Monday, November 25, 2013

متجددین کا فکری المیہ



جو لوگ بڑے طمطراق سے تمام مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہا و صوفیا پر جہالت و کم عقلی کا فیصلہ صادر کرتے ہیں انکا مفروضہ یہ ھے کہ نزول قرآن کے بعد امت میں پہلی مرتبہ یہ حادثہ رونما ھوا کہ اچانک قرآن کہیں سے انکے ھاتھ لگ گیا ھے اور اب یہ انکی ذمہ داری ھے کہ امت کو اسکے اصل مفہوم سے آگاہ کریں۔ گویا ان حضرات کے نمودار ھونے سے قبل قران کہیں طاق نسیان پر پڑا ھوا تھا اور امت آج تک شاید بائیبل یا ویداؤوں سے دین اخذ کرتی نیز انہی پر عمل پیرا رہی ھے۔

یہ عجیب تضاد ھے کہ ایک طرف تو ان حضرات کے خیال میں ''قرآن سمجھنا آسان ھے''، اسکے لئے کسی انسان کے وضع کردہ اصولوں کی تفہیم ضروری نہیں، لیکن دوسری طرف یہ اس بات کے مدعی بھی ہیں کہ قرآن اس قدر مشکل ھے کہ چودہ سو سال تک اسے کوئی سمجھ ہی نہ سکا۔ مزے کی بات یہ کہ پہلوں کے اصول تو انہیں اس لئے قبول نہیں کہ یہ ''انسانوں کے بنائے ھوئے'' ہیں، اسکے بعد ھونا تو یہ چاہئے تھا یہ عقلمند کہیں ''آسمان سے'' نئے اصول لاتے، مگر اسکا کیا کریں کہ پھر یہ لوگ ''چند دوسرے انسانوں (بشمول خود) ہی کے اصولوں'' کی تقلید کروانا چاھتے ہیں۔

حیرت ھے، نجانے خدا نے آخر ایک ایسی کتاب نازل ہی کیوں کی جسے کوئی سمجھ ہی نہ سکتا ھو۔ گویا ایک طرف تو خدا اس بات کا اعلان کرتا ھے کہ اس کتاب کو سمجھانا ہماری ذمہ داری ھے (قیامہ 16-17) لیکن دوسری طرف چپکے سے اس بات کا بندوبست بھی کردیتا ھے کہ کسی کو اسکا مفہوم سمجھ ہی نہ آئے۔ اب یا تو معاذاللہ خدا سے وعدہ خلافی ہوگئی اور یا پھر اس سے غلطی ہوگئی کہ اس نے ایک ایسے ماحول میں اپنا آخری رسول بھیج دیا جہاں اسکی بات سمجھنے، سمجھانے اور اس فہم کی حفاظت کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ ظاھر ھے اس قدر لغو مفروضات پر وہی شخص اپنی فکری عمارت قائم کرسکتا ھے جو عقلی طور پر قلاش ھوچکا ھو۔

4 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

اس تنقید مین وہ دم نہین جوکسی کی راے تبدیل کرسکے

Unknown نے لکھا ہے کہ

اللہ کا قرآن کے بارے میں دعویٰ مطلقاً سچ ہے اور اللہ سے سچی بات کس کی ہو سکتی ہے، حادثہ یہ ہوا کہ قرآن پر روایات کو حاکم بنا دیا گیا

ابو عمرو عبدالرحمن بن محمد اوزاعی کا قول ہے:
الکتاب احوج الی السنة من السنة الی الکتاب
(قرآن حدیث کا محتاج ہے جبکہ حدیث قرآن کی محتاج نہیں)
اور یحیٰ بن کثیر کا قول:
السنة قاضیةعلی الکتاب ولیس الکتاب بقاض علی السنة
( حدیث کو قرآن پہ فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے جبکہ قرآن کو حدیث پہ فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں)

قرآن کے اثر کو روک دینے کے لئے
ہم لوگوں پہ راویوں کا لشکر ٹوٹا

مشہور حنفی امام، ابوالحسن عبید اللہ کرخی(متوفیٰ ۹۵۲) احناف کا موقف یوں بیان کرتے ہیں:
قرآن کی جو آیت اس طریقے کے مخالف ہو جس پر ہمارے اصحاب ہیں، وہ یا تو موؤل ہے یا منسوخ۔
اس کا خدشہ سیدنا عمر فاروقؓ کو پہلے سے ہی تھا
حافظ ابن عبدالبر " جامع بيان العلم وفضله" میں سیّدنا عمرِ فاروق ؓ کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں احادیث نبویؐ کا ایک مجموعہ تالیف کرنے کا ارادہ کیا، اصحاب سے اس کے متعلق مشاورت بھی کی اور مسلسل ایک ماہ استخارہ کرنے کے بعد اس ارادے کو ترک کر دیا، جسکی وجہ یہ بیان کی کہ:
" إِنِّي كُنْتِ أُرِيدُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ ، وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لا أَشُوبُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا "
میں نے ارادہ کیا کہ سنن کو لکھوں، لیکن مجھے تم سے پہلے کی ایک قوم کا خیال آیا جنہوں نے خود کتابیں لکھیں اور ان میں ایسی مگن ہوئیں کہ کتاب اللہ کو ترک کر دیا، اور بخدا میں کبھی کتاب اللہ کو کسی شئے کے ساتھ خلط ملط نہیں کرونگا۔
واقعہ یہ ہے کہ سیّدنا عمرِ فاروق ؓ کا یہ خدشہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوا، اس امّت کے کچھ لوگوں نے بھی اپنے ہاتھوں سے کتابیں لکھیں ، انہیں مثلہ معہ والی روایتِ ضعیفہ کے بل پر وحیء الٰہی قرار دیا گیا ، اور امّت ان کتابوں میں ایسی مگن ہوئی کہ قرآن کو پس پشت ڈال دیا۔ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِندِ اللّهِ (۲:۷۹)

Anonymous نے لکھا ہے کہ

آپ کی بات درست ہے لیکن امت کے علماء کا غالب رحجان یہی ہے ہر قسم کی مشکلات میں مسایل میں قران اور سنت رسول ﷺ مقدم ہے۔ویسے بھی علماے حق اب بھی یہی کر رہے ہیں۔باطل پرست اور موجودہ طاغوتی چوہوں کے بلبلانے سے کیا ہوتا ہے۔بس استقامت اور استعانت کی دعا کرنا چاہیے۔آمین

Anonymous نے لکھا ہے کہ

آپ کی بات درست ہے لیکن امت کے علماء کا غالب رحجان یہی ہے ہر قسم کی مشکلات میں مسایل میں قران اور سنت رسول ﷺ مقدم ہے۔ویسے بھی علماے حق اب بھی یہی کر رہے ہیں۔باطل پرست اور موجودہ طاغوتی چوہوں کے بلبلانے سے کیا ہوتا ہے۔بس استقامت اور استعانت کی دعا کرنا چاہیے۔آمین

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔