Wednesday, October 16, 2013

معروضیت کا منبع: صرف اور صرف تعلیمات انبیاء


معروضیت کا مطلب نیوٹرل (غیر اقداری) ھوجانا نہیں بلکہ چند مخصوص اقدار کو فطری، بدیہی و عقلی فرض کرنا ھوتا ھے اور بس۔ معروضیت کا تصور ایک مخصوص تاریخی علمی تناظر سے برآمد اور متیعن ھوتا ھے، جو قدر ایک تاریخی تناظر میں معروضی سمجھی جاتی ھے دوسری میں موضوعی دکھائ دینے لگتی ھے ((متجددین جو اسلام کی تاریخی تفہیم کو رد کرکے معروضی تفہیم وضع کرنے کی بات کرتے ہیں وہ درحقیقت اسلام کو اسکی اپنی تاریخ سے کاٹ کر ایک اجنبی تاریخ میں ایلین بناکر سمونے کی دعوت دیتے ھیں))۔

اگر یہ سوال اٹھایا جاۓ کہ معروضیت کا درست پیمانہ کیا ھے، تو اسکا جواب یہ ھے کہ معروضی علم کا منبع وہی ھوسکتا ھے جو ''ازخود حقیقت'' ھے، اور وہ ہستی صرف خدا کی ہستی ھے، لہذا معروضیت کا درست تاریخی تناظر صرف یہ ھے کہ انسان کائنات اور خود اپنی ذات پر غور کیلئے انبیاء کا تاریخی تناظر اپناۓ کہ اسکے علاوہ تمام (مثلا سائنس و سوشل سائنس کے) تناظر موضوعی (انسان کے خود ساختہ) تناظر ہیں جو کبھی انسان کو معروضی علم فراہم نہیں کرسکتے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔