Saturday, November 23, 2013

اسلام اور تھیوکریسی (ملائیت)


جمہوری نظرئیے کے اثرات کے تحت جدید ذھن کے یہاں گویا یہ ایک ثابت شدہ امر ھے کہ ''اسلام میں ملائیت نہیں'' ۔۔۔۔۔ یعنی 'اسلام میں کسی مذہبی گروہ کی اجارہ داری نہیں، اسلام میں کوئی مذہبی طبقہ فیصلے کرنے کا حقدار نہیں' وغیرہ وغیرہ۔ جمہوریت پسند مفکرین کے اس جملے کے پیچھے یہ مفروضہ ھے گویا جمہوریت میں ''عوام فیصلے کرتے ہیں''، جبکہ یہ مفروضہ نہ صرف غیر علمی بلکہ مضحکہ خیز بھی ھے۔ دنیا کے ''کسی بھی'' نظام حیات میں آج تک عوام نے فیصلے نہیں کئے اور نہ وہ اسکے اھل ھوتے ہیں، فیصلے ہمیشہ ایک ''علمی اشرافیہ'' کرتی ھے جو ایک مخصوص علم کے ماھر ھوتے ہیں، وہ علم جو اس مخصوص نظریہ حیات کی روشنی میں معاشرے و ریاست کی تعمیر ممکن بنانے کا طریقہ وضع کرتی ھے جسکی خاطر ریاست تعمیر کی جاتی ھے۔ چنانچہ تعمیر ریاست و علمیت کے درمیان لازمی تعلق ھے، ایسا اس لئے کہ ریاست نام ھے فیصلوں کے صدور و نفاذ کا، اور بغیر علم فیصلوں کا صدور ہی ناممکن ھے۔

یہی وجہ ھے کہ ایک مذہبی ریاست لازما تھیوکریٹک ریاست ھوتی ھے بالکل اسی طرح جیسے جمہوری ریاست لازما ٹیکنوکریٹک (technocratic) ریاست ہوتی ھے۔ چونکہ جمہوری ریاست سرمائے (یعنی آزادی) میں مہمیز اضافے کیلئے قائم کی جاتی ھے لہذا اس ریاست کے تمام کلیدی پالیسی ساز اداروں مین فیصلہ کن حیثیت سرمایہ دارانہ علوم (سائنس و سوشل سائنس) کے ماہرین کو حاصل ھوتی ھے کہ یہی وہ علمیت ہے جو آزادی / سرمائے کی عملی شکل وضع کرتی ھے۔ فیصلوں کے صدور پر سرمایہ دارانہ علوم کے غلبے کے بغیر ایک جمہوری ریاست کا قیام ناممکن ھے۔ گویا ان علوم کے ماہرین کی حیثیت یہاں وہی ھوتی ھے جو مذہبی ریاست میں ''مولوی'' (دینی علوم کے ماہر) کی ھوتی ھے۔ مذہبی ریاست چونکہ خدا کی چاھت پر عمل کو ممکن بنانے کیلئے قائم کی جاتی ھے لہذا یہاں فیصلوں کی کنجیاں انکے ھاتھ میں ھوتی ہیں جو خدا کی مرضی معلوم کرنے کے اھل ھوتے ہیں۔ عوام ہر دو طرز زندگی میں بہرحال ''تقلید'' ہی کرتے ہیں۔

پس خوب سمجھ لینا چاہئے کہ ایک ریاست جتنی مذہبی ھوگی اتنی ہی تھیوکریٹک بھی ہوگی، اور اسکے برعکس جتنی تھیوکریسی سے دور ہوگی اتنی ہی غیر مذہبی بھی ہوگی۔ ریاست کے تھیوکریٹک نہ ھونے کا مطلب ہی یہ ھے کہ فیصلوں کے صدور کی بنیاد خدا کی رضا نہیں بلکہ کچھ اور ھے۔ بعینہہ یہی تعلق جمہوری ریاست و ٹیکنوکریسی کے درمیان بھی موجود ھے۔ جن مسلم مفکرین نے اسلام اور تھیوکریسی کے اس لازمی تعلق کی نفی کی وہ ریاست اور علمیت کے باہمی تعلق نیز جمہوری ریاست کی حقیقت کو سمجھنے سے بھی قاصر رھے۔

2 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

جناب یہ علمی اشرافیت کی بھی خوب کہی۔بر صغیر میں 80٪ تو قاتل بدمعاش ہی منتخب ہو کر پارلیامنٹ میں جاتے ہیں اور حکومت 20٪ نسلی اشرافیہ چلاتے ہیں ۔افسوس یہ کہ ھمارے ملکوں علمی طور پر اشرف علماء کو کوئ گھاس بھی نہیں ڈالتا!حقیقت یہ ہے کہ نسلی طور اشرف علماء کا راج ہے۔

Anonymous نے لکھا ہے کہ

جناب یہ علمی اشرافیت کی بھی خوب کہی۔بر صغیر میں 80٪ تو قاتل بدمعاش ہی منتخب ہو کر پارلیامنٹ میں جاتے ہیں اور حکومت 20٪ نسلی اشرافیہ چلاتے ہیں ۔افسوس یہ کہ ھمارے ملکوں علمی طور پر اشرف علماء کو کوئ گھاس بھی نہیں ڈالتا!حقیقت یہ ہے کہ نسلی طور اشرف علماء کا راج ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔