Saturday, October 12, 2013

ماڈرنسٹوں کا ایک اور دفاعی وار ۔۔۔۔۔ ''کیا قرآن و حدیث مقدم ہیں یا اسلاف کا فہم اسلام؟''


ماڈرنسٹ حضرات کا ایک عمومی وار یہ بھی ھوتا ھے کہ اگر آپ انکے سامنے اسلاف کے فہم اسلام کی بات کریں گے تو جھٹ سے کہیں گے: ''کیا اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟''۔ یہ سوال کچھ یوں پوچھا جاتا ھے گویا تاریخی فہم اسلام اور قرآن و حدیث متضاد چیزیں ہیں نیز تاریخی اسلام رد کردینے کے بعد یہ لوگ نیوٹرل مقام پر برجمان ھوکر قرآن و سنت کا مطالعہ کرکے نتیجے اخذ کررھے ہیں، جبکہ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔ ایسا ہی ایک سوال ان پر بھی داغا جا سکتا ھے: ''کیا تمہارا جدید فہم اسلام مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟'' ان ماڈرنسٹوں کی چالاکی یہ ھے کہ اپنے فہم اسلام (جسکا ریفرنس جدیدی ڈسکورس ھوتا ھے) کو یہ بذات خود قرآن و سنت کے ھم معنی قرار دے رھے ھوتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ''ھم قرآن و سنت سے دلیل لا رھے ہیں''، تو جناب کیا روایت پسند لوگ اپنے فہم دین کیلئے ویدا یا گیتا سے دلیل لاتے ہیں؟ ظاھر ھے ہر گروہ قرآن و سنت ہی کے ماخذ ھونے کا دعوی کرتا ھے اس میں ایسی نئ بات کیا ھے؟

درحقیقت ان لوگوں سے گفتگو کا بنیادی اور متعلقہ نکتہ یہ نہیں کہ ''آپکے دین کا ماخذ کیا ھے'' (ظاہر بات ھے ہر گروہ یہی دعوی کرتا ھے کہ اسکا ماخذ قرآن و حدیث ھے) بلکہ یہ ھے کہ ''آپکے ماخذات دین کے فہم کا ماخذ کیا ھے؟'' (یعنی آپ فہم دین کو کس اصول، روایت اور پیراڈئیم سے اخذ کرتے ہیں؟)۔ موجودہ دنیا میں اسکی دو غالب پیراڈائمز ہیں:
(1) تاریخ اسلام کے اندر متشکل پانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ھےکہ دین کی درست تشریح وہ ھے جو 'اسلامی تاریخ کے اندر' وضع کی گئ)
(2) جدیدی ڈسکورس کے اندر وضع کیا جانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ھے کہ درست تعبیر وہ ھے جو 'جدیدیت کے تاریخی تناظر کے اندر' وضع کی جارہی ھے، مگر اس پیرادائیم کے قائلین ھوشیاری کا مظاھرہ کرتے ھوۓ اپنی اس پوزیشن کو بذات خود قرآن و سنت کہہ دیتے ھیں)

ان دو کے علاوہ یہاں کوئ عمومی چوائس نہیں۔ درحقیقت سوال یہ نہیں کہ قرآن و سنت کس کے پاس ھے (ظاہر ھے دونوں ہی اسکا دعوی کررھے ہیں اور اپنے حق میں انہی سے دلائل پیش کررھے ھیں)، اصل مسئلہ یہ ھے کہ قرآن و سنت کا پیش کیا جانے والا فہم کس کا درست ھے؟ یعنی یہاں چوائس صرف پیراڈئیم کی ھے، نہ کہ قرآن و سنت کو ماننے یا نہ ماننے کی۔ لہذا یہ ماڈرنسٹ جب یہ کہتے ہیں کہ ''اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟'' تو اسکا مطلب صرف یہ ھوتا ھے کہ ''اسلاف کے فہم اسلام کو رد کردو کیونکہ وہ جدید تناظر میں قابل عمل نہیں، اور ھمارا فہم اسلام قبول کرلو کہ یہ جدید تناظر کے ساتھ ھم آہنگ ھونے کی وجہ سے درست ھے''۔ درحقیقت ان دونوں کے دعووں کی نوعیت ایک سی ھے، دونوں کا ریفرنس پوائنٹ تاریخی تناظر سے مطابقت ہی ھوتی ھے اس فرق کے ساتھ کہ ماڈرنسٹ کا ریفرنس جدیدیت کی تاریخ سے مطابقت ھوتی ھے جبکہ روایت پسند کی اسلامی تاریخ کے ساتھ ۔ مگر یہ ماڈرنسٹ بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنے نظریات کو 'قرآن و سنت' جبکہ تاریخی فہم اسلام کو 'اسلاف کا فہم' قرار دیکر اپنے نظریات کیلئے بلا وجہ کا تفاخرانہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پس اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے کہ اپنے نظریات کے جواز کیلئے یہ جدیدیت پسند جس سوال کو ''اسلاف کا فہم اسلام بمقابلہ قرآن و حدیث'' کا رنگ دے کر پیش کرتے ھیں درحقیقت اس گفتگو کا اصل عنوان ''اسلامی تاریخ کا فہم اسلام بمقابلہ جدیدی تاریخ کا فہم اسلام'' ھوتا ھے، مگر چند سادہ لوح روایت پسند لوگ انکی اس 'چکربازی' کو سمجھ نہیں پاتے اور نتیجتا گفتگو کے غلط عنوان کے تحت گفتگو کرتے کرتے ان سے مرعوبیت کا شکار ھوجاتے ھیں۔ لہذا یہ ضروری ھوتا ھے کہ سوال کا جواب دینے سے پہلے سوال کی درست نوعیت کو سامنے لایا جاۓ، بصورت دیگر غلط سوال کا جواب دینے کی کوشش میں ایک غلط جواب ہی سامنے آۓ گا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔