجبور ھے کہ اپنی قوت خرید کو برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ کا حصہ بنی رھے۔ یہ اس نظام کا عورت پر جبر ھے۔

نفس معاملہ یہ ھے کہ ھیومن رائٹس اور اسپر مبنی مارکیٹ اور جمہوری نظم معاشرے کی اکائی کو فرد تک محدود (individualize) کرکے عورت کی کفالت کی ذمہ داری خود عورت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں عورت پر ھونے والے بدترین مظالم میں سے عظیم تر ظلم ھے، ایک اس لئے کہ یہ اس جنس پر ایک ایسا بوجھ ڈال دینا ھے جو اسکی تخلیق کے مقصد ہی کے خلاف ھے، دوئم اس لئے کہ جدید نظام اس ظلم و شر کو عدل و خیر کے پردوں میں چھپا کر انسانوں کیلئے قابل قبول بناتا ھے (اس اعتبار سے یہ عورت کی بلا وجہ مار پیٹ کرنے سے بھی بڑا ظلم ھے کہ اس عمل کو ہر معاشرت و نظرئیے نے بہرحال برا ہی سمجھا مگر عورتوں میں پروفیشنل ازم کے فروغ کے ذریعے انکی مارکیٹائزیشن کے عمل کو آزادی و خودمختاری کے خوشنما نعروں میں پیش کیا جارہا ھے)۔ مارکیٹ نظم میں عورت اور مرد 'فرد' ہیں، یہاں دونوں اپنے تحفظ کیلئے غیر جذباتی و غیر شخصی ریاستی اداروں (impersonal and procedural state institutions) کے محتاج ہیں، جہاں ریاست کی پہنچ نہیں (ظاہر ھے ریاست ہر جگہ موجود نہیں ھوسکتی) وہاں طاقتور 'اکیلا' کمزور 'اکیلے' کو دبوچ لیتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ مارکیٹ نظم کے پھیلنے کے نتیجے میں ریپ (rape) کے مواقع بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روایتی برادری نظم میں عورت کے تحفظ کا دائرہ محرم (اور بعض اوقات خاندان سے متعلقہ چند قریبی اور قابل اعتماد غیر محرم) رشتہ داروں کے گرد بنا جاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ روایتی معاشرت میں ریپ کے وارداتیں انتہائی شاذونادر ھوتی ہیں کیونکہ ایک فرد (یا چند افراد) کے ہاتھ یہ موقع آجانا ہی خاصا مشکل امر ھوتا ھے کہ وہ ایک اکیلی عورت کو اس حالت میں کہیں پالے کہ اسے اپنی ھوس کا نشانہ بنا سکے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔

ان دونوں میں سے کونسی عورت زیادہ محفوظ و آسودہ زندگی گزار رھی ھے؟ آخر ان دونوں کے حال میں اس قدر فرق کیوں ھے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ھے کہ ایک عورت اس نظم کا حصہ ھے جو خدا کی بتائی ھوئی فطری طرز معاشرت میں زندگی بسر کررھی ھے، وہ معاشرت جو محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تعمیر ھوتی ھے، دوسری عورت تسکین لذات و بڑھوتری سرمایہ کی خاطر اغراض کی بنیاد پر تعمیر کی گئی معاشرت کا ایک پرزہ بنا دی گئی ھے اور جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ یہ نظام اسے فراھم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی لئے پہلی عورت محفوظ ھے جبکہ دوسری غیر محفوظ (vulnerable)۔ جن 'دانشوروں' اور 'سکالرز' کا خیال یہ ھے کہ موجودہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ ظلم نہیں کرتا وہ بصیرت ہی سے محروم ہیں، انکے یہ لایعنی تجزئیے انہیں موجودہ نظام کے خلاف جہاد کرنے سے روکتے ہیں کہ انکے نزدیک یہ نظام فتنہ، ظلم و فساد فی الارض کا باعث نہیں بن رھا۔ جبکہ حقیقت یہ ھے کہ انسانی تاریخ میں تہذیب کا ایسا اجاڑ آج تک کسی معاشرتی و ریاستی نظم نے اس منظم طور پر نہ کیا ھوگا جتنا اس نام نہاد ترقی یافتہ جدید تہذیب نے کیا ھے۔

آخر اسکی وجہ کیا ھے کہ جدید انسان بہر حال اس محفوظ عورت کو غیرمحفوظ بنانے کیلئے اسے مارکیٹ کے مظالم و جبر کا شکار کرنا چاھتا اور ایسا کرنے کو عقل کا تقاضا بھی سمجھتا ھے (جیسے اس نے مرد کو اس ظلم و جبر کا شکار کرڈالا ھے)؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ جدید انسان آزادی یعنی بڑھوتری سرمایہ کو بالذات مقصد گردانتا ھے اور اس کائنات کی ہر شے (بشمول انسان) اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ھے، لہذا عورت بھی اس اصول سے مستثنی نہیں۔ عمل تکاثر میں مہمیز اضافے کی خواہش ہی اسکی قلب کی اصل کثافت ھے۔
20Like
مکمل تحریر >>

سوشل ازم اور کمیون ازم کا فرق


سوشل ازم سے مراد مزدوروں کی ریاستی ڈکٹیٹرشپ کے زیر نگرانی ایک پالیسی پیکج ھے جبکہ کمیونزم کا مطلب اس پالیسی پیکج سے دریافت ھونے والی اشتراکی جنت (Utopia) ھے۔

اشتراکی مفکرین کا خیال ھے کہ انسانی تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ھے جو حصول آزادی کیلئے ھونے والے مادے کے تغیرات اور اسکے نتیجے میں برپا ھونے والی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں محو سفر رہتی ھے۔ مادے کی یہ ترقی طبقاتی کشمکش کے ذریعے انسانیت کو ایک کے بعد دوسری بہتر شکل میں تبدیل کرتے رھتی ھے جسکے نتیجے میں انسانی عقائد، اخلاق، طرزعمل، معاشرت، ریاست، علم، حسن، عدل الغرض ھر تصور میں ارتقاء ھوتا رھتا ھے۔ ان مفکرین کے خیال میں انسانیت اپنا یہ سفر طے کرتے کرتے (لبرل) سرمایہ داری میں داخل ھوچکی ھے جو اپنے سے ماقبل تمام معاشرتی نظاموں سے بہتر نظام ھے کہ یہ آزادی (بڑھوتری سرمایہ) کے زیادہ مواقع پیدا کرتی ھے۔ البتہ انکے خیال میں انسانیت کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ھوا کیونکہ scarcity ابھی ختم نہیں ھوئی لہذا انسان مکمل طور پر ابھی آزاد نہیں ھوا۔ پس اسے ایک اصلاحی قدم مزید آگے بڑھنا ھے۔

وہ قدم کیا ھے؟ وہ قدم ھے سوشل ازم، یعنی انسانیت پر لازم ھے کہ وہ اپنی تاریخ کے ناگزیر قوانین کو سمجھ کر اپنے شاندار مستقبل کے حصول کیلئے ان پالیسیوں کو اپنائے جن کی نشاندھی مارکس (اور چند دیگر اشتراکی مفکرین) نے کی۔ یہ پالیسیاں کچھ اس نوع کی ہیں:
- ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کا خاتمہ اور ان پر اشتراکی ریاست کا قبضہ
- پروگریسو ٹیکسیشن (progressive taxation)
- لازمی لیبر ورک (آمدن کا واحد ذریعہ صرف لیبر ورک)
- تیز رفتار انڈسٹرئیلائزیشن
- پیداوار کی تقسیم پیداواری عمل میں صرف کئے گئے اوقات کار اور ضرورت کی بنیاد پر
ان پالیسیوں کے نتیجے میں درج ذیل نوع کی تبدیلیاں رونما ھوں گی:
- ورکنگ کنڈیشن میں بہتری
- کام کے اوقات (working hours) میں کمی
- پیداواری صلاحیت میں اضافہ
- اجرتوں اور معیار زندگی میں اضافہ
- معاشی و معاشرتی عدم مساوات میں کمی

سوشل ازم درج بالا نوع کی پالیسی پیکج کا نام ھے۔ طویل عرصے تک ان پالیسیوں پر عمل پیرا ھونے کے نتیجے میں ایک نیا انسان اور معاشرہ دریافت ھوگا، جسکے خدو خال کچھ یہ ھونگے:
- پیداوار میں کثرت (abundance) ھوجائے گی، یوں scarcity کا وجود ختم ھوجائے گا
- اس پیداواری کثرت سے لوگوں کے عقائد و طرز عمل تبدیل ھوجائیں گے، یوں ایک نیا انسان دریافت ھوگا جسے مارکس specie being کہتا ھے
- پیداواری عمل میں شرکت (مارکس کے نزدیک انسان کی اصل فطرت) اظہار ذات کا بنیادی داعیہ بن جائے گا
- ہر شے اجتماعی ملکیت بن جائے گی (اسی سے specie being دریافت ھوگا، جسکی شناخت کا بنیادی شعور 'اکیلی ذات' نہیں بلکہ 'انسانیت کا ایک رکن ھونا' ھوگی)
- جذبہ مسابقت ختم ھوجائے گا کہ یہ scarcity کا نتیجہ ھے
- جرائم کا خاتمہ ھوجائے گا کہ اس کا بنیادی محرک ہی ختم ھوجائے گا (ہر شخص کا فطری شعور ہی اسے جرم سے باز رکھنے کیلئے کافی ھوگا)
- انسان اپنی خواہشات کو پوری طرح کائنات پر مسلط کرنے لائق ھوگا، جو چاھے گا کرسکے گا (گویا فعال لما یرید کا مصداق ھوگا)
- ہر قسم کے طبقات (خاندان، مذھب، قومیں، شہری دیہاتی، پیشہ وارانہ تقسیم کار) ختم ھوجائیں گے کہ انکا مقصد صرف scarce ذرائع پر استحصالی تسلط کو جواز دینا اور اسکے نتیجے میں برپا ھونے والی ادارتی صف بندی کو اختیارکرنا ھوتا ھے، لہذا طبقاتی کشمکش نہ رھے گی۔ صرف فرد (specie being) باقی رہ جائے گا اور وہ جو چاھے گا کرسکنے کا مکلف ھوگا۔ اخلاقیات کے بے شمار موجودہ تصورات بے معنی ھوجائیں گے
- کیونکہ جبر کی بنیاد و ضرورت ھی ختم ھوجائے گی، لہذا ریاست تحلیل ھوجائے گی، محض ایک فطری پیداواری نظم باقی رہ جائے گا جو انسانیت کے خود اختیار کردہ فطری اظہار کا مظہر ھوگا

اشتراکی مفکرین انسانی تاریخ کے آخری سرے پر قائم ھونے والے اس معاشرے کو کمیونزم سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا سوشل ازم کا مطلب لبرل سرمایہ داری اور کمیونزم کے دوران عبوری ریاستی دور کا نام ھے جو لبرل سرمایہ داری کو مطلوبہ کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل کرنے کی بنیاد فراھم کرے گی۔ سوشل ازم اور کمیونزم کے اس نقشے سے بالکل واضح ھے کہ یہ سرمایہ داری ہی کی وکالت کا متبادل نظریہ ھے۔
مکمل تحریر >>

اشتراکیت بھی سرمایہ داری ہی ھے


عام طور پر اشتراکیت کو سرمایہ داری سے علی الرغم کوئی نظام سمجھا جاتا ھے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ھے کہ سرمایہ داری کو محض اسکی ایک مخصوص شکل 'لبرل یا مارکیٹ' سرمایہ داری کے ہم معنی فرض کر لیا جاتا ھے جبکہ یہ تصور درست نہیں۔ درحقیقت یہ دونوں (لبرلزم اور اشتراکیت) سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے دو نظرئیے ہیں۔ اشتراکیت سرمایہ دارانہ اہداف (آزادی، مساوات و ترقی) ہی کو حاصل کرنے کا ایک متبادل نظریہ ھے نہ کہ سرمایہ داری سے الگ کوئی نظام زندگی (جیسا کہ اشتراکیت کے علم بردار بڑی فی مہارت سے یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں)۔ اس بات کی دلیل درج ذیل ناقابل تردید حقائق ہیں:
1) لبرل ازم اور اشتراکیت دونوں کی بنیادیں تنویری (enlightenment) علمیت سے ماخوذ ہیں، اسی لئے یہ دونوں انسان کو قائم بالذات قرار دیتے ہیں
2) اشتراکیت بھی انہی اہداف (آزادی، مساوات و ترقی) کو حق اور مقصد قرار دیتی ھے جنہیں لبرل سرمایہ داری حق کہتی ھے
3) مارکس واضح طور پر کہتا ھے کہ اشتراکیت لبرل یا مارکیٹ سرمایہ داری سے برآمد ھوتی ھے
4) مارکس نے لبرل سرمایہ داری پر جو تنقید کی اسکا حاصل یہ ھے مارکیٹ کے ذریعے آزادی اور لامتناہی ترقی کا حصول ممکن نہیں ھوتا کیونکہ مارکیٹ صرف ایک مخصوص (برجوا) طبقے کی آزادی میں اضافہ کرتی ھے نہ کہ پوری انسانیت کی۔ اسی لئے مارکیٹ ایک خاص حد کے بعد ترقی (بڑھوتری سرمایہ میں اضافے) کے عمل میں رکاوٹ بن جاتی ھے
5) اگر کسی اشتراکی سے سوال کیا جائے کہ بتاؤ جو معاشرہ و ریاست تم قائم کرو گے وہ کن چیزوں کا حصول ممکن بنائے گا، تو اسکا جواب ھوگا: 'آزادی، مساوات اور ترقی'
6) یہی وجہ ھے کہ اشتراکی علاقے (مثلا روس، چین، کیوبا وغیرھم) ھوں یا لبرل ممالک (امریکہ و یورپ)، عملا ہر جگہ حرص و حسد سے مغلوب، نفس پرست، خدا و آخرت بیزار اور گناھوں کی اثیر ایک ہی قسم کی انفرادیت و معاشرت پروان چڑھتی ھے

یہی وجہ ھے کہ اشتراکیت کو 'ریاستی کیپیٹل ازم' (state capitalism) کہا جاتا ھے جبکہ لبرلزم کو 'مارکیٹ کیپیٹل ازم'۔ دونوں کی جڑ ایک ہی کلمہ خبیثہ ھے، یعنی ھیومن ازم کا (جاہلی) علمی ڈسکورس۔

اس بات کی تفہیم اس طور اھم ھے کہ جدید مسلم ذھن جب مارکیٹ نظم کے مظالم دیکھتا ھے تو اسکے حاضروموجود متبادل کے طور پر اشتراکیت کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے جو اتنی ہی بڑی ضلالت و گمراہی ھے جتنی لبرلزم۔ اور ہمارے یہاں اشتراکیت کی طرف متوجہ ھونے والے متجددین کی بھی کوئی کمی تو نہیں رہی (مثلا دیکھئے پرویز یا علی شریعتی کا اسلامی ماڈل)۔ پس یاد رکھنا چاہئے، اسلام کو سرمایہ داری کے کسی بھی نظرئیے و اصولی تصور (آزادی، ترقی، جمہوریت، ھیومن رائٹس، قوم پرستی، اشتراکیت وغیرھم) میں تلاش کرنا اسلام کو سرمایہ داری میں ضم کردینا ھے، اسلام کو سمجھنے کا پیرایہ قرون اولی میں اس پر عمل کی طرف جھانکنا ھے کہ اسلام کی ایک تاریخ ھے (Islam has a history)، نہ کہ اسے اسکی تاریخ سے کاٹ کر حاضروموجود نظریات میں تلاش کرنا۔
مکمل تحریر >>

Sunday, October 20, 2013

علم معاشیات کا تصور Perfect Competition (مکمل مسابقت) ۔۔۔۔۔۔ جدید دنیا کا "آئیڈئیل" ('خیر القرون') اور خیرالقرون کی طرف مراجعت کی اہمیت


علم معاشیات میں مکمل مسابقت سے مراد ذاتی اغراض کی جستجو پر مبنی تعلقات سے وجود میں آنے والا ایک ایسا مسابقتی معاشرتی نظم ھے جسکے نتیجے میں سرمائے میں امکانی حد تک زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ھوسکےگا۔ اس نظم کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں: ذاتی اغراض کے متلاشی بے شمار ھیومنز کا وجود، حصول سرمایہ کیلئے تعلقات بنانے اور توڑنے کی مکمل آزادی (free entry and exit)، تمام لوگوں کے پاس مکمل معلومات کی فراہمی (free and perfect information) اور سرمائے کی ترسیل اور اسکے حصول کیلئے کنٹریکٹ کی کاسٹ نہ ھونا (no transaction cost)۔ چنانچہ ماہرین معاشیات دعوی کرتے ہیں کہ مکمل مسابقت حصول سرمایہ کا وہ نظام ھے جہاں زیادہ سے زیادہ efficiency کا حصول خود بخود (بغیر کسی بیرونی، مثلاریاستی، مداخلت) ممکن ھوجاتا ھے۔

سوال پیدا ھوتا ھے کہ جب دنیا کا کوئی معاشرہ نہ صرف یہ کہ مکمل مسابقت کے نقشے پر پورا اترنا نہیں بلکہ ایسا ھونا بھی ممکن نہیں تو پھر علم معاشیات میں اس نظم کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور کیوں دیا جاتا ھے؟ اسکا جواب یہ ھے علم معاشیات میں مکمل مسابقتی معاشرت کی تعلیم اس لئے نہیں دی جاتی کہ یہ کہیں موجود ھے بلکہ اس لئے دی جاتی ھے کہ یہ اسکا 'مطلوب و مقصود' (ideal-type) نظام ھے۔

آئیڈئیل کا مقصد کیا ھوتا ھے؟ اسکے تین بنیادی مقاصد ھوتے ہیں:
1) معیاری 'پیمانے' کی فراہمی جسکی بنیاد پر حاضر و موجود کو جانچا جاسکے (کہ وہ مطلوب سے کتنا دور یا نزدیک ھے)
2) حکمت عملی کی جہت کا تعین (کہ حاضر و موجود کو 'کس طرف' تبدیل کرنا ھے)
3) حکمت عملی کا لائحہ عمل و نشاندھی (کہ کس قسم کے اقدامات کرنے کی ضرورت ھے)

چنانچہ علم معاشیات کا تصور مکمل مسابقت یہ نہیں بتاتا کہ حاضر و موجود دنیا کیسی ھے بلکہ یہ بتاتا ھے کہ حاضروموجود کو کیسا بنانا ھے، یہ مطلوب سے کتنی دور ھے اور اسے مطلوبہ نظم میں تبدیل کرنے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مثبت (positive) نہیں بلکہ ایک مثالی و معیاری (normative) تصور ھے۔ یہ تصور ریاست سے چند مخصوص نوع کے اقدامات کا تقاضا کرتا ھے (جسکی تشریح کسی دوسری پوسٹ میں کی جائے گی)۔

یہاں چند غور طلب نکات ہیں:
1) دور حاضر میں تبدیلی برائے تبدیلی نہیں آرہی جیسا کہ جدید ذہن کا خیال ھے، بلکہ ایک مخصوص آئیڈئیل (خیرالقرن) کی طرف آرہی ھے۔ چنانچہ دنیا یونہی گلوبلائزیشن کی طرف تبدیل نہیں ھورہی بلکہ اسکے پیچھے ایک مخصوص علمی ڈسکورس کار فرما ھے
2) جدید دنیا جمہوری عمل (لوگوں کی رائے) سے نہیں بلکہ مخصوص علمی ڈسکورس سے تشکیل پائی ھے اور پا رہی ھے، یہ علمیت بذات خود لوگوں کی آراء کی تشکیل سازی بھی کرتی ھے
3) دنیا کے ہر 'نظام زندگی' کا ایک آئیڈئیل ٹائپ ھوتا ھے جو حاصل ھوتا نہیں بلکہ حاصل ھوتا رھتا ھے (کبھی زیادہ اور کبھی کم)۔ اسلام کا بھی ایک آئیڈئیل ٹائپ ھے جسے خود سرکار (ص) نے 'خیرالقرون' قرار دیا
4) جو لوگ خیرالقرون کے اس بنیاد پر ناقد ہیں کہ 'یہ ممکن نہیں' انہیں چاہئے کہ ماہرین علم معاشیات کو مکمل مسابقت کی تعلیم دینے نیز دنیا کی تمام حکومتوں کو اسکی خاطر پالیسی سازی کے عمل سے روک دیں کہ یہ ممکن نہیں
5) پالیسی سازی ہمیشہ آئیڈئیل کے ریفرنس سے ھوتی ھے (کہ اسے کیسے حاصل کیا جائے)، جس نظرئیے کی پالیسی سازی کا عمل اسکے آئیڈئیل سے لا تعلق ھو جائے وہ کبھی منزل حاصل نہیں کرپاتا بلکہ اپنی شناخت دیگر نظامہائے زندگی میں تلاش کرنے لگتا ھے (جیسے جدید مسلم مفکرین نے کبھی اسلام کو جمہوریت کے اندر پہچانا تو کبھی سوشلزم کے ساتھ نتھی کردیا وغیرہ)۔ ایک آئیڈئیل ترک کردینے کا مطلب نیوٹرل ھوجانا نہیں بلکہ کسی دوسرے آئیڈئیل کو اختیار کرلینا ھوتا ھے اور بس
6) جو لوگ علم معاشیات (یا دیگر سوشل سائنسز) کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ گویا یہ مثبت سائنسی علوم ہیں وہ دھوکے اور وھم کا شکار ہیں، سوشل سائنسز اپنی وضع میں 'نارمیٹو' علوم ہیں جنکا بنیادی مقصد غیرسرمایہ دارانہ دنیا کو سرمایہ دارانہ نظم میں تبدیل کرنے کا لائحہ عمل وضع کرنا ھے (جیسا کہ مکمل مسابقت کے تصور سے واضح ھے)
مکمل تحریر >>

اخلاقیات اور جبر کا تعلق ۔۔۔۔ موجودہ نظم کیلئے تو جائز مگر مذھب کیلئے ناجائز ۔۔۔۔۔ جدید ذہن کی قلابازیاں


موٹروے پر کار ڈرائیو کرتے وقت یہ بات باآسانی محسوس کی جا سکتی ھے کہ ہمارے یہاں 95 فیصد سے زیادہ ڈرائیور سپیڈ لمٹ اور ڈرائیونگ لائنز کا سختی سے دھیان رکھتے ہیں، یعنی 120 سے زیادہ رفتار اختیار نہیں کرتے نہ ہی بلا وجہ لائنز تبدیل کرتے ہیں، چاھے ان پڑھ بس ڈرائیور ھوں یا مرسڈیز چلانے والے بابو۔ مگر یہی لوگ جب عام شاہراھوں یا ہائی وے پر گاڑیاں چلاتے ہیں تو ان قوانین کا خیال نہیں رکھتے۔ آخر موٹروے پر اس محتاط اور بظاہر 'اخلاقی' رویہ اختیار کرنے کی وجہ کیا ھے؟

اسکی وجہ ھے نگرانی کا نظام (surveillance)، یعنی موٹروے پر جا بجا سپیڈ چیک کی جارہی ھے اور تیز رفتاری پر جرمانہ عائد ھورھا ھے۔ یہ اس نظام کا نتیجہ ھے کہ سب لوگ ایک 'ایتھیکل' رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور آہستہ آہستہ یہ جبر سب کی عادت بن کر (یعنی habitualize ھوکر) انہیں جائز معلوم ھونے لگتا ھے۔ اسکی ایک اور مثال شہر اسلام آباد میں بیلٹ باندھ کر ڈرائیو کرنے کا قانون بھی ھے، راقم جب کراچی سے یہاں آیا تو شروع شروع میں بہت مشکل پیش آئی، البتہ ایک عدد جرمانے کے بعد بیلٹ لگانے کی کچھ ایسی عادت پڑ گئی ھے کہ ''ہر شہر اور سڑک'' پر ڈرائیو کرنے سے پہلے بیلٹ لگا لیتا ھوں اور جو نہ لگائے اسے بھی ''اخلاقی نصیحت'' کرتا ھوں''۔

دیکئھے یہاں کوئی نہیں کہتا کہ ''لوگوں پر جبر کیوں کررھے ھو، انکی اخلاقی تربیت کرنی چاھئے تمہیں وغیرہ؟''۔ مگر جونہی خدا کے حکم کے مطابق تربیت اخلاق کیلئے ''جسم ڈھانپنے کا قانون'' بنا دیا جائے تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے اور مکارم اخلاق کے عجیب و غریب فلسفے بکھیرنے والے میدان میں اتر آتے ہیں۔ اس موقع پر یہ لوگ یہ بات ثابت کرنے کیلئے کہ 'قانون سے اخلاقی اصلاح نہیں ھوسکتی' انوکھے دلائل کا ایک ایسا طومار اکٹھا کردیں گے جسے عقل و دانش سے دور کا بھی واسطہ نہیں ھوتا۔

آخر اس تضاد کی وجہ کیا ھے کہ جدید ذہن کو 'مذھب کی بنیاد' پر جبر ناجائز مگر 'جدید طرز زندگی' (جو درحقیقت سرمائے کی تنظیم کا نظام ھے) کے تقاضوں کی بنیاد پر جبر عین جائز معلوم ھوتا ھے؟ درحقیقت اس جدید ذہن کا المیہ یہ ھے کہ ہر وہ بات جسے ''خدا کے ساتھ نسبت ھے'' اسے غیر عقلی معلوم ھوتی ھے، ہاں وہی بات جب ''جدید نظام کے تناظر میں'' کہی جائے تو یہ اسے خود بخود ''عقلی'' اور ''بھلی'' معلوم ھونے لگتی ھے۔ پس مسئلہ عقل یا غیر عقل کا نہیں، بلکہ عقل کے ریفرنس پوائنٹ کا ھے۔ جدید ذھن کی عقل کا ریفرنس پوائنٹ 'خواہشات' ہیں جسکا نام اس بے وقوف نے 'عقل' ڈال رکھا ھے اور اپنی اس بیوقوفی سے یہ مذہبی لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا رھتا ھے۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, October 16, 2013

الحادی مغربی ڈسکورس کا خلاصہ اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ


جدید مغربی (تنویری یعنی enlightenment) ڈسکورس خدا پرستی کو رد کرکے انسانیت (یا نفس) پرستی کی دعوت عام کرنے کا ڈسکورس ھے۔ اس علمی ڈسکورس نے انسان کو قائم بالذات اور آزاد ہستی مان کر پہلے خدا کو انسان سے اخذ کرنے کی کوشش کی (یعنی ترتیب حقائق بدل دی)، پھر خدا کو غیر متعلقہ ثابت کرکے انسانی زندگی کی تشکیل کے حق سے بے دخل کیا، پھر اسے مہمل قرار دے کر اس انکار کیا اور بالآخر اسے ضلالت قرار دیا۔

ڈیکارٹ جو جدید الحاد کا بانی ھے اسنے I think therefore I am کا دعوی کرکے صرف عاقلانہ انسانی نفس کو قائم بالذات قرار دیا، یوں اس نے تمام علم و حقیقت کا منبع انسان کو قرار دیا (یہاں سے جدید انسانیت پرستانہ الحاد کا آغاز ھوا)، اگرچہ اس نے اپنے تئیں اس انسان پرستانہ علمیت کی بنا پر وجود خداوندی کا عقلی جواز دینے کی ناکام کوشش بھی کی۔ جان لاک، بارکلے اور روسو وغیرہ نے علم کی عقلی توجیہہ کی بنیادیں منہدم کرکے اسے تجربے کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی اور بارکلے پادری نے اس علم سے وجود خداودی پر استدلال بھی قائم کئے جسے ہیوم کی تشکیکیت نے تہس نہس کردیا۔ عقلیت اور تجربیت کی اس کشمکش کو کانٹ نے ملانے نیز سائنسی علم کی آفاقی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی لیکن اسکے نتیجے میں مابعدالطبعیات جسے کانٹ نامینا کہتا ھے (بشمول وجود خداوندی) علم کے دائرے سے باہر نکل گیا (یعنی یہ غیر متعلقہ شے بن کر رہ گئی)۔ ھیگل نے آکر نامینا کے وجود ہی کا انکار کردیا (یعنی جو انسانی ذرائع معلومات کی گرفت سے باھر ھے اسکا وجود ھے ہی نہیں) اور بالآخر فرائیڈ و مارکس وغیرہ جیسے چند دیگر فلاسفہ نے مذھب کو نفسیاتی بیماری و معاشرتی رویے کی پیدوار قرار دیکر اسکی خالصتا مادی و سماجی تشریحات بیان کرکے ڈیکارٹ سے شروع ہونے والے اس الحاد کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ انکے بعد مغربی ڈسکورس میں خدا اور مذھب آج تک کبھی سنجیدہ امور بحث نہیں بنے۔

ھہارے یہاں کے مفکرین چند سائنسدانوں یا مغربی فلسفیوں کے خدا پر ایمان رکھنے سے مغربی و سائنسی ڈسکورس کو مذہبی سمجھنے کی غلط فہمی
کا شکار ھوجاتے ہیں، مگر یہ محض غلط فہمی ھے۔ مثلا نیوٹن، آئین سٹائین وغیرھم طرز کے سائنس دان بظاہر تو عیسائ ھونے یا خدا پر ایمان کے مدعی تھے مگر یہ اس خدا کو نہیں مانتے تھے جو مذہبی کتاب سے اخذ ھوتا ھے بلکہ یہ انکا اپنا عقلی تراشیدہ خدا ہوتا تھا جسکا اظہار کسی کے نزدیک 'میتھس کے فارمولوں' میں ھوتا تھا، کسی کے نزدیک 'قوانین فطرت' میں، تو کوئ اسے 'گھڑی ساز خدا' سمجھتا تھا۔ مگر ظاھر ھے خدا وہ نہیں ھے جو میں اپنی عقل سے تراشتا ھوں بلکہ وہ ھے جسے نبی خدا کہتا ھے۔ اگر خدا وہ ھے جسے 'میں' تخلیق کرتا ھوں تو ایسے خدا کی کیا وقعت؟ ایسا خدا بالآخر مر ہی جاتا ھے اور آخر میں بچتا 'میں' ہی ھوں، جیسے نطشے نے بتایا کہ مغربی ڈسکورس میں خدا مرچکا (god is dead)۔

چنانچہ کسی ڈسکورس میں محض تصور خدا کا وجود اسے مذہبی نہیں بنادیتا، اصل سوال یہ ھے کہ اس خدا کی حیثیت کیا ھے، یعنی کیا وہ خدا انسان اور اسکی زندگی کو متعین بھی کرتا ھے یا نہیں؟ ظاہر ھے سائنسدانوں کا خدا بس ایک ذہنی تصور ھے جسکا دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہاں خدا اگر ھے بھی تو فارمولے یا قوانین فطرت وغیرہ کا نام ھے، تو ایسے خدا کی کیا حیثیت، یہ تو خود انسان کے قابو میں ھے؟ پس مذہبی ڈسکورس میں اصل اہمیت الہام اور نبی کی ضرورت کو ماننے کی ہوتی ھے جسے یہ جدید الحادی ڈسکورس ہرگز قبول نہیں کرتا۔
مکمل تحریر >>

مغربی (تنویری) و مذھبی تصورات آزادی کا بنیادی اور اصولی فرق


اکثر و بیشتر مذھبی اور مغربی فکر میں پاۓ جانے والے تصورات آزادی کو بری طرح خلط ملط کرکے ''اسلام بھی انسانی آزادی کا حامی ھے'' کا دعوی داغ دیا جاتا ھے، یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ھے کہ ''اصل آزادی تو ھے ہی اسلام میں''۔

اچھی طرح سمھنا چاھئے کہ تصور آزادی دو معنی میں استعمال ھوتا ھے، ایک آزادی بطور صلاحیت (freedom as ability) دوسرا آزادی بطور قدر (freedom as value)۔ آزادی بطور صلاحیت کا معنی انسان کی اس صلاحیت کا اقرار کرنا ھے کہ انسان اپنے ارادے سے ایک عمل اختیار یا رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے (ان معنی میں آزادی 'جبروقدر' کی بحث سے جنم لینے والا ایک تصور ھے)، یعنی جس طرح انسان میں سماعت و بصارت وغیرہ کی صلاحیت ھے اسی طرح کسی درجے میں ارادے کی آزادی کی صلاحیت بھی ھے۔ مذہبی تصور آزادی کی حقیقت بس اتنی ھی ھے، مذھبی فکر میں آزادی خیر و شر کی تعیین و تفہیم میں کوئ اصولی حیثیت نہیں رکھتی (یہی وجہ ھے کہ کسی فقہی ڈسکورس میں آزادی کو مصدر شریعت نہیں سمجھا گیا)۔ اسکے مقابلے میں آزادی بطور قدر کا معنی یہ ھے کہ انسان کے اس ارادہ کر سکنے کی صلاحیت کو بالذات مقصد اور قدر (خیر) گرداننا ھے نیز اس میں اضافے کو اصل الاصول مان کر خیر وشر کے معاملات طے کرنا ھے۔ آسان الفاظ میں آزادی بطور قدر کا معنی آزادی کو خود آزادی کے پیمانے پر جانچنا ھے، نہ کہ اس سے ماوراء اور باہر کسی دوسرے پیمانے پر۔ مغربی ڈسکورس میں تصور آزادی اس دوسرے معنی میں استعمال ھوتا ھے۔

ایک آسان مثال سے اس فرق کو سمجھا جاسکتا ھے۔ فرض کریں آپ اپنے لڑکے کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ وہ لڑکا ایک لڑکے یا خسرے سے شادی کرکے اسے گھر لے آتا ھے۔ اس موقع پر اگر آپ یہ کہیں کہ یہ عمل جائز نہیں کیونکہ شرع میں اسکی اجازت نہیں، تو اس صورت میں آپ آزادی کو آزادی کے اصول پر نہیں بلکہ اس سے باہر کسی دوسرے پیمانے (شرع) پر جانچ رھے ہیں، لہذا آپ 'آزادی بطور قدر' کو نہیں مان رھے کیونکہ آپ 'حقوق' اخذ کرنے کیلئے آزادی کے علاوہ کسی دیگر پیمانے کو بنیاد بنا رھے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغربی ڈسکورس میں آزادی کو آزادی سے ماوراء کسی دوسرے تصور پر جانچنے کا نہ تو کوئ تصور و پیمانہ موجود ھے اور نہ ہی اسکی گنجائش، یہاں آزادی (صلاحیت) کو جانچنے کا جائز پیمانہ صرف یہ ھے کہ آیا اس عمل سے آزادی (بحیثیت اصول) میں اضافہ ھوتا ھے یا نہیں۔ چنانچہ مغربی فکر میں لڑکے کی لڑکے یا خسرے سے اس شادی کو جائز و مستحسن عمل سمجھا جاۓ گا کیونکہ اسکے ذریعے اظہار ذات کا ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا گیا، یعنی فرد کے اپنے ارادے کو چاھنے اور اسے حاصل کرسکنے میں اضافہ ھوگیا۔

خلاصہ یہ کہ مذھبی ڈسکورس میں قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت ھے، یعنی یہاں اھم بات یہ نہیں کہ انسان جو چاھنا چاھتا ھے اسے چاھنے لائق بنتا جا رہا ھے یا نہیں بلکہ قابل قدر بات یہ ھے کہ انسان وہ چاہ رہا ھے یا نہیں جو خدا چاھتا ھے کہ وہ چاھے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں قدر 'آزادی بطور قدر کی نفی' کرکے فنا کے درجے پر فائز ھونے کی کوشش کرنا ھے۔ چنانچہ معلوم ھوا کہ آزادی بطور قدر کا اصل مطلب عبدیت کی نفی کرکے اپنے رب کا باغی بن جانا ھے۔ اسی لئے مغربی تصور آزادی کی درست قرآنی تعبیر 'بغی' (سرکشی) کے الفاظ سے ھوتی ھے نہ کہ مذھبی تصور آزادی سے۔
مکمل تحریر >>

ھیومن (Human) کون ھے؟۔۔۔۔۔۔۔ھیومن ازم کی بنیادیں


عام طور پر ھیومن کا ترجمہ انسان کرکے یہ سمجھا جاتا ھے کہ 'انسان تو بس انسان ہی ھوتا ھے، چاھے مشرق کا ھو یا مغرب کا'۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ھے۔ درحقیقت ہر تہذیب (نظام زندگی) کا ایک اپنا مخصوص تصور انفرادیت ھوتا ھے۔ اس تصور انفرادیت کے تعین کی بنیاد اس سوال کا جواب ھے کہ 'میں کون ھوں؟' (زندگی کا مقصد کیا ھے، خیر کیا ھے شر کیا ھے وغیرہ جیسے سوالات کا جواب اسی بنیادی سوال کے جواب سے طے پاتے ہیں)۔ بالعموم تاریخی طور پر اس سوال کا جائز مقبول عام جواب یہ رہا ھے کہ 'میں عبد (مسلمان) ھوں'، اور طویل عرصے تک اسی تصور انفرادیت کو انسانیت کا جائز اظہار سمجھا جاتا رہا ھے۔ اگرچہ پچھلے ادوار میں اسکے برعکس جواب دینے والے افراد اور معاشرے بھی موجود رھے ہیں البتہ اکثریت معاشرے (جیسے تمام مذھبی معاشرے) اسی مذہبی تصور انفرادیت پر مبنی تھے۔

سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپی معاشروں میں تحریک تنویر کے زیر اثر اس سوال کا ایک اور جواب عام ھونا شروع ھوا (جو آج ان معاشروں میں بہت راسخ ھوچکا) جسکے مطابق 'میں عبد نہیں بلکہ آزاد اور قائم بالذات (autonomous) ھوں' (اس تصور ذات کی ابتداء ڈیکارٹ کے جملے I think, therefore I am سے ھوتی ھے، جسکے مطابق کائنات کی واحد ہستی جو اپنے ھونے کا جواز خود اپنے اندر رکھتی ھے نیز جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر اور منبع علم ھے وہ اکیلی ذات 'میں' یعنی 'I' ھوں)۔ اس آزاد اور قائم بالذات تصور ذات کو تنویری فکر میں ''ہیومن'' کہا جاتا ھے۔ ھیومن اپنی بندگی کی نفی اور صمدیت کا دعوی کرتا ھے، دوسرے لفظوں میں ھیومن 'خدا کا باغی' تصور ذات یا انسان ھے۔

مشہور مغربی فلسفی فوکو کہتا ھے کہ 'ھیومن' انسانی تاریخ میں پہلی بار سترھویں صدی میں پیدا ھوا۔۔۔۔۔ان معنی میں نہیں کہ اس سےقبل دنیا میں انسان نہیں پاۓ جاتے تھے اور نہ ہی ان معنی میں کہ یہ کوئ زیادہ عقل مند انسان تھا اور پہلے کے انسان جاہل وغیرہ تھے، بلکہ ان معنی میں کہ اس سے قبل کسی انسانی تہذیب اور نظام فکر میں آزادی ( autonomy or self-determination) کو انفرادیت کے جائز اظہار کا مقصد سمجھا اور قبول نہیں کیا گیا (گویا یہ کفر و الحاد کی ایک جدید شکل تھی)۔ اس سے قبل انسانیت کیلئے لفظ mankind (خدا کی رعایاومخلوق) استعمال کیا جاتا تھا، ھیومینیٹی (humanity) کاتصورسترھویں صدی میں وضع کیا گیا۔ ھیومن ازم کا ڈسکورس درحقیقت اسی تصور ھیومن سے نکلتا ھے جسکے مطابق انسانیت کی بنیادی صفت آزاد و قائم بالذات ھونا ھے اور عقل کا مطلب اس انسانی آزادی میں اضافے (یعنی انسان کو عملا قائم بالذات بنانے) کو بطور مقصد حیات قبول کرنا ھے۔ ھیومینیٹی جدید مغربی الحاد کا نہایت کلیدی تصور (central construct) ھے اور تنویری فکر سے برآمد ھونے والے مختلف مکاتب فکر (مثلا لبرل ازم،سوشل ازم، نیشنل ازم وغیرہم) اسی تصور ھیومینیٹی کے مختلف نظرئیے،تعبیرات و توجیہات ھیں۔

جو لوگ تصور ذات کے تعین میں ایمانیات کی بنیادی اہمیت سے ناواقفیت کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ 'انسان تو بس انسان ھے' وہ انتہائ سطحی بات کرتے ہیں (زندگی کا مقصد، خیروشر، علم،حق اور عدل کے تصورات، معاشرتی و ریاستی نظم کی تشکیل وغیرہم اس سوال کا جواب تبدیل ھونے سے یکسر تبدیل ھوجاتے ہیں)۔ آسان مثال سے سمجھئے کہ حضرت عیسی بطور ایک معین شخصیت مسلمانوں اور عیسائیوں میں مشترک ھیں (کہ دونوں تاریخی طور پر ایک ہی مخصوص شخصیت کو عیسی مانتے ہیں) مگر انکے درمیان چودہ سو سال سے وجہ اختلاف 'تصور عیسی' ھے نہ کہ 'شخصیت عیسی' (یعنی ایک کہ یہاں عیسی ابن اللہ ھیں جبکہ دوسرے کے یہاں عیسی رسول اللہ)۔ اگر کوئ یہ کہے کہ 'عیسی تو بس عیسی ھے، مسلمان اور عیسائ بلاوجہ دست و گریباں ہیں' تو یقینا وہ ایک غیر علمی بات کرے گا۔ اسی طرح ھیومن کو بھی انسان کہنا اور مسلمان کو بھی انسان کہنا ایسی ہی کنفیوژن کا شکار ھونا ھے، ظاہر ھے وہ انسان جو خود کو خدا کا بندہ اور وہ جو خود کو خدا سمجھتا ھے بھلا کیسے یکساں زندگی (معاشرہ و ریاست) تعمیر کرسکتے ہیں؟
مکمل تحریر >>

اسلامک ماڈرنزم (مغربی اور اسلامی ڈسکورس میں مطابقت پیدا کرنے) کی فکری بنیادیں


یورپ میں جدید الحادی (یعنی تنویری، بشمول سائنسٹفک) ڈسکورس اور عیسائی مذھب کی تاریخی کشمکش یہ بتاتی ھے کہ عیسائیت اس الحاد کے آگے شکست و ریخت کا شکار ھوگئ۔ البتہ جدید مسلم مفکرین نے جدید تنویری الحاد اور مذھب کی اس کشمکش کو 'تنویری فکر بمقابلہ مذھب' کے بجاۓ 'تنویری فکر بمقابلہ عیسائیت' سے تعبیر کرکے 'تنویری فکر اور اسلام کا ملغوبہ' تیار کرنے کا علمی ڈسکورس وضع کیا۔

ان جدید مسلم مفکرین کے دو کلیدی مفروضات ہیں (اولا) عیسائیت چونکہ باطل اور غیر عقلی تھی لہذا اس عقلی تنویری (بشمول سائنٹفک) ڈسکورس کا سامنا نہیں کرسکی (ثانیا) تنویری ڈسکورس کی بنیاد یورپ میں مسلم سپین کے راستے اسلامی علمیت سے اخذ کرکے درآمد کی گئ۔ ان دونوں مفروضات کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام چونکہ حق (عقل و فطرت کے مطابق) ھے لہذا اسے عقلی تنویری ڈسکورس (جو فی الواقع اسلام ہی کا پرتو ھے) سے نہ صرف یہ کہ کوئ خطرہ نہیں بلکہ یہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ھے۔ یہیں سے اسلامک ماڈرنزم (یعنی مغرب اور اسلام میں اصولی مطابقت ھے، تنویری اقدار آزادی مساوات و ترقی اسلام کی عطا کردہ ھیں، سائنٹفک ڈسکورس اسلامی ھے، اسلام ماڈرن تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال سکتا ھے، جدید اداروں کی اسلام کاری کرکے انکے اسلامی متبادل تیار کرنے) کی تحریک کا آغاز ھوتا ھے۔

ظاھر ھے ان جدید مسلم مفکرین کے یہ دونوں ہی مفروضے غلط تھے کیونکہ تنویری ڈسکورس درحقیقت کسی مخصوص مذھب نہیں بلکہ بالذات مذھب کا رد ھے کہ یہ خدا پرستی کے بجاۓ انسان پرستی کی بنیاد پر استوار ھے۔ یقینا عیسائیت کے اس ڈسکورس سے شکست کھاجانے کی ایک وجہ اسکی داخلی کمزوریاں (مثلا شرک پر مبنی ھونا، فقہ کا نہ ھونا وغیرہ) بھی تھیں مگراسکی یہ شکست اس بات کی دلیل نہیں کہ تنویری فکر درست اور حق کا پرتو تھی (ویسے بھی دنیوی غلبہ حق کی دلیل نہیں ھوتا)۔ مسلم مفکرین کی عیسائیت کی اس شکست کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے کی ایک وجہ عیسائیت کی اسلام دشمنی بھی تھی (یعنی چونکہ عیسائیت کو مسلمان اپنے قدیم دشمن کے طور پر دیکھتے آئے تھے لہذا عیسائیت کی اس شکست و ریخت نیز تنویری مفکرین کی طرف سے عیسائیت کے خلاف کئے جانے والے پروپیگنڈے سے متاثر ھونا کوئ عجیب امر نہیں تھا)۔ اسی طرح تنویری ڈسکورس کو اسلام کی عطا قرار دینا شکست خوردہ ذہنیت کے سواء اور کچھ نہ تھا۔

لیکن ہر گزرتا وقت یہ ثابت کرتا جارہا ھے کہ مسلم ماڈرنسٹ حضرات کا تجزیہ غلط تھا کیونکہ تنویری فکر کے ساتھ جس کشمکش کا سامنا آج سے دو سو سال قبل عیسائیت کو درپیش تھا آج اسلام بعینہہ اسی کشمکش کا شکار ھے۔ مسلمان جس قدر اسلامک ماڈرنزم کو اختیار کرتے چلے جارھے ہیں اسلام اسی قدر سیکولرائز ھوکر تنویری ڈسکورس اور اس سے برآمد ھونے والی (لبرل سرمایہ دارانہ) معاشرتی و ریاستی صف بندی میں ضم ھوتا چلا جا رھا ھے۔ جس طرح توحید اور شرک ایک ساتھ جمع نہیں کئے جاسکتے بالکل اسی طرح خداپرستی اور انسان پرستی بھی یکجان نہیں ھوسکتے، ان دونوں میں سے کسی ایک کو لازما مغلوب ھونا ھی پڑے گا۔
مکمل تحریر >>

انیسوی/بیسویں صدی کا کامیاب ترین اجتہاد ۔۔۔۔ علوم اسلامیہ کا تحفظ: علمائے کرام کا ایک حیرت انگیز کارنامہ


جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب سرمایہ دارانہ استعماری ریاست نے خلافت اسلامیہ کے اجتماعی نظم کو تحلیل کردیا، اس موقع پر علماء کرام کے سامنے تین آپشنز تھے (1) استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد برپا کی جاۓ (مگر جنگ آزادی کی ناکامی سے بظاھر اسکا غیر موثر ھونا واضح ھوچکا تھا) (2) استعمار کے ساتھ مصالحت اختیار کرکے اسلام کو اس کے علمی و اجتماعی ڈھانچے کے مطابق ڈھال کر سرمایہ دارانہ نظم میں ضم کرنے کی کوشش کی جاۓ (سرسید کے علی گڑھ نے یہ بیڑا اٹھایا)، (3) ریاستی نظم سے علیحدگی اختیار کرکے علوم اسلامیہ کا تحفظ کیا جاۓ (نیز فرد و معاشرے کی اصلاح اور دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا جاۓ)۔

انیسویں (اور بیسویں صدی) کے مخصوص چیلنجز کے تناظر میں علماۓ کرام نے اس تیسرے آپشن کو اختیار کرنے کا اجتہاد کیا اور کہنا پڑتا ھے کہ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دفاعی جدوجہد برپا کرنے کا سب سے کامیاب ترین اجتہاد تھا۔ اس حکمت عملی کے تحت علماۓ بریلی و دیوبند نے برصغیر پاک و ھند میں مدارس کا ایک ایسا جال بچھایا جس کے نتیجے میں پوری اسلامی علمیت (ڈسکورس) بعینہہ اپنی اصلی تاریخی صورت میں محفوظ کرلی گئ اور بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ ڈسکورس کے خلاف جمع کیا جانے والا یہ سب سے بڑا خیر تھا۔

درحقیقت علماء کی دفاعی جدوجہد کا یہ اجتہاد ہی آج اسلامی تحریکات کو سرمایہ داری کے خلاف اقدامی جدوجہد کرنے کی بنیاد فراھم کرتا ھے۔ ایسے حالات میں کہ جب تمام مذاھب و نظریات زندگی تنویری ڈسکورس کے سامنے بری طرح پٹ چکے ھیں، علماۓ کرام کا اسلامی علمیت کو محفوظ کرلینا ہی اسلام کو وہ بنیاد فراھم کرتا جس کے بلبوتے پر آج اھل اسلام تن تنہا سرمایہ دارانہ (تنویری) ڈسکورس کا ڈٹ کر مقابلہ کررھے ہیں۔ اسی طرح اگر اصلاحی و انقلابی جماعتیں کامیابی سے ہمکنار ھوکر کوئ علاقہ حاصل کربھی لیں لیکن اگر اسلامی علوم ہی محفوظ نہ ھوں تو ریاستی عمل کو شارع کی رضا کے مطابق چلانے اور قائم رکھنے کی سرے سے کوئ بنیاد ہی باقی نہیں رھتی۔ درحقیقت علوم اسلامیہ کے تحفظ و فروغ کے بغیر 'اسلام ریاست' کا تصور ہی بے معنی تصور ھے کیونکہ ریاست تو ھے ہی ایک مخصوص علمیت کی بنا پر فیصلوں کے صدور اور نفاذ کا نام۔ پس اگر اسلامی علمیت ہی معدوم ھوجاۓ تو اسلامی ریاست بھلا کیسے وجود میں آسکتی ھے؟ ایں خیال است محال است۔

چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے تمام گروھوں پر لازم ھے کہ وہ علماۓ کرام کے اس حیرت انگیز حد تک عظیم الشان کارنامے پر جتنا ھوسکے اپنے رب کا شکر بجا لائیں اور عالم اسباب میں اس کارنامے کو معرض وجود میں لانے والے گروہ کی دل سے قدر کریں کہ یہ واقعی ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا جسکی مثال اکیسویں صدی میں سواۓ مسلمانوں کے کوئ دوسرا گروہ پیش کرنے سے قاصر ھے کہ سب کی علمیتیں (اگر کچھ تھیں بھی) یا تو قصہ پارینہ ھوچکیں اور یا پھر سرمایہ دارانہ ڈسکورس میں ضم ھوکر اضمحلال کا شکار ھوگئیں۔ سچ کہا نبی صادق نے 'انبیاء کے ورثاء تو بس علماءہی ھیں'۔
مکمل تحریر >>

مذھب اور الحاد میں فرق ایمان یا غیر ایمان نہیں بلکہ نوعیت ایمان کے ذریعے کا ھے '


میں کون ھوں' کے سوال کا جواب دینا ناگزیر ھے۔ کوئ چاھے یا نہ چاھے، اسے پسند ھو یا نا پسند، خاموش رھے یا چلا کر بولے ہر حال میں اس سوال کا جواب لازما دے کر رھے گا۔ اب اسکا ایک جواب وہ ھے جو انبیائے کرام نے تسلسل کے ساتھ بتایا (اور اس جواب پر انسان اپنے نفس کے اندر بہرحال ایک اثباتی داعیہ بھی محسوس کرتا ھے گوکہ وہ قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھتا) اور دور جدید میں اسکا دوسرا جواب وہ ھے جو چند ملحد سائنس دان اور فلسفی دیتے ہیں۔ یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ان ملحدین کا جواب کسی مجرد، آفاقی یا معروضی عقلیت نہیں بلکہ انکے ماقبل عقل احساسات و خواہشات پر مبنی ھوتا ھے جنکے لئے انکی عقل کوئ جواز پیش نہیں کرسکتی۔ الغرض اس سوال کے جواب میں بہرحال انسانی عقل کو ایمان ہی لانا پڑتا ھے۔ یعنی معاملہ یہ نہیں ھے کہ ایک جگہ تو ایمان ھے اور دوسری جگہ عقل وغیرہ۔ ہرگز نہیں، ان دونوں ڈسکورس میں سے ہر دو میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے معاملہ ایک ہی ھے کہ ان میں سے کس کی بات پر ایمان لایا جاۓ، انبیاء کی یا انسانی خواہشات کی۔ لہذا ملحدین کا یہ اعتراض کہ مذھب اس لئے ڈاگمیٹک ھوتا ھے کیونکہ وہ ایمان کا تقاضا کرتا ھے جبکہ ھم ایمان کی بجاۓ عقل کی بات کرتے ہیں فریب کاری اور نا سمجھی کے سواء اور کچھ نہیں۔
مکمل تحریر >>

کیا اسلاف کی تشریح اسلام پر عمل کرنا ازروۓ قرآن بری بات ھے؟


متجددین کے سامنے جب کبھی اسلام کی تاریخی تعبیر و تشریح کی اہمیت کی بات کی جاۓ تو جھٹ سے کہتے ہیں: ''تم جیسے روایت پرستوں کا سب سے بڑا مسئلہ اور المیہ یہی ھوتا ھے کہ اسلاف کے دماغوں سے ھٹ کر نہیں سوچتے۔ یہ وھی استدلال ھے جو ازروۓ قرآن ھر دور کے کفار نے استعمال کیا ھے کہ ھم اپنے باپ دادا کے دین کو کیسے چھوڑ دیں۔''

ان خودساختہ مفسرین قرآن (جن میں سے اکثریت کو عربی تک نہیں آتی محض ترجموں پر گزارا کرتے ہیں) کا مفروضہ یہ ھے کہ اسلاف کی پیروی ہرحال میں بری شے ھے۔ سوال یہ ھے کہ اگر باپ دادا حق پر ھوں کیا تب بھی ازروۓ قرآن انکی پیروی بری چیز ھے؟ اگر ھاں تو اسکی دلیل قرآن سے ھونی چاہئے۔ قرآن تو یہ بتاتا ھے کہ باپ دادا اگر حق پر ھوں تو انکی پیروی بذات خود مطلوب و مستحسن ھے۔ دیکھیے منعمین کے راستے پر چلتے رھنے کی دعا خدا نے خود سورہ فاتحہ میں سکھائ، اسی طرح جب حضرت یعقوب علیہ السلام کی رحلت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو بیٹوں نے جواب دیا کہ آپ کے الہ، آپکے والدین ابراھیم، اسماعیل و اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے (بقرہ: 133)۔ یہ جواب سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام بالکل مطمین ہوگئے، ان متجددین کی طرح اپنے بیٹوں سے یہ نہیں کہا ''تم جیسے روایت پرستوں کا سب سے بڑا مسئلہ اور المیہ یہی ھوتا ھے کہ اسلاف کے دماغوں سے ھٹ کر نہیں سوچتے ۔ یہ وھی استدلال ھے جو ھر دور کے کفار نے استعمال کیا ھے کہ ھم اپنے باپ دادا کے دین کو کیسے چھوڑ دیں''۔ درحقیقت جو قرآنی آیات حق کا انکار کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئ یہ لوگ انہیں حق کی پیروی کرنے والوں پر چسپاں کرنے کی سنگین غلطی کرکے ظلم کا ارتکاب کرتے ھیں۔
مکمل تحریر >>

معروضیت کا منبع: صرف اور صرف تعلیمات انبیاء


معروضیت کا مطلب نیوٹرل (غیر اقداری) ھوجانا نہیں بلکہ چند مخصوص اقدار کو فطری، بدیہی و عقلی فرض کرنا ھوتا ھے اور بس۔ معروضیت کا تصور ایک مخصوص تاریخی علمی تناظر سے برآمد اور متیعن ھوتا ھے، جو قدر ایک تاریخی تناظر میں معروضی سمجھی جاتی ھے دوسری میں موضوعی دکھائ دینے لگتی ھے ((متجددین جو اسلام کی تاریخی تفہیم کو رد کرکے معروضی تفہیم وضع کرنے کی بات کرتے ہیں وہ درحقیقت اسلام کو اسکی اپنی تاریخ سے کاٹ کر ایک اجنبی تاریخ میں ایلین بناکر سمونے کی دعوت دیتے ھیں))۔

اگر یہ سوال اٹھایا جاۓ کہ معروضیت کا درست پیمانہ کیا ھے، تو اسکا جواب یہ ھے کہ معروضی علم کا منبع وہی ھوسکتا ھے جو ''ازخود حقیقت'' ھے، اور وہ ہستی صرف خدا کی ہستی ھے، لہذا معروضیت کا درست تاریخی تناظر صرف یہ ھے کہ انسان کائنات اور خود اپنی ذات پر غور کیلئے انبیاء کا تاریخی تناظر اپناۓ کہ اسکے علاوہ تمام (مثلا سائنس و سوشل سائنس کے) تناظر موضوعی (انسان کے خود ساختہ) تناظر ہیں جو کبھی انسان کو معروضی علم فراہم نہیں کرسکتے۔
مکمل تحریر >>

فرقہ واریت کون پھیلاتا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرقہ واریت کا اصل مصداق راسخ العقیدہ کلامی مذھبی گروہ نہیں بلکہ ماڈرنسٹ ہیں


ہمارے یہاں فرقہ واریت سے مراد عام طور پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث وغیرہ قسم کے گروہ لیے جاتے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ جب کبھی کسی ٹی وی اینکر پرسن نے فرقہ واریت پر پروگرام کرنا ھو تو مختلف کلامی مکاتب فکر کے علماء کو بٹھا لیتے ھیں تاکہ عوام انہیں اختلاف اور لڑائ کرتا دیکھ کر ان سے برگشتہ ھو نیز مذھب پسبند لوگ شرمندہ ھوں۔

درحقیقت درج بالا قسم کے کلامی گروہ اصل فرقے نہیں بلکہ مسلمان معاشروں میں فرقہ بندی کرنے والے اصل گروہ ماڈرنسٹ لوگ ھیں جو یا تو سرے سے اسلام کے اجتماعی نظم کے منکر ھوتے ھیں (مثلا سیکولر)، یا پھر اسلام کو مغربی نظریات میں سمودیتے ہیں (جیسے مسلم سوشلسٹ)، یا اسلاف کے فہم اسلام کو غلط قرار دیکر ایسی تشریحات دین پیش کرتے ہیں جنکا حاصل اسلام کو حاضر و موجود سرمایہ دارانہ نظم میں سمو دینا ھوتا ھے (جیسے وحیدالدین خان یا غامدی صاحب) اور یا پھر قوم اور وطن پرستی کی دعوت دینے والی لادین سیاسی پارٹیاں۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کے اصل مصداق یہ گروہ ھیں نہ کہ مذھبی کلامی گروہ جنہیں یہ ماڈرنسٹ لوگ بڑی چابکدستی سے اس کا اصل مصداق قرار دیکر اپنے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ھیں کہ ھم تو امت کے خیرخواہ ہیں بس یہ مولوی لڑائ ڈلواتے ھیں۔
مکمل تحریر >>

ماڈرنسٹ مفکرین سے کون متاثر ھوتا ھے؟


ماڈرنسٹ مسلم مفکرین سے لوگ بالعموم تین وجوھات کی بنا پر متاثر ھوتے ہیں:

1) مولوی بیزاریت: ایسے لوگ راسخ العقیدہ اسلام کو چند سٹیریو ٹائپ قسم کے نظریات کی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ اسلام کی راسخ العقیدہ تعبیر و تشریح سے یہ نامکمل واقف یا بالکل ناواقف ھوتے ہیں، انہیں جدید مسلم مفکرین کی بات صرف اس لئے اچھی لگتی ھے کہ یہ مولوی نہیں ھوتے (انہیں ان متجددین کی بات بھی پوری طرح معلوم نہیں ھوتی جنکی یہ تقلید کرتے ھیں)۔ اس طبقے کا بنیادی مطمع نظر یہ سوال ھوتا ھے: ''یہ بات کہیں مولوی نے تو نہیں کہی؟'' (یعنی مولوی نے کہی تو غلط ھے)۔ انہیں آپ 'مولوی بیزار' کہہ لیجئے (اس بیزاری کی بہت سی وجوھات ھوتی ہیں، مثلا ماڈرن و منفرد بننے کا بھوت سوار ھونا، مغرب سے بے انتہا متاثر ھونا، مغربی علوم کا دل و جان میں سرائیت کر جانا وغیرہ)
2) وصال مغرب بمع مذھب: ایسے لوگ مغرب سے انتہائ متاثر ھوتے ہیں اور شدید خواھش رکھتے ہیں کہ کسی طرح اسلام انہیں وہ سب فراھم کردے جو مغرب کے پاس ھے۔ چونکہ راسخ العقیدہ اسلام انکی اس طلب کی راہ میں رکاوٹ بنتا ھے لہذا یہ اسے ترک کرکے متجددین کا رخ کرتے ھیں جو ایسی تمام بندشوں کا توڑ کرنا خوب جانتے ہیں۔ یہ لوگ مغربی فکر و فلسفے سے نامکمل واقفیت (یا بالکل ناواقفیت) کا شکار ھوتے ھیں، البتہ چند مغربی علوم کے سند یافتہ ھوتے ھیں۔ یہ طبقہ نفسیاتی و فکری طور پر اسلام سے قطع تعلق بھی نہیں کرنا چاھتا مگر خواھشات نفس کا بھی خوگر ھوتا ھے۔ انہیں متجددین کی بات اس لئے بھاتی ھے کہ ایسے مفکرین انکے یہ دونوں ہی مسئلے حل کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ کلامی مذہبی گروھوں کے آپسی متشددانہ رویے سے بھی شاکی ھوتے ہیں۔ متجددین کے پیروکاروں کی غالب اکثریت کا تعلق اسی قسم سے ھے (انکا بنیادی سوال یہ ھوتا ھے: ''جدید تہذیب کے تمام مظاہر تو ہمیں چاہئیں، بتائیے اسلام کا کیا کریں؟'')
3) اسلام اور مغرب کے درمیان جاری کشمکش کا حل نکالنے کی خواہش و کوشش: یہ لوگ بالعموم سنجیدہ اور پڑھے لکھے ھوتے ہیں (بلکہ کئی ایک دینی تعلیم یافتہ بھی ھوتے ہیں)۔ یہ اسلام اور مغرب کے درمیان ایک 'فکری پل' تعمیر کرنے کے خوہشمند ھوتے ہیں، مگر چونکہ بالعموم یہ مغربی فکر سے گہری واقفیت نہیں رکھتے لہذا اس شوق کو پورا کرتے کرتے اسلام کو مغرب میں یا مغرب کو اسلام میں تلاش کرنے لگتے ھیں اور یوں یا تو خود آزاد محقق نما متجدد بن جاتے ھیں اور یا پھر اپنے سے ذہین کسی متجدد کے ہتھے چڑھ جاتے ھیں۔ ان کا بنیادی سوال یہ ھوتا ھے: ''موجودہ حالات میں اسلام کی ایسی تفہیم کیا ھوگی جو حاضروموجود تناظر میں قابل قبول و عمل ھو؟'' نتائج کے اعتبار سے یہ تیسرے قسم کے لوگ سب سے زیادہ خطرناک ھوتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

کیا غیر جانبداریت (تعصبات سے بالاتر ھونا) ممکن ھے؟


آج کل اپنی بات وزنی بنانے کیلئے چند الفاظ کا استعمال بے دریغ کیا جاتا ھے، مثلا میرا تجزیہ معروضی (objective) ھے، ہمیں اسلاف کو رد کرکے غیر متعصبانہ (یعنی نیوٹرل) روش اختیار کرنی چاھئے، جو بات عقل کے پیمانے پر پورا اترے اسے ہی ماننا چاہئے (گویا عقل کا کوئ ایک ہی آفاقی پیمانہ ھے) وغیرھم۔ اس قسم کے الفاظ ماڈرن و تنویری مفکرین نے اپنے مخصوص جانبدارانہ ایمانیات، نظریات و مفروضات کو پھیلانے کیلئے بے دریغ استعمال کئے (اور سوشل سائنٹسٹ آج بھی لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے انکا استعمال کرتے ہیں)۔ چونکہ ھمارے متجددین بھی ماڈرنزم کے ڈسکورس سے سخت متاثر ھیں لہذا انکے یہاں بھی غیرمتعصبانہ روش کا لفظ کثرت سے پایا جاتا ھے۔ درحقیقت اس کائنات میں غیر متعصب بمعنی غیر جانبدار (خالی الذھن) ھونا ناممکن بلکہ لامتصور تصور ھے کہ انسان ہمیشہ 'ایک پوزیشن کو کسی دوسری پر ترجیح دینے پر مجبور ھے'۔ جب آپ ایک پوزیشن کر رد کرکے کسی دوسری پوزیشن کو (کسی بھی وجہ سے) اختیار کرتے ہیں یا ایک کو دوسری پر فوقیت دیتے ھیں تو یہ بذات خود جانبداریت کا رویہ ھے نہ کہ غیرجانبدار ھوجانے کا۔ الغرض اس کائنات میں انسان کے پاس انتخاب تعصب کرنے یا نہ کرنے کا نہیں بلکہ مخصوص قسم کے تعصبات (ترجیحات) کو جائز سمجھنے یا نہ سمجھنے کا ھے، تعصب تو ناگزیر ھے (prejudices are inevitable, choice is only between legitimate and illegitimate prejudices, not between prejudice and no-prejudice)۔

مثلا ایک مسلمان جب اسلام کو حق کہتا ھے تو یہ اسکا اسلام کی طرف جانبدارانہ رویہ ھے اور وہ اس تعصب (جانبداریت) کو بوجوہ جائز سمجھتا ھے۔ اسکے مقابلے میں ایک ایتھسٹ کا تعصب یہ ھے کہ وہ انسان کو عبد کے بجاۓ آزاد ماننے کی طرف جانبدار ھے مگر اپنی اس 'پوزیشن' کو وہ غیرجانبداریت کےپردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ھے اور مسلمان کو متعصب کہتا ھے مگر فی الحقیقت وہ خود بھی متعصب ھی ھے (ان دونوں میں فرق صرف تعصبات کی نوعیت اور انکی ترجیح کا ھے نا کہ متعصب یا غیر متعصب ھونے کا)۔ جب وہ مسلمان کو کہتا ھے تم اسلام کے تعصب سے باہر آکر سوچو تو وہ اسے کسی نیوٹرل مقام کی طرف نہیں بلکہ کفر کی پوزیشن کی طرف دعوت دے رہا ھوتا ھے کیونکہ اسلام سے باہر نکل جانے کے بعد انسان نیوٹرل نہیں بلکہ کافر ھوجاتا ھے اور کفر بذات خود ایک جانبدارانہ پوزیشن (ترجیح) ھے۔ اسی طرح ایک راسخ العقیدہ مسلمان جب یہ کہتا ھے کہ میرے فہم اسلام کا مصدر وہ فہم اسلام ھے جو ''اسلامی تاریخ کے اندر'' متشکل ھوا تو یہ اسکا اسلامی تاریخ کی طرف جانبداریت کا رویہ ھے اور وہ اس تعصب (ترجیحات کی ترتیب) کو بوجوہ جائز سمجھتا ھے۔ اسکے مقابلے میں ماڈرنسٹ حضرات کے نزدیک غیرمتعصب ھوجانے کا تقاضا یہ ھے کہ تم اپنے اس مخصوص تعصب سے دستبردار ھوکر اسلاف کے فہم اسلام کو رد کردو۔ مگر درحقیقت 'عدم تعصب' کے نام پر انکی یہ دعوت کس نیوٹرل مقام کی طرف نہیں بلکہ اس جانبدارانہ تشریح کی طرف ھوتی ھے جو خود انہوں نے اسلام کو ماڈرنزم کے تقاضوں سے ھم آھنگ ثابت کرنے کیلئے کی ھوتی ھے۔ ظاھر ھے یہ بذات خود ایک متعصبانہ پوزیشن ھوتی ھے۔ لہذا یاد رہنا چاہئے کہ جب یہ ماڈنسٹ غیر متعصب ھوجانے کی دعوت دیتے ہیں تو اسکا مطلب صرف اتنا ھوتا ھے کہ تم اپنے تعصبات کو ناجائز اور ہمارے تعصبات کو جائز سمجھو۔

درحقیقت کسی ایک پوزیشن کو رد کردینے کے بعد انسان نیوٹرل یا غیر متعصب نہیں ھوجاتا بلکہ ایک دوسری پوزیشن میں داخل ھوجاتا ھے، ان دو پوزیشنوں کے درمیان کوئ ایسا خلا متصور نہیں جہاں انسان خالی الذھن ھوجاتا ھو۔ انسان تاریخی و معاشرتی عمل کے مختلف النوع اثرات سے بیک وقت متاثر ھونے پر مجبور ھے۔ جو شخص غیرمتعصب (بمعنی خالی الذھن و غیر جانبدار) ھونے کا دعوی کرتا ھے وہ درحقیقت معاشرے و تاریخ سے ماوراء ھونے کا دعوی کرتا ھے اور یہ محض ایک لغو تصور ھے کیونکہ تاریخ و معاشرے سے کٹے ھوۓ انسان کا تصور ایک لامتصور تصور ھے (people without history is inconceivable idea)۔ اسکا دوسرا پہلو یہ ھے کہ انسانی سوچ کا عمل اور اسکا اظہار زبان (language) کا محتاج ھے اور زبان بذات خود معاشرتی عمل کا نتیجہ ھے لہذا زبان مخصوص نظریات و اقدار کو اپنے اندر سموۓ ھوتی ھے۔ پس اس کائنات میں انتخاب صرف ترتیب ترجیحات کا ھے نہ کہ ترجیح و عدم ترجیح کا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اس دنیا کے تمام نظریات، دعوے اور پوزیشن مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں (یعنی حق کے تمام تصورات مساوی ھیں) تو یہ بذات خود ایک جانبدارانہ پوزیشن و دعوی ھے۔
مکمل تحریر >>

ماڈرنسٹوں کی ایک انوکھی دلیل ۔۔۔۔۔۔ کنٹکسٹ بدلنے سے اطلاق بدل جاتا ھے (2) گذشتہ کے ساتھ پیوست


اپنے تجددانہ افکار کے جواز کیلئے متجددین یہ سنہرا اصول بیان فرماتے ھیں کہ قرآنی الفاظ کا اطلاق کنٹکسٹ (یعنی ماحول) کا مرھون منت ھوتا ھے، اگر کنٹکسٹ بدل جاۓ تو الفاظ کے اطلاقات بدل جاتے ہیں۔ یہ کہتے ھیں کہ اکیسویں صدی میں ساتویں صدی کے اطلاقات کی بات کرنا غیر علمی بات ھے کیونکہ اب کنٹکسٹ تبدیل ھوچکا لہذا اطلاق بدل جانا عقلی تقاضا ھے۔ یہ دلیل درحقیقت اسلاف کے فہم اسلام کو ترک کردینے کا ایک بہانہ ھے۔

مگر ماڈرنسٹوں کی یہ دلیل انکے تضاد عقلی کا شاخسانہ ھے۔ اس دلیل پر ذرا غور کریں، اس دعوے کا تقاضا یہ بات ماننا بھی ھے کہ ''اسلاف کا فہم اسلام بہرحال درست ھونا چاھئے کیونکہ ساتویں صدی کے اطلاقات کی روشنی میں وہی نتیجہ نکلنا چاھئے تھا جو انہوں نے نکالا نیز وہ اس میں حق بجانب بھی تھے''۔ مگر ھم تو دیکھتے ہیں کہ یہ ماڈرنسٹ لوگ اپنے فہمِ قرآن اور لسانِ عرب کی بنیاد پر اسلاف کے فہم اسلام کو سرے سے ہی غلط قرار دیتے ہیں، تبھی تو انکی غلطیاں پکڑتے ہیں۔ مثلا آل غامدی کی مثال لیجئے جو بڑے مزے سے ’فقہاء کو یہ غلطی لگی‘، 'دین کی اس بات کو یوں سمجھنا انکے سوء فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ تھا' وغیرہ جیسے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ان ماڈرنسٹوں کا یہ رویہ صاف بتا رھا ھے کہ انکے نزدیک اسلاف کا فہم اسلام آج کے کنٹکسٹ نہیں بلکہ ساتویں صدی کے کنٹکسٹ میں بھی غلط تھا کہ اگر انکے تئیں یہ غلط نہ ھوتا تو اسکی غلطی نہ پکڑتے۔ یہ بات صاف بتا رہی ھے کہ انکے نزدیک اسلاف کے فہم اسلام کی طرف رجوع کیلئے ’اکیسویں صدی‘ میں ’ساتویں‘ صدی کا ماحول پیدا کرنے کی شرط خود انکے نزدیک بھی غیرضروری اور غیر متعلقہ شرط ھے (کہ انکے نزدیک وہ بات اس وقت بھی اتنی ہی غلط تھی جتنی آج ھے کیونکہ انکے بقول ہم نے یہ بات درست فہم قرآن کے درست اصولوں سے اخذ کی ھے نہ کہ اسکے اطلاقات سے)۔ ماڈرنسٹوں کا یہ کنبہ اکیسویں صدی میں بیٹھ کر ’ساتویں‘ صدی کا کنٹکسٹ خود ساتویں صدی کے لوگوں کیلئے بھی غلط ہی سمجھتا ھے مگر اپنے نظریات کا جواز دینے کیلئے اس قسم کی متضاد دلیلیں وضع کرتا ھے۔ درحقیقت ساتویں اور اکیسویں صدی کے کنٹکسٹ اور اطلاقات کی بات صرف ایک بہانا ھے، اصلا یہ لوگ صرف اکیسویں صدی کے جدیدی کنٹکسٹ میں تیار کی جانے والی ذاتی فہم اسلام ہی کو اسلام کا اصل اطلاق سمجھتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

ماڈرنسٹوں کی ایک انوکھی دلیل ۔۔۔۔۔ کنٹکسٹ بدلنے سے اطلاق بدل جاتا ھے


جناب راشد شاز صاحب انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک متشدد قسم کے ماڈرنسٹ ہیں (جیسا کہ انکی کتاب کے نام ''مسلم ذھن کی تشکیل جدید'' سے ظاھر ھے) اور غامدی صاحب سے بھی متاثر ھیں۔ ذیل کے پوسٹ میں یہ جناب اپنے تجددانہ افکار کے جواز کیلئے یہ سنہرا اصول بیان فرماتے ھیں کہ قرآنی الفاظ کا اطلاق کنٹکسٹ (یعنی ماحول) کا مرھون منت ھوتا ھے، اگر کنٹکسٹ بدل جاۓ تو الفاظ کے اطلاقات بدل جاتے ہیں۔ اس قسم کے استدلال ماڈرنسٹ لوگ اپنے حق میں پیش کرتے رھتے ہیں لہذا اسکا بھی تجزیہ کئے لیتے ہیں (اس پر کئ اعتبار سے گفتگو ھوسکتی ھے مگر یہاں ایک پر فوکس کرتے ھیں)۔

شاز صاحب جیسے دانشوران سے سوال یہ ھے کہ وہ کنٹکسٹ جسے معیار بنا کر الفاظ قرآنی کے اطلاقات بدلتے رھنے کی بات کی جارھی ھے کیا بذات خود اس کنٹکسٹ کو جانچنے کی ضرورت بھی ھوتی ھے یا نہیں؟ یعنی کنٹسکٹ بذات خود ٹھیک ھے یا غلط اسکا فیصلہ کرنے کی ضرورت بھی ھے یا نہیں، یا بس آنکھیں بند کرکے اسکے اندر الفاظ کا اطلاق کرتے چلے جانا چاہئے؟ اب کنٹکسٹ بذات خود تو اپنا جواز بن نہیں سکتا جب تک کہ یہ فرض نہ کرلیا جاۓ کہ 'یہ بہر صورت ٹھیک ھوتا ھے؟' ظاھر ھے یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ھے۔
اب فرض کریں اگر کنٹکسٹ ھی غلط ھو تو اسکے تناظر میں قرآنی الفاظ کے اطلاق بدلنے کی کوشش کا نتیجہ کیا یہ نہیں ھوگا کہ ھم قرآن کو ایک باطل کنٹکسٹ میں پڑھنے کی کوشش کرنے لگیں؟ آج اسلام کے نام پر سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندیوں کے جتنے متبادل تیار کئے جارھے ہیں انکی بنیادی غلطی یہی ھے کہ اس میں کنٹکسٹ کو نظر انداز کرکے الفاظ کے اطلاقات تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ھے۔ چنانچہ مسلم ماڈرنسٹوں کا بنیادی مسئلہ یہی ھے کہ یہ موجودہ (سرمایہ دارانہ) کنٹکسٹ پر کسی قسم کا سوال اٹھانے کے روا نہیں (جسکی بنیادی وجہ انکی اس کنٹکسٹ سے ناواقفیت ھے)، یعنی یہ کنٹکسٹ تو انکے نزدیک بہر حال لامتبدل ھے کہ یہ درست اور غیر اقداری ھے، بس مسئلہ قرآن کو اسکے تناظر میں سمجھنے کا ھے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ھے جسکی بنا پر ھم ان لوگوں کو ماڈرنسٹ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ''جدیدی کنٹکسٹ کے اندر'' اطلاقات قرآنی وضع کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ ایسی ھر کوشش کا حاصل قرآن کے نام پر جدیدیت کا اثبات ھی ھوگا جیسا کہ ان متجددین کی ڑیڑھ سوسال تاریخ بتا رہی ھے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 15, 2013

علم معاشیات ۔۔۔۔۔ جدید انسان کا مذھب (2) [گذشتہ کے ساتھ پیوست]


پچھلی پوسٹ میں علم معاشیات کے ایک بڑے نظرئیے نیوکلاسیکل اکنامکس (یا لبرل سرمایہ داری) کی بابت بتایا گیا کہ اپنی ساخت میں یہ ایک ڈاگمیٹک نظریہ ھے۔ یہاں اسی ضمن میں علم معاشیات کے دوسرے بڑے سیکولر نظرئیے سوشل ازم (یا ریاستی سرمایہ داری) کا مختصر نقشہ دیکھتے ہیں:

--> انسان کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسان قائم بالذات ہستی ھے اور اسکی آزادی کا اظہار فرد کی ذات میں نہیں بلکہ ایک مخصوص نوع یا گروہ (کلاس) میں ھوتا ھے

--> انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت کا بنیادی مسئلہ طبقاتی کشمکش ھے جسکا مقصد استحصال کو ممکن بنانا ھے۔ اس کشمکش کی بنیاد ذرائع کی قلت (scarcity) ھے، اس قلت کی وجہ سے لوگ ہمیشہ سے زیادہ سے زیادہ ذرائع پر قبضہ کرنے پر مجبور رھے ہیں اور اس کوشش میں انسانیت دو طبقات میں تقسیم ھوجاتی ھے، ایک طبقہ وہ جو ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ھوجاتا ھے دوسرا وہ جسے یہ پہلا طبقہ اپنے لئے کام کرنے پر مجبور کرکے اسکی پیداوار پر قبضہ کرتا ھے۔ اپنے اس استحصال کو جواز دینے کیلئے یہ استحصالی طبقہ علم، مذھب، ریاست، معاشرت کے نام پر چند نظریات گڑھ لیتا ھے

--> اس مسئلے کا حل کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل scarcity کا خاتمہ ھے (جو ''اصلی گناہ'' کی جڑ ھے)، مگر اسکے لئے طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ضروری ھے جو ذرائع پیدوار کے لامتناہی اضافے کی راہ میں رکاوٹ ھے کیونکہ استحصالی طبقہ سرمائے میں اتنا ہی اضافہ کرتا اور اسے اسطرح تقسیم کرتا ھے جو اسکے ذاتی مفادات کا تحفظ کرے نہ کہ انسانیت کی ترجیحات کا لحاظ رکھے

--> اس حل کا طریقہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس حل کے حصول کیلئے لازم ھے کہ سرمائے کی نجی ملکیت ختم کرکے اجتماعی ملکیت قائم کردی جائے جو زیادہ efficiency کے ساتھ ساتھ equity (قدرے مساویانہ تقسیم سرمایہ) کو بھی ممکن بنائے گی

--> ریاستی یا سیاسی پالیسی پیکج کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ضروری ھے کہ:
-- تمام مزدوروں کو ایک (وین گارڈ پارٹی کے) پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے جس کا مقصد موجودہ استحصالی طبقے سے دولت چھین کر اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنا ھوگا
-- اس کیلئے استحصالی طبقے (سوشلسٹ آئیدیالوجی کی 'شیطانی قوت') کے ساتھ جنگ و جدل ناگزیر ھے
-- استحصالی طبقے کا استحصال جوں جوں بڑھتا جائے گا (جو کہ ناگزیر عمل ھے) زیادہ سے زیادہ مزدور اس بغاوت میں شامل ھوتے چلے جائیں گے
-- اس جدوجہد کے نتیجے میں یہ پارٹی کامیاب ھوکر مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ (جو درحقیقت اصل جمہوریت ھوگی کہ انسانیت کی عظیم ترین اکثریت مزدور ھے) یعنی سوشلسٹ ریاست قائم کرے گی
-- یہ ریاست طویل عرصے تک سوشلسٹ تعلیمات کے مطابق ریاستی معاملات کو چلائے گی اور ان پالیسیوں نیز سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے نتیجے میں ذرائع پیدوار (سرمائے) میں لامتناہی اضافے کی بنیاد ڈالے گی

--> انسانیت اس نظام کو کیوں قبول کرے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ سوشلسٹ ریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں جب ذرائع پیداوار میں لامتناہی اضافہ ھوگا تو:
-- انسان scarcity پر ہمیشہ کیلئے قابو پالے گا، یوں انسانیت اس طبقاتی کشمکش کے شکنجے سے آزاد ھوجائے گی
-- تمام قسم کے طبقات (خاندان، مذھب، قومیتں وغیرھم) ختم ھوجائیں گے
-- scarcity اور طبقات کے خاتمے کے نتیجے میں ایک نیا انسان (specie being) اور معاشرہ (کمیونسٹ معاشرہ) دریافت ھوگا جہاں موجودہ اخلاقی قدریں لغو ھوجائیں گی (کیونکہ انکا مقصد استحصالی طبقے کے مفادات کا تحفظ ھے)، ریاست تحلیل ھوجائے گی (کہ اسکا مقصد تو استحصالی طبقے کیلئے جبر کرنا ھوتا ھے اور کمیونسٹ معاشرے میں جبر کی ضرورت ہی نہ ھوگی کہ وہاں طبقہ ہی نہ ھوگا)، چنانچہ وہاں فرد کیلئے جو وہ چاھناچاھے گا چاھنا ممکن ھوسکے گا (یعنی انسان عملا خدا بن جائے گا)

قابل غور بات یہ ھے کہ سیکولرازم کے یہ دونوں ہی بڑے دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ مقصد تو انسان کو قائم بالذات بنانا ھے البتہ فرق طریقے اور لائحہ عمل کا ھے۔ اسی لئے ھم کہتے ہیں کہ سوشل ازم ھو یا لبرل ازم، دونوں ہی سرمایہ داری کی دو مختلف شکلیں ہیں، دونوں کی جڑ ایک ہی کلمہ خبیثہ 'لا الہ الا الانسان' (ھیومن ازم) ھے جو تنویری علمیت (enlightenment) سے نکلنے والا اپنی نوعیت کا ایک نیا الحاد ھے۔
مکمل تحریر >>

روایت پسندوں پر 'اکابر پرستی' کا طعنہ ۔۔۔۔۔۔۔ متجدیدین کا ایک جھانسہ


گروہ متجدیدین اور انکے پیروکاروں کی ایک عمومی جھانسہ دینے کی نوعیت یہ بھی ھوتی ھے کہ دوران گفتگو یہ لوگ تاریخی معتبر اسلام پسندوں پر ''اکابر پرستی'' کا طعنہ کس دیتے ہیں۔ یہ طعنہ کسنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ھوتا ھے کہ 'تم لوگ عقل استعمال نہیں کرتے بلکہ اکابرین کی طرح مکھی پر مکھی مارتے ھو، قرآن نے اس رویے کی مذمت کی ھے وغیرہ وغیرہ'۔ یعنی جو اکابرین کی رائےکو درست سمجھ رھا ھے اور ان سے اختلاف کررھا ھے وہ اکابر پرست اور بے عقل۔

یہ سب راگ الاپتے وقت ان لوگوں کا مفروضہ گویا یہ ھوتا ھے کہ عقل استعمال کرنے کا لازمی مطلب اکابرین کا رد کرنا ھے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جناب اگر کوئی شخص اپنی عقل استعمال کرکے اسی استدلال اور نتیجے کو ٹھیک پائے جو اکابرین نے پیش کیا تو اس میں ایسی برائی کی بات کیا ھے؟ کیا ضروری ھے کہ دنیا میں ہر انسان کی عقل اسی نتیجے پر پہنچے جہاں ان متجددین کی پہنچی؟ کیا لازم ھے کہ ایک معاملے کے تصفیے میں سب کی عقل کو وہی پہلو اپیل کرے جو ان متجددین کی ''جدیدیت ذدہ' عقل کو اپیل کررہا ھے؟ آخر اپنی عقل استعمال کرکے کسی دوسرے کی رائے کو صائب سمجھنا منطق اور عقل کے کس اصول کی خلاف ورزی ھے؟

دراصل دوسروں کیلئے اکابر پرستی اور اپنے لئے عقل کا راگ الاپنے والے ان لوگوں کے کہنے کا اصل مطلب یہ ھوتا ھے کہ ''عقل کا پیمانہ 'میری عقل' ھے اور جو میری بات نہیں مان رہا وہ بے عقل ھے۔'' مگر انہیں یاد رکھنا چاھئے کہ جس طرح یہ دوسروں پر اس بنیاد پر اکابر پرستی اور بے عقلی کی پھبتی کستے ہیں کہ وہ انکی مخصوص عقل سے برآمد ھونے والے نتیجوں کو نہیں مان رھے بالکل اسی پیمانے پر یہ متجددین بھی اکابر پرستی اور بے عقلی کے فتوے کی زد میں ھوتے ہیں (ظاھر ھے یہ بھی تو لاکھوں لوگوں کی عقل سے برآمد ھونے والے ایک استدلال اور نتیجے سے اختلاف کررھے ھوتے ہیں اور اکثر و بیشتر کسی دوسرے متجدد کی رائے کو بہتر سمجھ رھے ھوتے ہیں تو اس لحاظ سے یہ زیادہ بڑے بے عقل ھوئے)۔

ان عقل کی مالا جپنے والوں کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ جوہری عقل (substantive reason) تو بذات خود کسی ریفرینس پوائنٹ سے ڈیفائن ھورہی ھوتی ھے اور اگر ریفرنس پوائنٹ بدل جائے تو یہ مختلف نتیجے برآمد کرنے لگتی ھے۔ تو انہیں اپنی 'جدیدیت ذدہ' عقل پر اتنا ناز کیوں ھوتا ھے؟
مکمل تحریر >>

Monday, October 14, 2013

علم معاشیات کا تصور مارکیٹ


مارکیٹ کا مفہوم بالمعوم place where exchange of goods and services takes place (خرید و فروخت کا مقام) لیا جاتا ھے، مگر یہ اسکی درست اور واضح (essential) تعبیر نہیں اور اسی غلط تعبیر کی بنا پر بہت سی غلط فہمیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مارکیٹ کی اس تعبیر کی بنا پر صرف 'دکانوں کے مجموعے کی جگہ' (collection of shops) کو ہی مارکیٹ سمجھا جاتا ھے ('میں مارکیٹ جا رہا ھوں' کا جملہ دکانوں والی جگہ جاتے وقت بولا جاتا ھے، مگر ہسپتال، سکول، کالج، یونیورسٹی ڈاکٹر کے کلینک، بس و ٹیکسی کی سواری، کھانے پینے کے ریسٹورینٹس، این جی اوز وغیرھم کو 'مارکیٹ جانا' نہیں سمجھا جاتا)۔ مگر فی الحقیقت یہ تمام مارکیٹ نظم ہی کے اظہار ہیں کہ یہاں بھی اشیاءوخدمات کی لین دین ھوتی ھے۔

تصور مارکیٹ کی درست تفہیم کیلئے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ھے:
1) مارکیٹ کسی مخصوص جگہ نہیں بلکہ مخصوص قسم کے تعلقات (web of relationships) کا نام ھے (جیسے 'خاندان' تعلقات کے تانے بانے کا نام ھے)۔ مارکیٹ ان تعلقات کو کہتےہیں جو ''لین دین'' کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ مگر صرف اتنی ہی بات کافی نہیں کیونکہ اس اعتبار سے تو 'خاندان' بھی مارکیٹ نظر آنے لگے گا
2) مارکیٹ کے لین دین پر مبنی یہ تعلقات ''ذاتی اغراض'' (self-interested) کی عقلیت کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ ذاتی غرض کی یہ ذہنیت محبت و ایثار کی نفی ھے، انہی معنی میں خاندان، مذہبی گروہ و روایتی بازار مارکیٹ نہیں کہ یہ اجتماعیتیں ذاتی اغراض کی ذہنیت نہیں بلکہ محبت،صلہ رحمی، ایثار و مروت کی بنیاد پر قائم ھوتے ہیں۔

درحقیقت مارکیٹ اس معاشرت کا نام ھے جو محض ذاتی اغراض کی تکمیل کیلئے وجود میں آنے والے تعلقات کے تانے بانوں سے وقوع پزیر ھوتی ھے (market is web of relationships based on the rationality of self-interestedness)۔ ایسی معاشرت کو سول سوسائٹی بھی کہتے ہیں جو اپنی نوعیت میں بالکل جداگانہ قسم اور روایتی مذہبی معاشرت کی نفی کا نام ھے۔ درحقیقت جدید معاشرت جس میں ھم سانس لے رھے ہیں اسکا غالب ترین حصہ اسی نوع کے مارکیٹ تعلقات پر مبنی ھے۔
مکمل تحریر >>

علم معاشیات ۔۔۔۔۔ جدید انسان کا مذھب (1)


جدیدیت ذدہ انسان یہ دم بھرتا ھے کہ اس نے مذھب کو اسکی 'ڈاگمیٹزم'' کی وجہ سے ترک کرکے اجتماعی زندگی کی بنیاد ''سائنس'' پر استوار کرلی ھے جو نہ تو مذھب کی طرح ڈاگمیٹک ھے اور نہ ہی جابرانہ۔ مگر اسکا یہ دعوی محض لفاظی ھے کیونکہ جدید اجتماعی زندگی جن سوشل سائنسز پر استوار ھوئی ھے وہ علوم اپنی ساخت و عملی رویے میں ہر چند مذھب سے مختلف نہیں۔ ان سماجی سائنسز میں سے جس سوشل سائنس نے موجودہ معاشرتی و ریاستی صف بندی پر سب سے گہرے اثرات قائم کئے ہیں وہ معاشیات ھے جسکے تمام نظریات و سکول آف تھاٹس مذھب کی مانند ھیں۔ چنانچہ یہ نظریات مذھب کی طرح انسانیت کی بابت ایک حتمی تصور حقیقت، چند مخصوص اخلاقی تصورات، انسانیت کے چند مخصوص مسائل اور انکے حل کیلئے مخصوص تعلیمات و لائحہ عمل (پالیسی پیکج) اور ان پر عمل پیرا ھونے والے گروہ کیلئے ایک شاندار مستقبل (جنت) اور مخالفین کیلئے بھیانک انجام کا وعدہ کرتی ہیں۔

مثلا لبرل یا نیوکلاسیکل نظریہ معاشیات کو لیجئے۔ یہ نظریہ کہتا ھے:
--> انسان کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسان ایک قائم بالذات خود غرض ہستی ھے جو اپنی آزادی میں اضافہ چاھتی ھے

--> انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیاھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت کا بینادی مسئلہ خواہشات کی لامتناہی کثرت اور ذرائع کی لازمی محدودیت کی وجہ سے پیدا ھونے والی ذرائع کی قلت (scarcity) ھے

--> اس مسئلے کا حل کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل efficiency یعنی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرکے بڑھوتری سرمائے کی جدوجہد کرنا ھے

--> اس حل کے حصول کا طریقہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا طریقہ یہ ھے کہ فرد کو مارکیٹ نظم کے تابع کردو جہاں ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرے کہ وہ اپنی کن خواہشات کی تکمیل کیلئے اپنی صلاحیتوں کو حصول سرمایہ کیلئے استعمال کرنا چاھتا ھے۔ لبرل ماہرین معاشیات کا ماننا ھے کہ مکمل مسابقت (perfect competition) پر مبنی مارکیٹ نظم efficiency کا خودبخود ممکنہ حدتک زیادہ سے زیادہ حصول ممکن بنادیتا ھے کیونکہ جب ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کیلئے سرمائے میں اضافے کی جدوجہد کرے گا تب مجموعی سرمائے میں سب سے زیادہ اضافہ ھوگا

--> ریاستی پالیسی پیکج کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ضروری ھے کہ:
-- دنیا کے تمام معاشروں کو مارکیٹ نظم قبول کرنے پر مجبور کیا جائے
-- اسکے لئے لبرل سرمایہ دارانہ ریاست کا قیام از بس لازم ھے (کہ اسکے بغیر مارکیٹ کا قیام، استحکام، بقا و فروغ ناممکن ھے)۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں مقامی (نیشن سٹیٹ کی) سطح پر لبرل سرمایہ دارانہ لا اینڈ آرڈر (ھیومن رائٹس فریم ورک) مسلط کرکے معاشروں کو مارکیٹ نظم کے تابع کریں گی
-- جو کام مارکیٹ نہیں کرسکتی وہ تمام کام یہ سرانجام دیں گی (مثلا پبلک گڈز کی فراہمی وغیرہ)
-- پرائیویٹائزیشن، ڈی ریگولیشن، لبرلائزیشن وغیرھم کے ذریعے ذرائع پیداوار اور بڑھوتری سرمائے کے نظام پر کارپوریشنز کے عالمی تسلط کو ممکن بنا کر گلوبلائزیشن کی راہ ہموار کریں گی
-- مقامی سطح پر ایسی قوتوں کی بیخ کنی کریں گی جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ ھوں
-- سرمایہ دارانہ علوم (سائنس و سوشل سائنسز) کو فروغ دیں گی
-- ان تمام سرمایہ دارانہ ریاستوں کے اوپر اس نظام کا سربراہ (hegemon) اور چند عالمی نگران ادارے ھونے چاھئے جن کی ذمہ داری اس عالمی نظام کی حفاظت، ریگولیشن و فروغ اور ایسی مخالف قوتیں جنکی بیخ کنی کرنے کی صلاحیت ان لوکل سرمایہ دارانہ ریاستوں میں نہ ھو انکی بیخ کنی کرنا ھوگی (موجودہ دور میں لبرل سرمایہ داری کا یہ ہیجمن امریکہ ھے اور نگران عالمی اداروں کی مثالیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ ہیں)

--> انسانیت اس نظم کو کیوں اختیار کرے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ پوری دنیا پر مارکیٹ نظم کے تسلط کے نتیجے میں efficiency سب سے زیادہ ھوگی اور بالآخر فرد کیلئے جو وہ چاھنا چاھے گا چا ھنا اور حاصل کرنا ممکن ھوگا، یعنی وہ آزاد (قائم بالذات) ھوجائے گا

کچھ ایسا ہی نقشہ علم معاشیات کے دوسرے بڑے سکول آف تھاٹ سوشلزم (یعنی ریاستی سرمایہ داری) کا بھی کھینچا جا سکتا ھے۔

بتائیے اس پورے نقشے میں ایسی کونسی بات ھے جسے ''سائنس'' کہہ کر مذھب سے مختلف یا بالاتر ثابت کرنے کی کوشش کی جارھی ھے؟ درحقیقت سوشل سائنسز بالعموم اور اکنامکس بالخصوص جدید انسان کا مذھب ھے جسکی بنیاد پر وہ اپنی ذاتی و اجتماعی زندگی کو بعینہہ اسی طرح مرتب کرتا ھے جس طرح مذہبی شخص مذہبی علمیت کی بنیاد پر اپنی ذاتی و اجتماعی زندگی کو تشکیل دیتا ھے۔ دونوں میں فرق صرف ایمان کے ماخذ کا ھے (ایک کا ماخذ خدا کا ارادہ ھے دوسرے کا خواہشات نفس) نہ کہ ایمان بمقابلہ عقل کا۔

یہاں دو مزید باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی یہ کہ سوشل سائنسز کی بنیاد پر جو معاشرت و ریاست قائم ھوتی ھے وہ مذہبی معاشرت و ریاست کو نیست و نابود کردیتی ھے کیونکہ انکا مقصد سرمایہ دارانہ معاشرت و ریاست کا قیام و فروغ ھے۔ پس جس معاشرت و ریاست کی پالیسی سازی پر ان علوم کا غلبہ ھو انکا 'اسلامی' ھونا محال ھے۔
دوسری بات یہ کہ جو مسلم مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ دورحاضر ''لوگوں کی رائے'' (جمہوری عمل) سے تشکیل پاتا ھے وہ نا وجود رکھنے والی خیالی دنیا میں رھتے ہیں کیونکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں جو لوگوں کی مرضی سے ھوتا ھے (جسکی ایک جھلک درج بالا نقشے میں دیکھی جا سکتی ھے)۔ سرمایہ داری ایک نظام زندگی کا نام ھے اور نظام زندگی میں فیصلے اسکی ''علمیت'' کی بنیاد پر ھوتے ہیں عوام کی رائے سے نہیں۔
مکمل تحریر >>

Saturday, October 12, 2013

ماڈرنسٹ حضرات کے اپنے دفاع کے چند حربوں کا تعاقب


جب کبھی کسی مفکر (سرسید سے لیکر غامدی صاحب اور ان کے علاوہ دیگر تک) کو کہا جاۓ کہ آپ ماڈرنسٹ ھیں تو پلٹ کر کہتے ھیں کہ ''اسلاف سے اختلاف رکھنا کوئ شجر ممنوعہ نہیں اور پھر یہ لوگ اسلاف کے آپسی اختلافات کی مثالیں گنوانے لگیں گے کہ دیکھو فلاں نے فلاں سے اختلاف کیا وغیرہ وغیرہ، لہذا ھم بھی بس یہی کررھے ھیں''۔ اس جواب سے یہ لوگ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا انکا اختلاف بھی ویسا ھی ھے جیسا اسلاف کا آپسی اختلاف۔ مگر انکا ایسا کہنا یا تو انکی چالاکی کا مظہر ھے اور یا پھر ناسمجھی کا (اور یا پھر ان دونوں کا)۔

درحقیقت ماڈرنسٹ کو ماڈرنسٹ اس لئے نہیں کہتے کہ وہ اسلاف سے اختلاف کرتا یا انہیں رد کرتا ھے بلکہ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ یہ اختلاف اور رد ایک خاص مقصد کیلئے کرتا ھے۔ وہ مقصد ھے ''حاضر و موجود (علمی و تہذیبی) تناظر کے اندر اسلام کی قابل قبول و قابل عمل تفہیم وضع کرنا''۔ یہ حاضر و موجود تناظر کہاں سے نکلا؟ یہ نکلا ھے Modernity (جدیدیت) کی اس تحریک سے جو سترھویں اور اٹھاریوں صدی عیسوی مغرب میں مقبول عام ھونا شروع ھوئ اور جس نے خدا پرستی کو رد کرکے انسانیت پرستی کی بنیاد پر انفرادیت، معاشرت و ریاست کی تعمیر و تشکیل کی۔ اس تحریک نے جس نظام زندگی کو وضع کیا اور فروغ دیا اسے 'سرمایہ داری' کہتے ھیں۔ جدیدیت کی اس تحریک کی بنیادی صفت یہ تھی کہ اس نے ماضی کی تمام علمیتوں رد کیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس تحریک سے پہلے انسانی تاریخ میں کسی تہذیب نے 'انسانیت پرستی' (فروغ آزادی بطور قدر) کو قبول نہیں کیا، لہذا ان جدیدی مفکرین کی یہ مجبوری تھی کہ وہ تاریخی علمیتوں کو رد کریں کہ ماضی کی کوئ علمیت انکی مطلوبہ اقدار (آزادی، مساوات و ترقی) اور ادارتی صف بندی کا جواز بیان نہیں کرتی تھیں۔

چنانچہ انیسویں صدی سے لیکر آج تک بہت سے مسلم مفکرین نے اس حاضروموجود تناظر کے اندر تفہیم اسلام وضع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مگر یہاں انکی راہ میں رکاوٹ وہی شے بنی جو جدیدی مفکرین کی راہ میں رکاوٹ تھی، یعنی تاریخی اسلامی علمیت جو ظاھر ھے اس حاضروموجود جدیدتناظر کے اندر (یعنی اسکی اسلام کاری کیلئے) وضع نہیں کی گئی تھی۔ لہذا ہر مسلم متجدد لازما تاریخی اسلامی تشریح کو رد کرنے پر خود کو مجبور پاتا ھے کہ اسکے بغیر وہ ''حاضروموجود جدیدی تناظر کے اندر'' تفہیم اسلام وضع نہیں کرسکتا۔ پس خوب واضح رھے کہ ماڈرنسٹ اس لئے ماڈرنسٹ نہیں کہلاتا کہ وہ اسلاف سے اختلاف کرتا ھے بلکہ اس لئے کہلاتا ھے کہ وہ یہ اختلاف اسلام کو ماڈرنزم (حاضروموجود) کے اندر ضم کرنے کیلئے کرتا ھے۔

اس مقام پر ماڈرنسٹ لوگ کہتے ہیں کہ ''ھم تو یہ نہیں کہتے اور نہ ہی یہ ہماری نیت ھے کہ ھم مغرب کو اسلام یا اسلام کو مغرب کے اندر سمونا چاھتے ہیں، ھم تو بس خالی الذھن اور غیر متعصب ھوکر 'اصل اسلام' کو سمجھنا چاھتے ہیں، اگر ہماری بات اسلاف کے خلاف اور مغربی فکر سے جاملتی ھے تو یہ ھمارے غیرمتعصبانہ تجزئیے کا اتفاقی نتیجہ ھے''۔ مگر یہ کتنا 'حسین اتفاق' ھے جناب جو پچھلے ریڑھ سو سال سے پورے آب و بات اور تسلسل کے ساتھ ہر متجدد کے یہاں رواں دواں ھے کہ ان میں سے جو بھی اسلاف کو رد کرتا ھے اس کے یہاں 'لازما مگر اتفاقی طور پر' اسلام کے دامن سے مغرب ہی کا سورج طلوع ھوتا ھے، ھے نا حسین اتفاق! درحقیقت یہ کوئ اتفاق نہیں بلکہ خالصتا اس اپروچ کا ناگزیر تتمہ ھے جو یہ حضرات فہم اسلام کیلئے اپناتے ہیں، یعنی حاضر و موجود کے اندر تفہیم اسلام کی کوشش۔ ظاہر ھے آپ جس فریم ورک کے اندر کسی شے کو سمجھیں گے اس فہم سے اسی فریم ورک کا جواز اور اثبات ھوگا نہ کہ اسکا جسے آپ رد کرچکے! پھر 'خالی الذھن اور غیرمتعصب' ھونے کا دعوی بھی لفاظی کے سواء کچھ نہیں کیونکہ اس دنیا میں انسان کبھی غیر متعصب اور خالی الذھن نہیں ھو سکتا، یہ صرف ایک لامتصور تصور (inconceivable idea) ھے۔ اس دنیا میں انسان لازما 'کوئ نا کوئ پوزیشن' لینے پر مجبور ھے۔ تفہیم اسلام کیلئے تاریخی فہم اسلام کو رد کردینے کا مطلب خالی الذھن یا نیوٹرل ھوجانا نہیں ھوتا بلکہ حاضروموجود (یعنی جدیدیت) کی تاریخ کو اپنے فہم کا ریفرنس بنا لینا ھوتا ھے اور بس۔

خلاصہ: ماڈرنسٹ کا وجہ جواز محض اسلاف سے اختلاف کرنا نہیں بلکہ ماڈرن (سرمایہ دارانہ) تناظر کو اسلام میں سمونے کیلئے تفہیم اسلام کی کوشش کرنا ھے۔ اسی لئے ھم کہتے ہیں کہ ماڈرنسٹ مفکرین اسلامی تاریخ میں ایک بالکل نیا فنامینا ھیں کیونکہ بذات خود ماڈرنزم (جسکی اسلام کاری انکا بنیادی ھدف ھوتا ھے) ایک جدید فنامینا ھے۔ لہذا اپنے تجددانہ افکار کو آئمہ سلف کے آپسی اختلافات کےپردے میں چھپانے کی کوشش کرنا یا تو چالاکی ھے اور یا پھر نا سمجھی (اور یا پھر ان دونوں کا مجموعہ)۔ آئمہ کے اختلافات کا مقصد نا تو ماڈرنزم (سرمایہ داری) کو جواز دینا تھا اور نہ ہی انکی فکر سے نتیجتا سرمایہ داری برآمد ھوئ (اور نہ ہی ھو سکتی ھے تب ہی تو یہ متجددین انہیں رد کرتے ھیں)۔ ان ماڈرنسٹوں کے اصل فکری پیشوا معروف ائمہ دین نہیں بلکہ معتزلہ ہیں جنہوں نے بعینہہ انکی طرح ایک غیر (یونانی) علمیت کے اندر فہم اسلام وضع کرنے کی کوشش کی (مگر امام غزالی نے انہیں بری طرح چت کردیا)۔ ماڈرنسٹ اپنی اپروچ میں انہی معتزلہ کے فکری جانشین ھیں (البتہ دونوں کے 'حاضروموجود' کے مباحث و تناظر میں ذرا فرق ھے)۔ اللہ ہمیں حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ
مکمل تحریر >>

ماڈرنسٹوں کا ایک اور دفاعی وار ۔۔۔۔۔ ''کیا قرآن و حدیث مقدم ہیں یا اسلاف کا فہم اسلام؟''


ماڈرنسٹ حضرات کا ایک عمومی وار یہ بھی ھوتا ھے کہ اگر آپ انکے سامنے اسلاف کے فہم اسلام کی بات کریں گے تو جھٹ سے کہیں گے: ''کیا اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟''۔ یہ سوال کچھ یوں پوچھا جاتا ھے گویا تاریخی فہم اسلام اور قرآن و حدیث متضاد چیزیں ہیں نیز تاریخی اسلام رد کردینے کے بعد یہ لوگ نیوٹرل مقام پر برجمان ھوکر قرآن و سنت کا مطالعہ کرکے نتیجے اخذ کررھے ہیں، جبکہ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔ ایسا ہی ایک سوال ان پر بھی داغا جا سکتا ھے: ''کیا تمہارا جدید فہم اسلام مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟'' ان ماڈرنسٹوں کی چالاکی یہ ھے کہ اپنے فہم اسلام (جسکا ریفرنس جدیدی ڈسکورس ھوتا ھے) کو یہ بذات خود قرآن و سنت کے ھم معنی قرار دے رھے ھوتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ''ھم قرآن و سنت سے دلیل لا رھے ہیں''، تو جناب کیا روایت پسند لوگ اپنے فہم دین کیلئے ویدا یا گیتا سے دلیل لاتے ہیں؟ ظاھر ھے ہر گروہ قرآن و سنت ہی کے ماخذ ھونے کا دعوی کرتا ھے اس میں ایسی نئ بات کیا ھے؟

درحقیقت ان لوگوں سے گفتگو کا بنیادی اور متعلقہ نکتہ یہ نہیں کہ ''آپکے دین کا ماخذ کیا ھے'' (ظاہر بات ھے ہر گروہ یہی دعوی کرتا ھے کہ اسکا ماخذ قرآن و حدیث ھے) بلکہ یہ ھے کہ ''آپکے ماخذات دین کے فہم کا ماخذ کیا ھے؟'' (یعنی آپ فہم دین کو کس اصول، روایت اور پیراڈئیم سے اخذ کرتے ہیں؟)۔ موجودہ دنیا میں اسکی دو غالب پیراڈائمز ہیں:
(1) تاریخ اسلام کے اندر متشکل پانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ھےکہ دین کی درست تشریح وہ ھے جو 'اسلامی تاریخ کے اندر' وضع کی گئ)
(2) جدیدی ڈسکورس کے اندر وضع کیا جانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ھے کہ درست تعبیر وہ ھے جو 'جدیدیت کے تاریخی تناظر کے اندر' وضع کی جارہی ھے، مگر اس پیرادائیم کے قائلین ھوشیاری کا مظاھرہ کرتے ھوۓ اپنی اس پوزیشن کو بذات خود قرآن و سنت کہہ دیتے ھیں)

ان دو کے علاوہ یہاں کوئ عمومی چوائس نہیں۔ درحقیقت سوال یہ نہیں کہ قرآن و سنت کس کے پاس ھے (ظاہر ھے دونوں ہی اسکا دعوی کررھے ہیں اور اپنے حق میں انہی سے دلائل پیش کررھے ھیں)، اصل مسئلہ یہ ھے کہ قرآن و سنت کا پیش کیا جانے والا فہم کس کا درست ھے؟ یعنی یہاں چوائس صرف پیراڈئیم کی ھے، نہ کہ قرآن و سنت کو ماننے یا نہ ماننے کی۔ لہذا یہ ماڈرنسٹ جب یہ کہتے ہیں کہ ''اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟'' تو اسکا مطلب صرف یہ ھوتا ھے کہ ''اسلاف کے فہم اسلام کو رد کردو کیونکہ وہ جدید تناظر میں قابل عمل نہیں، اور ھمارا فہم اسلام قبول کرلو کہ یہ جدید تناظر کے ساتھ ھم آہنگ ھونے کی وجہ سے درست ھے''۔ درحقیقت ان دونوں کے دعووں کی نوعیت ایک سی ھے، دونوں کا ریفرنس پوائنٹ تاریخی تناظر سے مطابقت ہی ھوتی ھے اس فرق کے ساتھ کہ ماڈرنسٹ کا ریفرنس جدیدیت کی تاریخ سے مطابقت ھوتی ھے جبکہ روایت پسند کی اسلامی تاریخ کے ساتھ ۔ مگر یہ ماڈرنسٹ بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنے نظریات کو 'قرآن و سنت' جبکہ تاریخی فہم اسلام کو 'اسلاف کا فہم' قرار دیکر اپنے نظریات کیلئے بلا وجہ کا تفاخرانہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پس اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے کہ اپنے نظریات کے جواز کیلئے یہ جدیدیت پسند جس سوال کو ''اسلاف کا فہم اسلام بمقابلہ قرآن و حدیث'' کا رنگ دے کر پیش کرتے ھیں درحقیقت اس گفتگو کا اصل عنوان ''اسلامی تاریخ کا فہم اسلام بمقابلہ جدیدی تاریخ کا فہم اسلام'' ھوتا ھے، مگر چند سادہ لوح روایت پسند لوگ انکی اس 'چکربازی' کو سمجھ نہیں پاتے اور نتیجتا گفتگو کے غلط عنوان کے تحت گفتگو کرتے کرتے ان سے مرعوبیت کا شکار ھوجاتے ھیں۔ لہذا یہ ضروری ھوتا ھے کہ سوال کا جواب دینے سے پہلے سوال کی درست نوعیت کو سامنے لایا جاۓ، بصورت دیگر غلط سوال کا جواب دینے کی کوشش میں ایک غلط جواب ہی سامنے آۓ گا۔
مکمل تحریر >>