ایمان
کی بے قدری کے اس دور میں اس متاع عظیم کو ہلکا اور خفیف بتانے کیلئے یہ
عجیب و غریب دلیل پیش کی جاتی ھے کہ ''مورثی ایمان کی کوئی اہمیت نہیں، تم
مسلمان کے گھر پیدا ھوگئے اور بس، اس میں تمہارا کیا کمال، اس میں فخر کی
کیا بات؟''
گویا اگر خدا اپنے کسی بندے پر کوئی خاص عنایت اور
مہربانی کردے تو اس میں شکر کرنے کی بات ہی کیا ھے، ھے ناں! خدا نے کسی کو
آنکھ و کان اور اس جیسی بہت سی نعمتوں سے نوازا اور
کسی کو ان سے محروم رکھا، تو کیا جسے یہ نعمتیں ملیں اس کیلئے یہ شکر و
سپاس کا مقام نہیں؟ اسی طرح اگر خدا کسی کو اھل ایمان کے گھر پیدا کرکے اس
کیلئے قبول ایمان کو سہل بنا کر جنت کا راستہ آسان کردے تو کیا یہ معمولی
بات ھے؟ اگر ایمان کی دولت واقعی اس کائنات کی عظیم ترین نعمت ھے، محمد (ص)
کا امتی و غلام کہلانا واقعی فخر کی بات ھے تو کیا خدا کی طرف سے ان
نعمتوں کا سہل طریقے سے مل جانا سب سے بڑھ کر شکروسپاس کا مقام نہیں؟ تو
اسے ہلکا بتانے کا کیا مطلب؟ یہ تو خوشی منانے (سیلیبریٹ کرنے) کی جاہ ھے۔
1 comments:
بلاشُبہ یہ ایک نعمت ہے لیکن پوری کی پوری امت اسی پر تکیہ کئے ایمان کوTaken for granted لے رہی ہے۔ حالانکہ نبی اکرم صلعم نے بدوؤں کی ایک جماعت کو صاف فرما دیا کہ ایمان کا دعوٰی ابھی سچا نہیں ہے۔
وقالت الاعراب اٰمنّا کُلم تومنوولاکن قولواسلمنا ولمایدخل الایمان فی قلوبکم
قیامت کے دن اس بات پر فیصلہ نہیں ہوگا کہ کوئی مسلمان کے گھر پیدا ہوگیا تھا بلکہ اس سے تو زیادہ کڑی پوچھ گچھ ہوجائے گی اگر اس نے حقیقی ایمان کی طرف پیش رفت نہ کی ہوگی تو۔
موروثی ایمان کو قانونی ایمان کی حیثیت تو حاصل ہے البتہ حقیقی ایمان کے لئے وہ شرائط پوری کرنا ہونگی جو قرآن نے بیان کی ہیں اور صحابہؓ نے جن پر عمل کرکے دکھایا ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔