Saturday, October 12, 2013

ماڈرنسٹ حضرات کے اپنے دفاع کے چند حربوں کا تعاقب


جب کبھی کسی مفکر (سرسید سے لیکر غامدی صاحب اور ان کے علاوہ دیگر تک) کو کہا جاۓ کہ آپ ماڈرنسٹ ھیں تو پلٹ کر کہتے ھیں کہ ''اسلاف سے اختلاف رکھنا کوئ شجر ممنوعہ نہیں اور پھر یہ لوگ اسلاف کے آپسی اختلافات کی مثالیں گنوانے لگیں گے کہ دیکھو فلاں نے فلاں سے اختلاف کیا وغیرہ وغیرہ، لہذا ھم بھی بس یہی کررھے ھیں''۔ اس جواب سے یہ لوگ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا انکا اختلاف بھی ویسا ھی ھے جیسا اسلاف کا آپسی اختلاف۔ مگر انکا ایسا کہنا یا تو انکی چالاکی کا مظہر ھے اور یا پھر ناسمجھی کا (اور یا پھر ان دونوں کا)۔

درحقیقت ماڈرنسٹ کو ماڈرنسٹ اس لئے نہیں کہتے کہ وہ اسلاف سے اختلاف کرتا یا انہیں رد کرتا ھے بلکہ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ یہ اختلاف اور رد ایک خاص مقصد کیلئے کرتا ھے۔ وہ مقصد ھے ''حاضر و موجود (علمی و تہذیبی) تناظر کے اندر اسلام کی قابل قبول و قابل عمل تفہیم وضع کرنا''۔ یہ حاضر و موجود تناظر کہاں سے نکلا؟ یہ نکلا ھے Modernity (جدیدیت) کی اس تحریک سے جو سترھویں اور اٹھاریوں صدی عیسوی مغرب میں مقبول عام ھونا شروع ھوئ اور جس نے خدا پرستی کو رد کرکے انسانیت پرستی کی بنیاد پر انفرادیت، معاشرت و ریاست کی تعمیر و تشکیل کی۔ اس تحریک نے جس نظام زندگی کو وضع کیا اور فروغ دیا اسے 'سرمایہ داری' کہتے ھیں۔ جدیدیت کی اس تحریک کی بنیادی صفت یہ تھی کہ اس نے ماضی کی تمام علمیتوں رد کیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس تحریک سے پہلے انسانی تاریخ میں کسی تہذیب نے 'انسانیت پرستی' (فروغ آزادی بطور قدر) کو قبول نہیں کیا، لہذا ان جدیدی مفکرین کی یہ مجبوری تھی کہ وہ تاریخی علمیتوں کو رد کریں کہ ماضی کی کوئ علمیت انکی مطلوبہ اقدار (آزادی، مساوات و ترقی) اور ادارتی صف بندی کا جواز بیان نہیں کرتی تھیں۔

چنانچہ انیسویں صدی سے لیکر آج تک بہت سے مسلم مفکرین نے اس حاضروموجود تناظر کے اندر تفہیم اسلام وضع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مگر یہاں انکی راہ میں رکاوٹ وہی شے بنی جو جدیدی مفکرین کی راہ میں رکاوٹ تھی، یعنی تاریخی اسلامی علمیت جو ظاھر ھے اس حاضروموجود جدیدتناظر کے اندر (یعنی اسکی اسلام کاری کیلئے) وضع نہیں کی گئی تھی۔ لہذا ہر مسلم متجدد لازما تاریخی اسلامی تشریح کو رد کرنے پر خود کو مجبور پاتا ھے کہ اسکے بغیر وہ ''حاضروموجود جدیدی تناظر کے اندر'' تفہیم اسلام وضع نہیں کرسکتا۔ پس خوب واضح رھے کہ ماڈرنسٹ اس لئے ماڈرنسٹ نہیں کہلاتا کہ وہ اسلاف سے اختلاف کرتا ھے بلکہ اس لئے کہلاتا ھے کہ وہ یہ اختلاف اسلام کو ماڈرنزم (حاضروموجود) کے اندر ضم کرنے کیلئے کرتا ھے۔

اس مقام پر ماڈرنسٹ لوگ کہتے ہیں کہ ''ھم تو یہ نہیں کہتے اور نہ ہی یہ ہماری نیت ھے کہ ھم مغرب کو اسلام یا اسلام کو مغرب کے اندر سمونا چاھتے ہیں، ھم تو بس خالی الذھن اور غیر متعصب ھوکر 'اصل اسلام' کو سمجھنا چاھتے ہیں، اگر ہماری بات اسلاف کے خلاف اور مغربی فکر سے جاملتی ھے تو یہ ھمارے غیرمتعصبانہ تجزئیے کا اتفاقی نتیجہ ھے''۔ مگر یہ کتنا 'حسین اتفاق' ھے جناب جو پچھلے ریڑھ سو سال سے پورے آب و بات اور تسلسل کے ساتھ ہر متجدد کے یہاں رواں دواں ھے کہ ان میں سے جو بھی اسلاف کو رد کرتا ھے اس کے یہاں 'لازما مگر اتفاقی طور پر' اسلام کے دامن سے مغرب ہی کا سورج طلوع ھوتا ھے، ھے نا حسین اتفاق! درحقیقت یہ کوئ اتفاق نہیں بلکہ خالصتا اس اپروچ کا ناگزیر تتمہ ھے جو یہ حضرات فہم اسلام کیلئے اپناتے ہیں، یعنی حاضر و موجود کے اندر تفہیم اسلام کی کوشش۔ ظاہر ھے آپ جس فریم ورک کے اندر کسی شے کو سمجھیں گے اس فہم سے اسی فریم ورک کا جواز اور اثبات ھوگا نہ کہ اسکا جسے آپ رد کرچکے! پھر 'خالی الذھن اور غیرمتعصب' ھونے کا دعوی بھی لفاظی کے سواء کچھ نہیں کیونکہ اس دنیا میں انسان کبھی غیر متعصب اور خالی الذھن نہیں ھو سکتا، یہ صرف ایک لامتصور تصور (inconceivable idea) ھے۔ اس دنیا میں انسان لازما 'کوئ نا کوئ پوزیشن' لینے پر مجبور ھے۔ تفہیم اسلام کیلئے تاریخی فہم اسلام کو رد کردینے کا مطلب خالی الذھن یا نیوٹرل ھوجانا نہیں ھوتا بلکہ حاضروموجود (یعنی جدیدیت) کی تاریخ کو اپنے فہم کا ریفرنس بنا لینا ھوتا ھے اور بس۔

خلاصہ: ماڈرنسٹ کا وجہ جواز محض اسلاف سے اختلاف کرنا نہیں بلکہ ماڈرن (سرمایہ دارانہ) تناظر کو اسلام میں سمونے کیلئے تفہیم اسلام کی کوشش کرنا ھے۔ اسی لئے ھم کہتے ہیں کہ ماڈرنسٹ مفکرین اسلامی تاریخ میں ایک بالکل نیا فنامینا ھیں کیونکہ بذات خود ماڈرنزم (جسکی اسلام کاری انکا بنیادی ھدف ھوتا ھے) ایک جدید فنامینا ھے۔ لہذا اپنے تجددانہ افکار کو آئمہ سلف کے آپسی اختلافات کےپردے میں چھپانے کی کوشش کرنا یا تو چالاکی ھے اور یا پھر نا سمجھی (اور یا پھر ان دونوں کا مجموعہ)۔ آئمہ کے اختلافات کا مقصد نا تو ماڈرنزم (سرمایہ داری) کو جواز دینا تھا اور نہ ہی انکی فکر سے نتیجتا سرمایہ داری برآمد ھوئ (اور نہ ہی ھو سکتی ھے تب ہی تو یہ متجددین انہیں رد کرتے ھیں)۔ ان ماڈرنسٹوں کے اصل فکری پیشوا معروف ائمہ دین نہیں بلکہ معتزلہ ہیں جنہوں نے بعینہہ انکی طرح ایک غیر (یونانی) علمیت کے اندر فہم اسلام وضع کرنے کی کوشش کی (مگر امام غزالی نے انہیں بری طرح چت کردیا)۔ ماڈرنسٹ اپنی اپروچ میں انہی معتزلہ کے فکری جانشین ھیں (البتہ دونوں کے 'حاضروموجود' کے مباحث و تناظر میں ذرا فرق ھے)۔ اللہ ہمیں حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ

1 comments:

Shuaib Asghar نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ تحریر ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔