Saturday, November 2, 2013

سرمایہ داری کے مظالم اور این جی اوز (پروفیشنل خیراتی اداروں) کا باہمی تعلق (2) ۔۔۔۔۔۔۔ ''جدید دور کو بہتر سمجھنے والی ذھنیت'' کا المیہ (پچھلی پوسٹ سے پیوست)



سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ھے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ھوتا چلا جاتا ھے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ھوتا چلا جاتا ھے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ھی یہی ھوتی ھے) وجود میں آجاتا ھے، مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ ((اور اسی طرح 'حقوق کی جدوجہد' (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی، بھانڈ و کنجروں کے حقوق) کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز)) وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام ''فلاحی ادارے'' مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کیلئے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ھورھا ھے تو اسکا مداوا بھی کررہا ھے کوئی) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔

دھیان رھے، برادری و خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کیلئے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ھے۔ مثلا بیمار ھونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ھوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اسکا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کیلئے اسکے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ھوتا ھے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ھوا کرتا ھے)۔ مگر جب فرد اکیلا ھو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اسکا حال ھوتا ھے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اسکی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ھے کہ اسکے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ھے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کرلیتے ہیں کہ 'ادارہ ھے نا، وہ یہ کام کردے گا')۔ بالکل اسی طرح ھم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ھو جہاں ''پروفیشنل'' (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کرد ئیے گئے ھوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ھوتا ھے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ھے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ھوتی ھے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ھوتا ھے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ھے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ھے (جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس 'ترقی یافتہ' نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذھن فریفتہ ھوا چلا جارھا ھے، دین کو جس کے تقاضوں سے ھم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جارھا ھے، وہ نظام جس سے متاثر ھوکر یہ پوری اسلامی تاریخ کو جانچ کر اپنے اسلاف کو قلت تدبر و سوئے فہم کا مصداق سمجھتا ھے، فیا للعجب)

اب غور کیجئے، برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ''محبت و صلہ رحمی کے جذبات'' کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ھے، جبکہ مارکیٹ نظم انکے لئے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ھے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جاسکتی ھے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رھے ھونگے؟ سوچئے کونسا معاشرتی نظم انسانیت کے لئے رحمت ھے اور کونسا لعنت؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ھوچکا۔۔۔۔۔یورپ و امریکہ۔۔۔۔وہاں ایسا ہی ھوتا ھے اور ھمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ھوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ھے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ھیں!۔ یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا جدید ذھن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ھے۔ ذرا سوچئے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ھو، اسکے ماننے والے آج اپنےیہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ھورھے ہیں۔ گویا انکے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ھے۔۔۔۔۔۔یہ مقام عبرت ھے۔

ہمارے یہاں سرکار (ص) کے اس قول 'خیر القرون قرنی' کو محض ایک اخلاقی قضیہ (moral rhetoric) سمجھ لیا گیا ھے، مگر یہ اس حدیث کا کما حقہ ادراک نہیں۔ سرکار (ص) کا دور انفرادیت، معاشرت و ریاست الغرض ہر اعتبار سے بہترین و آئیڈئیل دور ھے۔ مکہ سے ہجرت کے بعد سرکار (ص) نے مدینہ میں اغراض پر مبنی معاشرت نہیں بلکہ مواخات قائم کی، یہ گویا آپکی ''معاشرتی پالیسی'' تھی جسکے ذریعے محبت و صلہ رحمی کی معاشرت کو فروغ دیا گیا۔ یہ کیسی عجیب بات ھے کہ اس نبی کا نام لیوا جدید مسلم ذھن آج محبت و صلہ رحمی کی جڑ کاٹ کر نسب کو مشکوک بنانے والی جدید معاشرت (سول سوسائٹی) کے گن گارھا ھے، اسے خیرالقرون کی طرف مراجعت کے تصور ہی سے وحشت ھوتی ھے (گویا اپنے تئیں یہ کسی نہایت اعلی اخلاقی دور کا باسی ھے جسے ترک کرنے کی بات کرنے والا شخص اسکی 'شرعی زندگی' میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کررھا ھے)۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ اس نظام کے مظالم و نوعیت سے واقف ہی نہیں اور یا پھر اس کا تصور دین ہی تبدیل ھو چکا ھے (جسکا ریفرنس جدیدی ڈسکورس ھے)۔

پھر یہ بھی کیسی عجیب بات ھے کہ اس نظام کے اس قدر مظالم کے باوجود یہ جدید ذھن اسی نظام سے اپنی امیدیں لگائے بیٹھا ھے۔ اسے کہتے ہیں نظام اور ڈسکورس کا جبر۔ جن مفکرین کے خیال میں یہ نظام ظلم نہیں کرتا لہذا اس کے خلاف جہادکی ضرورت نہیں وہ عقلی افلاس کا شکار ہیں۔
مکمل تحریر >>

Sunday, October 27, 2013

سرمایہ داری کے مظالم اور این جی اوز (پروفیشنل خیراتی اداروں) کا باہمی تعلق (1) ۔۔۔۔۔۔۔ دینی طبقوں سے ''پکا پکایا متبادل مانگنے والی ذھنیت'' کا المیہ


موجودہ دور میں نظر آنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی اداروں اور این جی اوز کا مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم سے جنم لینے والے مظالم کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ھے۔ مارکیٹ یا سول سوسائٹی (جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی) اغراض پر مبنی تعلقات کے تانے بانے کا نام ھے، ھیومن رائٹس پر مبنی یہ معاشرت ذات کو لازما اکیلا (individualize) کرتی ھے، اس نظام میں اسکی بقا و کامیابی (حصول سرمایہ) کو اسکی اکیلی ذات کی پیداواری مستعدی (efficiency) کا مرھون منت بناتی ھے۔ نتیجتا وہ تمام لوگ جو ایفیشنٹ نہیں براہ راست اس نظم کا حصہ نہیں بن پاتے، اور یہ معاشرے کا بڑا طبقہ ھوتے ہیں کہ مارکیٹ معاشرے کی قلیل تعداد کو اپنے اندر سموتی ھے (نان لیبر فورس اور بے روزگار افراد کی تعداد برسرروزگارلوگوں سے زیادہ ھوتی ھے)۔ چنانچہ بوڑھے، بچے، لنگڑے لولے اندھے بہرے، یتیم، بیوہ مطلقہ، بے روزگار، (سرمایہ دارانہ علم سے) ناخواندہ، بیمار، پاگل، یہاں تک کہ مردے، الغرض ہر وہ شخص جو اس نظام میں کچھ ''بیچنے کی صلاحیت'' (ability to sell) نہیں رکھتا غیر محفوظ (vulnerable) و بے یارومددگار ھوجاتا ھے۔

یہ سب کہاں جائیں؟ یہاں انکا پرسان حال کون ھے؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ھیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے (professional philanthropic institutions)۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ کونسا نظم انسانیت پر ظلم کرتا ھے۔ اس گفتگو سے سرکار (ص) کا اپنے دور کو 'خیرالقرون' فرما کر اسے آئیڈئیل قرار دینا انشاء اللہ ایک نئے روپ میں جلوہ گر ھوگا۔

چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ھے جن سے یہ امید کی جاتی ھے کہ وہ ان تمام ''بے کار'' (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں 'پاگل' افراد کہ اسکے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن 'کام نہ ھونے' کی کیفیت کا نام ھے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ھوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کیلئے جس قدر ذرائع کی ضرورت ھوتی ھے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ھوتے (ظاھر ھے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ھوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر رقوم اکٹھی کرسکیں)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ھے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رھتا ھے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک دیرینہ تضاد ھے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ھے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ھے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency) ہی کے نام پر۔

آگے بڑھنے سے قبل ذرا سرمایہ داری کی پچھلی دو سو سالہ تاریخ اور حالیہ گلوبلائزیشن کے عمل پر غور تو کیجئے۔ اس نظام کے تحت انسانیت کو آزادی و ترقی کے نام پر ایک ایسے نظام (لبرل سرمایہ داری) کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں نہیں، کروڑوں بھی نہیں بلکہ بلامبالغہ اربوں انسان بھوک، افلاس، بے روزگاری، بیماری و بے یارگی کی مختلف شکلوں کا شکار ھوکر یا تو لقمہ اجل بن چکے اور یا پھر سسک سسک کر سانسیں پوری کررھے ہیں۔ اب ذرا جدید ذھن کی ذھنی حالت پر توجہ کیجئے، ایک طرف یہ ذھن اس قدر حساس واقع ھوا ھے کہ خاندانی نظم کے اندر اگر کسی مرد کے ھاتھوں عورت (خصوصا بیوی) پر ظلم ھوجائے تو یوں سیخ پا ھونے لگتا ھے گویا اس سے بڑا انسانیت کا کوئی ہمدرد ھے ہی نہیں، نیز اس کے دل میں روایتی معاشرت کو ختم کرکے عورت کو مارکیٹ نظام کا حصہ بنا کر آزاد کرنے کا ایسا جذبہ موجزن ھوتا ھے گویا دکھی انسانیت کے درد کا مداوا ہی اسکی زندگی کا مقصد تھا، پھر یہ وھی جدید ذھن ھے جو دینی جماعتوں سے ''پکے پکائے متبادل'' (وہ بھی صرف ذہنی عیاشی و تجزیوں کیلئے) مانگنے کا رسیا بھی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف یہ جدید ذھن حاضروموجود نظام پر یہ سوال اٹھانے کی تکلیف نہیں کرتا کہ ''اے جدیدیت (آزادی، مساوات و ترقی) کے حامیو، جب تمہارے پاس تمام مسائل کا 'حل پیش کرتا' پکاپکایا متبادل موجود نہیں تھا تو تم نے کیونکر پوری دنیا پر اس ظالمانہ و سفاکانہ نظام کو مسلط کیا؟''

یہ اس جدید ذھن کا المیہ ھے کہ اسے دین کی طرف متوجہ ھونے کیلئے تو پورا پورا کام کرتا، وہ بھی موجودہ تقاضوں سے ھم آھنگ، متبادل 'نظر آنا' چاھئے بصورت دیگراس دعوت کے مدعیین کو اپنے تئیں احمق خیال کرکے اس جدوجہد کا حصہ نہ بننے کو اپنی عقلمندی سمجھتا ھے، البتہ حاضروموجود نظام اگر اونا پونا حل ہی پیش کررھا ھو (وہ بھی ایسا جس کا ظلم اسکے مداوے سے کہیں زیادہ ھو) اسکا حصہ بنے رھنے میں اسے کوئی تضاد محسوس نہیں ھوتا، فیاللععجب۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ حاضروموجود سے واقف ہی نہیں اور محض بھیڑچال کا شکار ھے، ھاں سمجھ یہ رھا ھے کہ میں سب سے زیادہ عقل مند ھوں، پوری اسلامی تاریخ کے اسلاف سے بھی زیادہ؛ اور یا پھر اس نظام پر 'ایمان' لاچکا ھے اور ایمان تو ایسا ہی ھوتا ھے، وہ 'پورے، کام کرتے، تیار شدہ متبادل' کا نہیں بلکہ حصول مقصد کیلئے 'جدوجہد' کا تقاضا کرتا ھے۔ کیا بلال (رض) نے رسول اللہ (ص) سے ایمان لاتے وقت یہ تقاضا کیا تھا کہ ''اچھا تو بتائیے آپ کا پیش کردہ نظام کیسا ھوگا، ذرا اسکا مکمل نقشہ تو کھینچو ابھی میرے سامنے تاکہ میں دیکھ لوں آیا واقعی غلاموں کو اس میں کوئی فائدہ میسر آبھی رھا ھے یا نہیں'' (کوئی کہنے والا کہہ سکتا ھے کہ اگر معاذاللہ بلال (رض) یہ سوال پوچھ لیتے تو رسول خدا اسکا جواب شاید نہ دے پاتے کہ ابھی تو پورا قرآن نازل ہی نہ ھوا تھا)۔

(جاری)
مکمل تحریر >>

''جمہوری سیکولر ریاست فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی'' (2) ۔۔۔۔۔۔ سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں



ابتداء یہ واضح کیا گیا کہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی بدترین جابرانہ ریاستوں کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہاں جمہوری سیکولر ریاست کی فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کی علمی بنیادوں کی وضاحت کی جاتی ھے۔

ھیومن رائٹس (آزادی کے) فریم ورک میں 'اخلاق' (قدر) کا سوال ہی غیر متعلقہ ھوجاتا ھے، یہاں صرف 'قانون' ھوتا ھے، لہذا ھیومن رائٹس فریم ورک فرد کی ساری زندگی (بشمول ذاتی و اجتماعی) کو قانون کا موضوع (subject) بنا کر ریاست کی قانونی مداخلت کے شکنجے کا شکار بنا دیتا ھے۔ ایسا اس لئے کہ ھیومن رائٹس فریم ورک میں 'قدر' (اھم و غیر اھم) کا سوال ہی غیر اھم و لایعنی ھوتا ھے، یہاں اصولا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک فرد اپنے حق آزادی (اختیار) کو استعمال کرکے کیا چاھتا یا چاھنا چاھتا ھے۔ یہاں خواھشات کی تمام تر ترجیحات اصولا مساوی اقداری حیثیت رکھتی ہیں (نماز ادا کرنا، غریب کی مدد کرنا، موسیقی سننا، تمام عمر بطخوں کی فلم بناتے رھنا، گھاس کے پتے گننا، بدکاری کرنا وغیرہ سب مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں)۔ چنانچہ اصولا یہاں کوئی خواہش اخلاقیات کا معاملہ نہیں رھتی، بلکہ ہر معاملہ 'حقوق' کا معاملہ ھوتا ھے جسے بذریعہ قانون ریگولیٹ کیا جاتا ھے۔ اگر ریاست کو معلوم ھوجائے کہ فلاں خواہش یا ترجیح 'اصول آزادی' کے خلاف ھے، یہ فورا اسے قانون کے شکنجے میں لے آتی ھے۔

پس ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ جسے ایک مذہبی ریاست اپنی علمیت کی بنیاد پر اخلاق کا دائرہ سمجھ کر اس میں مداخلت نہیں کرتی، ذاتی زندگی کا وہ دائرہ بھی سیکولر ریاست کی قانونی گرفت سے باھر نہیں رھتا (انسانی تاریخ میں اسکی مثال موجود نہیں کہ کسی ریاست نے یہ قانون بنایا ھو کہ فرد کتنے بچے پیدا کرے، انہیں سکول بھیجے، اپنی بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں کیسا رویہ اختیا رکرے وغیرہ)۔ یہی وجہ ھے کہ ایک اسلامی ریاست کے ماتحت زندگی گزارنے والے غیر مسلمین کیلئے سینکڑوں سال بعد بھی اپنی مذہبی شناخت قائم رکھنا ممکن ھوتا ھے مگر جمہوری سیکولر ریاست افراد پر ھیومن رائٹس کا ایک ایسا جابرانہ قانونی فریم ورک مسلط کرتی ھے جسکے بعد ان کی تمام تر روایتی شناختیں تحلیل ھوکر لبرل سرمایہ دارانہ انفرادیت (ھیومن) میں گم ھوجاتی ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ پختہ جمہوری ریاستوں میں تمام مذہبی شناختیں لایعنی و مہمل بن کر رہ گئی ہیں۔

یہ ان مزعومہ مسلم مفکرین و مذہبی سکالرز کیلئے مقام افسوس ھے جو اس بنیاد پر جمہوری ریاست کی حمایت کرتے ہیں گویا یہ کوئی نیوٹرل (غیرجانبدار) ریاست ھوتی ھے، لہذا انکے خیال میں یہاں فرد کو 'خدائی پلان' کے مطابق 'کفروایمان' اختیار کرنے کا مساوی موقع میسر ھوتا ھے (اور پھر قرآنی آیت فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر سے اپنے اس بے معنی تجزئیے کو استدلال سے مزین کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں)۔ ان بیچاروں کو مذہبی ریاست تو متعصب دکھائی دیتی ھے مگر سیکولر ریاست کا کھلا ھوا علمی و عملی جبر انکی آنکھوں سے اوجھل رھتا ھے۔ اسکی وجہ صرف ایک ھے، یہ متجددین (جو اجتہاد کے نام پر دین پر طبع آزمائی کا ذوق رکھتے ہیں) جدید (جاہلی) علمی ڈسکورس سے ہی ناواقف ہیں۔
مکمل تحریر >>

''جمہوری سیکولر ریاست فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی'' (1) ۔۔۔۔۔۔ سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں


سیکولر لوگوں کی پھیلائی ھوئی بہت سی مغالطہ انگیزیوں (جن کا جائزہ پہلی پوسٹس میں لیا جا چکا) میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ''سیکولر ریاست مذہبی ریاست کی طرح فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی، لہذا یہ مذہبی ریاست کی طرح جابرانہ (coercive) نہیں ھوتی۔ پس ریاست کو مذہبی نہیں بلکہ سیکولر بنیاد پر قائم ھونا چاھئے''۔ مگر حقیقت یہ ھے کہ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی جابر ترین ریاستیں ھیں۔ یہ ریاستیں نگرانی (surveillance) کے ایک ایسے جابرانہ نظام کے ذریعے فرد کی زندگی کو گھیرے میں لئے ھوئی ہیں جس کا تصور بھی اگلی ریاستوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ جدید ٹیکنالوجی (موبائیل، انٹرنیٹ وغیرھم) کے ذریعے یہ مرکزیت قائم کرتے کرتے فرد کے فیصلوں پر مختلف الانواع طرق سے اثر انداز ھوتی ہیں۔ مثلا موبائیل ٹیکنالوجی کے ذریعے کون، کب اور کہاں موجود ھے اس پر نظر رکھی جاتی ھے (اب تو شناختی کارڈ میں ہی 'چپ' (chip) لگا دی گئی ھے)، کون، کس سے، کتنی دیر تک اور کیا بات کررھا ھے سب ریاست کی نظر میں ھے، کون کس سے کتنی رقم لیتا اور کسے دیتا ھے بذریعہ بینک ریاست سب جانتی ھے (اور بینکنگ کے علاوہ ٹرانزیکشن کے دیگر طریقے آہستہ آہستہ غیر قانونی قرار دئیے جاتے ہیں کہ وہ ریاست کی نظر میں نہیں ھوتے)، کون شخص کس ویب سائٹ پر آتا جاتا ھے ریاست کو سب معلوم ھے، لائبریری سے کون لوگ کونسی کتب اشو کروارھے ہیں ریاست یہ بھی جانتی ھے۔

الغرض اس نظام میں شعوری طور پر ایسی ٹیکنالوجی ڈیزائن کی جارہی ھے جو مرکزیت (centralization) کو ممکن بنائے۔ اس مرکزیت کے نتیجے میں فرد ریاست کے سامنے کلیتا بے یارو مددگار ھو جاتا ھے۔ جب تک ریاست (sovereign) کو فرد سے خطرہ لاحق نہیں ھوتا وہ اسے کھلا چھوڑے رکھتی ھے، فرد اس جھانسے کا شکار رھتا ھے کہ ''میں آزاد ھوں''، مگر جونہی ریاست کو اس سے خطرہ لاحق ھوتا ھے اسے یوں غائب کردیتی ھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔۔۔۔۔۔۔ اورجدید مسلم ذھن کی برق گرتی ھے تو بچارے 'اسلامی تاریخ کے ملوک' پرکہ 'وہ جبر کیا کرتے تھے، مخالفین کو ٹھکانے لگادیتے تھے' وغیرہ؛ مگر 'جمہوری ریاست' ایسوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ھے یا تو انہیں اسکا اندازہ ہی نہیں اور یا پھر مارے شرم کے اس معاملے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔

جمہوری سیکولر ریاست کے اس جابرانہ اور مداخلتی رویے کی خالص علمی بنیادیں ہیں۔ آزادی کے فریم ورک میں جب ریاست (sovereign) کسی کی آزادی کے تحفظ کا ذمہ لیتی ھے تو اسکا مطلب یہ ھوتا ھے کہ sovereign جب چاھے اسکی آزادی چھین سکتا ھے، یعنی چونکہ وہ آزادی چھین سکتا ھے اسی لیۓ وہ تحفظ دے سکتا ھے ۔جس کی آزادی sovereign کی پھنچ سے باھر ھو اسے وہ تحفظ بھی نہیں دے سکتا۔ اسی لیۓ موجودہ جمھوری ریاستوں میں فرد کی آزادی ایک سراب ھوتا ھے، ریاست جب چاھے اسے چھین لیتی ھے۔ یھاں جس شے کو فرد "اپنی آزادی کا دائرہ" سمجھتا ھے وہ درحقیقت "sovereign کے کنٹرول کا دائرہ" ھوتا ھے۔ وہ لوگ جو اس "sovereign کے دائرہ تحفظ" کو قبول نہ کریں انکی آزادی sovereign کےلیۓ خطرہ ھے (کیونکہ وہ اسکی پھنچ سے باھر ھے) لھذا یہ انہیں اپنے دائرہ تحفظ قبول کرنے کےلیۓ مجبور کرتا ھے،بصورت دیگر انھیں مار دیتا ھے، جیسے کہ موجودہ استعمار کرتاآرھا ھے۔ چنانچہ جمھوری فریم ورک میں آزادی اسی کی محفوظ ھوتی ھے جو اسے sovereign کے سپرد کرنے کےلیے تیار ھو۔

اب طرفہ تماشا دیکئھے، ایک طرف یہ نظام یہ تعلیم و آگہی عام کرتا ھے کہ فرد کی آزادی مقدم ھے، اسکی ذاتی زندگی مقدس ھے، فرد ہی sovereign ھے وغیرہ (علم معاشیات و لبرل ڈیموکریسی کا پورا ڈسکورس ھے ہی یہی)؛ مگر دوسری طرف عملا یہ نظام فرد کو بے یارومددگار کرتا ھے، کلیتا ریاست کے رحم و کرم کا محتاج بناتا ھے، اسکی ذاتی سے ذاتی خواھش پر اثر انداز ھوتا ھے، وہ بھی اخلاقی پریشر کے طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر (اسکی وضاحت بعد میں کی جائے گی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حد تک کہ اسے کتنے بچے پیدا کرنے چائیے، اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرے (انہیں سکول بھیجے، بصورت دیگر سزا یا جرمانہ ھوگا)، اسکے گھر یہاں تک کہ بیڈ روم کے رویے کو بھی قانون کی گرفت میں لاتا ھے (یورپ و امریکہ میں اگر بیوی یہ کہہ دے کہ اسکے شوھر نے اسکی مرضی کے بغیر اسکے ساتھ ہم بستری کی کوشش کی تو ثابت ھونے پر شوھر کو سزا ھوجاتی ھے)۔ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستوں کی اس صورت حال کو دیکھتے ھوئے انفرادی آزادی پسند جمہوری مفکرین بھی تلملا اٹھے ہیں اور انہیں Monster (خوفناک بھوت) قرار دیتے ہیں جن سے گلو خلاصی انہیں ناقابل حصول شے معلوم ھوتی ھے۔

مگر ہمارے یہاں کا جدید مسلم ذھن ھے کہ موجودہ نظام کی پھیلائی ھوئی اس جھوٹی آگہی سے متاثر ھوکر ان ریاستوں پر فدا ھوا چاھتا ھے، اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اسلاف کو بھی کند ذھن سمجھنے لگا ھے کہ وہ اس آگہی کو ان سے یہلے کیوں نہ پاسکے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے قیامت کی علامت نہ کہیں تو اور کیا کہیں!


(جاری)
مکمل تحریر >>

Thursday, October 24, 2013

ایک روح پرور تبدیلی


ایک دور تھا جب مغربی علمیت سے مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے یہاں مسلم ماڈرنزم نے جنم لیا۔ اس فکر نے دعوی کیا کہ آج تک کوئ اسلام کو درست سمجھا ہی نہیں، اصل اسلام وہ ہے جو مغرب برت رہا ہے۔ انہوں نے 'اسلام کی مغرب کاری' کا بیڑا اٹھایا۔ اس فکر سے بہت سے ذہن متاثر ہوۓ (سر سید، چراغ علی، پرویز وغیرہم)۔ لیکن علماء اسکے آگے ڈٹ گۓ اور اسے شکست فاش سے دوچار کیا (آج جاوید احمد غامدی جیسے مفکرین ایک بار پھر اس مردے میں روح پھونکنے میں مصروف ہیں)۔
لیکن مغربی علمیت پر یہ فتح دیر پا ثابت نہ ہوئ اور اب یہ 'مسلم ترمیمیت پسندی (revisionism)' کی صورت میں نمو دار ھوئ۔اس فکر نے دعوی کیا کہ اسلام اور مغرب میں اصولی مماثلت ہیے لہذا مغرب سے ڈائیلاگ (کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاملہ) ہو سکتا ہے۔اس فکر نے کہا کہ مغربی اقدار و ادارے ہماری ہی تاریخ کا تسلسل ہیں (اور یہ ثابت کرنے کیلۓ انہوں نے اسلامی تاریخ کا ایک ایسا revised ورژن تیار کررکھا ہے جو مغرب کو اپنے اندر سمو نے کی کوشش کرتا ہے (اس فکر کی مثالیں اسلامی بینکاری و جمہوریت ہیں)۔اس فکر نے 'مغرب کی اسلام کاری' کی۔مسلم روژنزم ان معنی میں زیادہ خطرناک ثابت ہوئ کہ اس میں علما کرام بھی اچھی خاصی تعداد میں شامل ہوگۓ۔
یہ دونوں دھارے مغرب سے مرعوبیت اور نامکمل واقفیت کی بنا پر پیدا ہوۓ۔ لیکن آج الحمد للہ امت مسلمہ میں ایسے افراد کا اچھا خاصا جتھا پیدا ہوگیا ہے جو مغرب کی آنگ انگ سے واقف ہے، جو اسکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس سے بات کرتے جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ جو پورے شرح صدر کے ساتھ کہتا ہے کہ 'مغرب جاہلیت خالصہ ہے'، اس کے ساتھ ہمارا ڈائیلاگ نھیں بلکہ 'دعوت' (monologue)کا تعلق ہے۔ قرون اولی کی طرف مراجعت کی دعوت دیتے اسے عار محسوس نہیں ہوتی۔
مکمل تحریر >>

اسلام میں غلامی کی ضرورت و پس منظر


اسلام کا (جنگی قیدیوں کے حوالے سے) غلامی کاآپشن نہایت پسندیدہ و عقلی تصور ہے۔ درحقیت اس کے ذریعے اسلام ان مارجنل لوگوں کو اسلامی معاشرے میں سمو دیتا (internalizeکردیتا) ہے، بجاۓ اس سے کہ وہ ہمیشہ marginal اور alien طبقے ہی رہیں۔ یہ اسی انٹرنلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں باقاعدہ سلطنت غلامان قائم ہونے کی نوبت تک آگئی۔چونکہ اسلامی ریاست ایک جہادی (ever expanding) ریاست ہوتی ہے لہذا اس میں غلامی کا یہ آپشن ہمیشہ کیلیے کھلا رکہا گیا اور فقہا نے ایسا ہی سمجھا (کیونکہ وہ اسلامی ریاست کی اس نوعیت سے بخوبی واقف تھے)۔ پھر جن لوگوں نے اسلامی ریاست کو مغربی ریاستوں کے پیمانوں پر 'ویلفئر نیشن سٹیٹ ' اور اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی کے تناظر میں دیکھا انہیں غلامی کے اس تصور سے عار محسوس ہوئ اور اپنی علمی و سیاسی تاریخ کو نظر انداز کرکے اس دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔سوال یہ ہے کہ جن قوموں نے اسے برا سمجہ کر ترک کیا انہوں نے اس طبقے کو سواۓ گوانتانامو جیسی جیلوں کے اور کچھ دیا؟ آخر ایسی قوموں کی علمیت اور عمل سے متاثر ہونے کی وجہ ہی کیا ہے؟ آج جب دنیا اس بات کو مان رہی ہے کہ معاشرتی مسائل حل کرنے کا درست طریقہ انہیں internalize کرنا ہے (مثلا غربت کے خاتمے کیلے ضروری ہے کہ لوکل سطح پر کوآپریٹوز کے ذریعے ذرائع میں اضافہ کیا جاۓ تاکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں نہ یہ کہ لوگوں کو رقم دے دی جاۓ)، ایسے میں ہم اسلام کے اس عظیم آپشن پر بات کرتے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

جمہوریت: عوامی حاکمیت کا فریب


جدید تہذیب کی دلکش مگر پرفریب ترین اشیاء میں سے سب سے بڑی جمہوریت ھے جو عوام کو یہ سراب دکھاتی ھے کہ ''تمہارے ارد گرد جو کچھ ھورھا ھے یہ سب تمہاری ہی خواہشات اور مرضی کا اظہار و عکس ھے''۔ مگر فی الحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں کیونکہ سرمایہ داری ایک نظام زندگی ھے اور نظام زندگی میں فیصلے اور معاملات 'لوگوں کی آراء' نہیں بلکہ اسکی 'علمیت' سے طے ھوتے ہیں۔ درحقیقت کسی نظرئیے کے نظام زندگی ھونے کا مطلب ہی یہ ھوتا ھے کہ وہ ایک 'علمیت' ھے جو ذاتی و اجتماعی زندگی کی تشکیل کا طریقہ بتاتی ھے۔ سرمایہ دارانہ نظم کو قائم کرنے و رکھنے والی علمیت سوشل سائنسز ھے۔

اس نظم میں ریاست کا کردار کیا ھے یہ عوام نہیں بلکہ علم معاشیات و سیاسیات طے کرتے ھیں، ریاست پابند ھے کہ ان اصولوں کے مطابق معاملات چلائے۔ مثلا علم معاشیات بتاتا ھے کہ اگر مارکیٹ نظم کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو سرمائے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ھوگا۔ لہذا ریاست کی ذمہ داری ھے کہ:
1) وہ ایسی پالیسیاں بنائے جن سے حاضروموجود غیر سرمایہ دارانہ معاشرہ آہستہ آہستہ مارکیٹ بنے
2) سرمایہ دارانہ لااینڈ آرڈر (ھیومن رائٹس کی بالادستی) قائم کرے
3) سرمایہ دارانہ علمیت کو فروغ دے
4) جو قوتیں سرمایہ دارانہ نظم کے خلاف ہیں انکی بیخ کنی کرے
5) جو کام مارکیٹ نہیں کرسکتی اسکی ادائیگی اپنے ذمے لے
6) معاشرے کے وہ تمام محروم افراد اور طبقے جو مارکیٹ مظالم کا شکار ھوں انکے مسائل کا مداوا کرتی رھے
7) مارکیٹ نظم میں ارتکاز سرمایہ و قوت کے نتیجے میں جو استحصال کے مواقع پیدا ھوتے رھتے ہیں انہین ریگولیٹ کرتی رھے
(8) پرائیویٹائزیشن و لبرلائزیشن جیسی پالیسیوں کے ذریعے مقامی ریاست کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی باجگزار ریاست بنائے (اس عمل کو گلوبلائزیشن کہتے ہیں)
9) اس عالمی نظام کو قائم رکھنے کیلئے جو عالمی نگران ادارے موجود ہیں انکی زیر نگرانی کام کرے

اب آپ تھرڈ ورلڈ نہیں (کہ انہیں تو ڈکٹیشن لینے والی ریاستیں سمجھا جاتا ھے) بلکہ یورپ و امریکہ (جنہیں جمہوریت کا چمپئین سمجھا جاتا ھے) کی جمہوری ریاستوں کا چکر لگا کر دیکھ آئیں کہ انکی حکومتیں و دیگر ریاستی ادارے درج بالا انواع سے کس قدر مختلف پالیسی سازی کرنے میں مصروف عمل ہیں اور آج تک مصروف رھے ہیں۔ اگر وہ یہی سب کچھ کررہی ہیں اور کئی دھائیوں سے کرتی آرہی ہیں جیسا کا امر واقعہ ھے تو پھر 'عوام کی رائے' سے کیا ھورھا ھے، یہ سب تو علم معاشیات نے بتایا؟

درحقیقت جمہوریت عوامی رائے (will of all) نہیں بلکہ ارادہ عمومی (general will)، یعنی آزادی/سرمائے میں مہمیز اضافے، کی بنیاد پر ریاست تعمیر کرنے کا نظام ھے۔ اس ارادہ عمومی کی تشریح (یعنی آزادی/سرمائے میں اضافہ کیسے ھوتا ھے کی تشریح) ھیومن رائٹس و سوشل سائنسز کے فریم ورک سے ھوتی ھے (یوں سمجھئے کہ ان سوشل سائنسز کی حیثیت یہاں گویا علم فقہ و اصول فقہ کی سی ھے)۔ اگر عوام کی اکثریت وہ چاھے یا چاھنے کی خواھش رکھے جو اس ارادہ عمومی کے خلاف ھے (مثلا پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن یا مارکیٹ نظم کی مخالفت؛ یا شرع یا ذات پات کے نظام کا نفاذ) تو ایسی ھر خواھش و ارادہ ''اصولا'' (علمی طور پر) غلط ھے۔ کیوں؟ اسلئے کہ لوگوں نے وہ نہیں چاھا جو انہیں چاھنا چاھئے تھا، دوسرے لفظوں میں ایسی 'ناجائز خواھش' کے ذریعے لوگوں نے اپنے ارادے کو اپنی آزادی (ارادہ عمومی) کی نفی کے اظہار کا ذریعہ بنایا جسکی اجازت اس نظام میں ہرگز موجود نہیں کہ یہ اس سے سرکشی و بغاوت ھے۔ ایسی ہر خواھش قابل اصلاح و مردود ھے۔

مگر 'عام' آدمی کو یہ نظام بذریعہ میڈیا یہ جھانسہ دیتا رھتا ھے کہ یہاں جو کچھ ھورھا ھے یہ سب ''تم 'اکیلوں' کے ووٹ'' سے ھورھا ھے اور یہ جھانسہ اس عام آدمی کو ہر چار پانچ سال بعد 'اپنی' آزادی و مساوات کے اظہار کیلئے پولنگ بوتھ کھینچ لاتا ھے، اس امید پر کہ 'اب کہ شاید وہی ھوگا جو میں چاھتا ھوں'۔

ہمارے یہاں کے مفکرین کو بھی جمہوریت کا یہ فریب خاصا بھلا معلوم ھوا (اور ایک مصنف کے بقول) وہ اس ولایتی گوری میم کو اپنے یہاں بیاہ لائے۔ اس ولایتی میم کو ''شرعی رنگ روپ'' دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے، اسے کلمہ بھی پڑھایا ۔۔۔۔۔ اور وہ بھی پورے خلوص نیت کے ساتھ۔ مگر اس ولایتی گوری میم نے انکے دیسی معاشروں کا وہی حشر کیا جسکے لئے یہ تیار کی گئی تھی۔ تاریخ کے اوراق چلا چلا کر گواہی دے رھے ہیں کہ یہ ولایتی میم جس جگہ گئی اسے گورا بنایا نہ کہ خود دیسی بن گئی۔ اپنے اپنے دیس کے باسیوں نے چاھے اس پر کتنے ہی تڑکے کیوں نہ لگائے ھوں، یہ اپنا رنگ روپ اور جلوہ دکھانے سے باز نہیں آتی۔ مگر ھم ہیں کہ یہ 'معصوم' تصور قائم کئے بیٹھے ہیں کہ نہیں یہ گوری تو تھی ہی ہماری، ھمیشہ سے، اور یہ ہمارا ہی ورثہ ھے، لہذا یہ ھم سے دغا نہیں کرے گی۔
مکمل تحریر >>

تصور 'یونیورسل اخلاقیات' کے خوفناک ابہامات ۔۔۔۔۔۔۔ خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے


عام طور پر اخلاقی اقدار کو 'انسانی شے' سمجھ کر انہیں 'یونیورسل' تصور سمجھ لیا جاتا ھے، مگر یہ صرف ایک فکری خلجان (کنفیوژن) ھے۔ اس تصور کے تحت خیر کے چند تصورات (مثلا سچ بولنے) کو 'بنیادی انسانی اقدار' فرض کرکے انہیں انسانیت کا مظہر قرار دیا جاتا ھے۔ مزید یہ کہ ان بنیادی اخلاقی اقدار کو ان معنی میں مذھب سے ماوراء قرار دیا جاتا ھے کہ اپنے جواز کیلئے یہ مذہبی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ اپنا جواز یہ اپنے اندر از خود رکھتے ہیں، نیز ان تصورات کو تمام مذاھب نے اسی وجہ سے بطور خیر متعارف کروایا ھے کہ یہ آفاقی انسانی اقدار ہیں۔

درج بالا کنفیوژن کی وجہ یہ ھوتی ھے کہ اخلاقی تصورات کو مقاصد سے علی الرغم مجرد طریقہ کار '(procedure)' فرض کرلیا جاتا ھے۔ چنانچہ اس مجرد 'پروسیجرل گڈ' (procedural good) کے تصور کی بنیاد پر سچ بولنے، ایمانداری، خلوص نیت وغیرھم جیسی اقدار کو بذات خود خیر سمجھ لیا جاتا ھے، علی الرغم ان مقاصد کہ جن کے حصول کا یہ ذریعہ ھیں۔ اسی وجہ سے یہ جملے کہے جاتے ھیں کہ ''ہمیں یہ اقدار اپنانی چاہئیں، اسلئے نہیں کہ مذھب کہتا ھے بلکہ اس لئے کہ یہ ہیں ہی اچھی چیزیں''، یا ''یہ اقدار جس انسان میں بھی ہیں وہ ایک اچھا انسان ھے، چاھے مذھب کو مانتا ھے یا نہیں''، یا ''ان اخلاقیات کو مانو، چاھے خدا کے کہنے کے جواز پر یا انسانی خوبی سمجھ کر''۔ ان تمام جملوں میں یہ فرض کرلیا جاتا ھے گویا سچ بولنا و ایمانداری اختیار کرنا بالذات اچھی بات ھے، علی الرغم اس سے کہ یہ اختیار کرنا حصول رضائے الہی کیلئے ھے یا کسی دوسرے مقصد (مثلا سرمایہ داری کے فروغ) کیلئے۔

ماخذ و مقاصد سے علی الرغم خیر و شر کا یہ پروسیجرل تصور بظاھر خاصا مسحور کن معلوم ھوتا ھے مگر اپنے اندر یہ عمیق گمراھیوں کو سموئے ھوئے ھے اور تنویری فکر کے تحت تو یہ باقاعدہ ایک 'نظریہ' بن چکا ھے (چنانچہ آج مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ھیں جو یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ 'ہمیں اچھے اخلاق اس لئے اختیار نہیں کرنے چاھئے کہ ایسا خدا نے کہا ھے بلکہ اسلئے کرنے چاہئے کہ یہ اچھی بات ھے یا یہ انسانیت کا تقاضا ھے، یا یہ ہمارے ضمیر کی آواز ھے وغیرہ')۔ یہاں اس کی وضاحت کی جاتی ھے۔

مقاصد سے علی الرغم خیر کا فلسفہ باطل ھے کہ مقاصد سے علی الرغم تو برائی (مثلا جوے، بدکاری یا قتل و غارت گری کو فروغ دینا) بھی انتہائی ایمانداری، سچائی و خلوص نیت کے ساتھ ممکن العمل ھے۔ مثلا جوا کھیلنے کی مثال لیں۔ چنانچہ اسکے 'پرامن' قیام و بقا کیلئے چیکس اینڈ بیلینسز پر مبنی ایسا طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ھے جس میں جوے بازوں کی 'خلوص نیت' پر مبنی شرکت اور 'ایمانداری و سچائی' کے ساتھ اسکے قوانین کی پاسداری انکے باہمی اختلاف کو ناممکن بنا دے۔ فرض کریں پوری ''دیانت داری'' کے ساتھ سب لوگوں کو جوا کھیلنے کا ''مساوی موقع'' فراھم کرنے کیلئے اسکے چند ''عالمی قوانین'' طے کردئیے جائیں، پھر اسے کھیلنے والے شرکاء پوری ''ایمانداری و سچائی'' کے ساتھ ان قوانین کی پاسداری کریں، پھر دوران کھیل ان قوانین کے اجرا کیلئے پولیس و نگران ایجنسیوں کا بندوبست بھی کردیا جائے تاکہ ''قانون کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر'' کی سرکوبی کیلئے ان پر کڑی نظر رکھی جاسکے نیز ''ادارے کی رٹ'' بھی قائم رھے۔ اتنا ہی نہیں، اس کھیل کی گلوبلائزیشن کیلئے عالمی نگران ادارے بھی قائم کردئیے جائیں جو عالمی سطح پر اس کھیل کے سچائی و ایمانداری کے ساتھ انعقاد کو ممکن بنائیں تاکہ ''قانون کی بالادستی'' کے نتیجے میں ''عدل و انصاف'' کا بول بالا ھو۔

بھلا غور تو کیجئے، اس پورے نقشے میں کتنی 'اخلاقی اقدار' کا پاس رکھا گیا ھے نیز یہ افراد کی کتنی ہی عظیم الشان اخلاقی اقدار کی تربیت کا بندوبست فراھم کررھا ھے۔ خیالی نقشے کو چھوڑئیے، عملی دنیا کے بارے میں غور کیجئے کہ ہر روز یہاں کتنے ملین لوگ ہر روز پوری سچائی، ایمانداری و خلوص نیت کے ساتھ جوے اور قحبہ خانوں میں شرکت کرتے ہیں! سوال یہ ھے کہ کیا سچائی و ایمانداری کے ساتھ جوے کے اس کھیل میں شریک ھونا اور اسے بڑھاوا دینا 'بذات خود' قابل تحسین اقدار کہلائیں گی؟

اگر نہیں اور ہر گز نہیں، تو خوب جان لینا چاہئے کہ خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے۔ سچ بولنا یا ایمانداری بذات خود نہیں بلکہ خدا کے ریفرنس (یعنی خدا کا انہیں اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ کہنے کی وجہ) سے خیر ہیں۔ درحقیقت قدر سچ بولنا نہیں بلکہ حصول رضائے الہی ھے، سچ بولنا محض اس مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ھے۔ اس خدائی ریفرنس کے علاوہ کسی دوسری بنیاد (مثلا انسانیت کی بھلائی، اصول پسندی، ضمیر کی آواز) پر انہیں اختیار کرنا ہرگز قدر و اخلاق نہیں (بلکہ اس صورت میں یہ ھیومن ازم سے نکلنے والی 'شرک فی الارادہ' کی ایک شکل بن جاتی ھے جس کی تفصیل درج ذیل لنک میں دیکھی جا سکتی ھے)۔ جن مفکرین نے تنویری علمی ڈسکورس کے زیر اثر اخلاقیات نیز معروف و منکر کا مبدا، ماخذ و مقصد عقل، فطرت یا نفس انسانی وغیرہ کو قرار دیا وہ قدیم معتزلہ کی اسی غلط فہمی کا شکار ھوئے جسکی اصلاح امام اشعری و غزالی نے صدیوں قبل فرما دی تھی۔

http://www.eeqaz.com/ebooks/022shirk_akbar/022shirk_akbar08.htm
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 22, 2013

تحفظ عورت، خاندان اور مارکیٹ ۔۔۔۔ ایک اھم شبے کا ازالہ


اس عنوان کی پچھلی پوسٹ میں بتایا گیا کہ مارکیٹ معاشرت کیونکر عورت کی کفالت کا بوجھ اسکے کاندھوں پر ڈال کر اس پر ظلم کرتی نیز اسے غیر محفوظ کرتی ھے۔ اس پر ایک شبہ یہ وارد کیا جاتا ھے کہ موجودہ خاندانی نظم کے اندر بھی عورت پر طرح طرح کے مظالم ھوتے ہیں نیز اگر عورت بیوہ یا طلاق یافتہ ھوجائے اور اسکے باپ یا بھائی اسکی کفالت کی ذمہ داری نہ اٹھائیں یا اٹھانے لائق نہ ھوں تو اس عورت کیلئے تو مارکیٹ کا حصہ بننا ایک نعمت ھے، گویا مارکیٹ ایسی خواتین کیلئے بہترین متبادل فراہم کررھی ھے۔

مگر اعتراض کرنے والے نے خاندان کا نقشہ بس 'ماں باپ اور بچوں' تک محدود سمجھا، ظاھر ھے جسے خاندان بمعنی 'برادری' یا 'قبیلہ' کہتے ہیں وہ محض ان تین تعلقات کا نام نہیں بلکہ اس سےبہت وسیع تر تصور ھے۔ تو پہلی بات یہ کہ خاندانی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ واقعی موجود ھو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی قوت اسکی برادری و خاندان ھوتا ھے اکیلی عورت نہیں، لہذا اسے دبوچ کر اس پر ظلم کر لینا کوئی آسان کام نہیں ھوتا۔ دوسری بات یہ کہ جو عورت بیوہ ھوجائے یا اسے طلاق ھوجاۓ تو اس کا مداوا بھی یہی نظام کردیتا ھے۔ مثلا ہمارے یہاں آج بھی اس امر کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ اور اسکے بچوں کو سہارا دینے کیلئے (اپنی تمام تر خواہشات کی قربانی دے کر) اس سے نکاح کرلیتا ھے، اگر نکاح ممکن نہ ھو تب بھی دادا یا دیگر بھائی وغیرھم ملکر خاتون خانہ اور اسکے بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے اور خاندانوں میں ہر سو پھیلی یہ مثالیں نظر نہیں آتیں، ہاں چند ظلم کرنے والے مرد نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر طلاق ھوجائے تو بھی عورت بے یارومددگار نہیں ھوجاتی (ویسے یہ بھی عجیب ذہنیت ھے کہ جدید ذہن کو طلاق کے بعد ہمیشہ عورت ہی کی فکر دامن گیر رہتی ھے، مرد اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے جو پریشان ھوتا ھے وہ تو اسکے یہاں کسی کھاتے میں ہی نہیں)۔

چنانچہ مسئلہ تب پیدا ھوتا ھے جب فرد کی ان بنیادوں پر تربیت نہ کی جائے یا ممکن نہ رھے جو خاندانی نظام کے کرائسز مینیجمنٹ پروسسز کو اکٹیویٹ کرتی ھے، اور اس تربیت سازی میں بہت بڑی رکاوٹ خود جدید تعلیم و مارکیٹ سوسائٹی کا پھیلاؤ ھے جو فرد کو خود غرضی کی عقلیت و جبر قبول کرنے پر راضی کرتی ھے۔ خواہشات و ذاتی اغراض کا اسیر یہ 'فرد' (ھیومن) تو ماں باپ کو ہی گھر سے نکال باہر کرتا ھے، بیوہ یا مطلقہ عورت کا رونا کیا روئیں۔ گویا خاندان کا تحفظ ختم ھونے سے صرف 'روایتی عورت' (ماں، بہن، بیٹی، بیوی) ہی غیر محفوظ نہیں ھوتی بلکہ 'بوڑھے' (ماں باپ) بھی غیر محفوظ ھوجاتے ہیں۔ درحقیقت مارکیٹ یا سول سوسائٹی انفرادیت کے ہر روایتی اظہار یا تعلق کو غیر معقول و لایعنی بنا کر انکے وجود کو 'غیر محفوظ' کردیتی ھے۔ ایسا اس لئے کہ مارکیٹ یا سول سوسائٹی 'مجرد فرد' کی تکمیل اغراض کی خاطر وجود میں آنے والے تعلقات کا نظام ھے۔ اس معاشرت میں 'اغراض سے ماوراء' ہر تعلق غیر معتبر ھوجاتا ھے لہذا محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی اجتماعیتیں (مثلا خاندان و قبائل) تحلیل ھوجاتے ھیں۔ ھیومن رائٹس پر مبنی اس معاشرت میں ہر فرد کو اپنا 'area of non-encroachable' (ذاتی زندگی کے حقوق کا وہ دائرہ جس میں 'کسی' کی مداخلت جائز نہیں) کا تحفظ اور اس میں توسیع ہر دوسری شے سے عزیز تر ھوتی ھے، لہذا اس معاشرت میں خاندان لازما تحلیل ھوکر رھتا ھے (جس معاشرت میں ھیومن رائٹس کے نام پر بچوں کی شکایت پر ماں باپ کو عدالتوں اور تھانوں میں طلب کیا جارہا ھو بھلا وہاں خاندان باقی رہ سکتا ھے؟ ایں خیال است محال است)۔ آزادی و اغراض کا فروغ لازما رحمی رشتوں کو مخاصمت میں تبدیل کرکے رھتا ھے۔

تو خوب دھیان رھے کہ خاندانی نظام بس یونہی شکست و ریخت کا شکار نہیں ھورھا بلکہ یہ بذات خود مارکیٹ نظم کا نتیجہ ھے۔ جوں جوں مارکیٹ کا دائرہ پھیلتا ھے، روایتی معاشرت کی شکست و ریخت کا عمل تیز تر ھوجاتا ھے نتیجتا ہر روایتی تعلق (بشمول 'روایتی عورت') روایتی تحفظات سے محروم ھوکر غیر محفوظ ھونے لگتا ھے اور اسے اپنی آخری پناہ گاہ بادل ناخواستہ مارکیٹ میں تلاش کرنا پڑتی ھے۔ درحقیقت مارکیٹ کسی دوسرے نظام کے ستائے ھوئے لوگوں کو نہیں بلکہ خود اپنے پیدا کردہ ظلم کے مارے چند لوگوں کو اپنے اندر سموتی ھے اور بڑی اکثریت کو این جی اوز، پروفیشنل خیراتی اداروں اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تھپیڑوں کے حوالے کردیتی ھے۔

اور پھر ذرا تصور کیجئے ان عورتوں کے بارے میں بھی جو یا تو کمانے لائق نہیں یا پھر بہت کم کماتی ہیں ۔۔۔۔ آخر یہ مارکیٹ نظام انکے ساتھ کیا کررھا ھے؟ ھوسکتا ھے آپ کہیں کہ وہ انشورنش کروائیں، مگر اسکے لئے تو رقم چاہئے جو کمائے بغیر ممکن نہیں، ھوسکتا ھے آپ کے ذہن میں یہ خیال مچل رھا ھو کہ انکی کفالت ریاست کرے گی مگر اس دنیا کی کتنی ریاستیں ہیں جنکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنی ساری محروم آبادی کیلئے آمدن کا بندوبست کردے؟ تو سوال یہ ھے کہ یہ جو اتنی کثیر تعداد میں خواتین بے یارومددگار گھوم رہی ہیں ان کیلئے اس نظام میں کیا ھے؟ تو یہاں کوئی جدید ذھن کیوں یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ 'اے ظالمو جب تمہارے پاس ان خواتین کے بندوبست کا کوئی نظام موجود نہیں تھا تو کیونکر تم نے خاندان کو تحلیل کرکے مارکیٹ نظم قائم کیا؟' ۔۔۔۔۔ کیا یہ جدید ذھن کا کھلا تضاد نہیں کہ دینی طبقے سے تو دین پر عمل پیرا ھونے کیلئے پہلے 'ہر مسئلے کا پکا پکایا متبادل' فراہم کرنے کی شرط لگاتا ھے مگر خود اپنے نظام پر یہی سوال نہیں اٹھاتا؟

تو مارکیٹ جو بحرانوں کا شکار چند عورتوں کو سپورٹ کررھی ھے وہ بس یونہی نہیں کررہی، بلکہ معاشرے سے اسکی پوری پوری قیمت وصول کررہی ھے۔

پس کرنے کا کام خاندان کو مارکیٹ میں ضم کردینا نہیں (کہ یہ تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ھے) بلکہ مرد کی 'درست تربیت' پر توجہ دینا ھے تاکہ وہ اپنی 'ذمہ داری' کو پہچانے۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں، اس مارکیٹ نظم کو تحلیل کرنا اس تربیت سازی سے بھی زیادہ ضروری عمل ھے کہ اسکے بنا یہ تربیت کبھی عام نہ ھوسکے گی۔
مکمل تحریر >>

Monday, October 21, 2013

تحفظ عورت، خاندان اور مارکیٹ ۔۔۔۔ حقیقت اور افسانوں کا فرق


تصور کریں اس عورت کے بارے میں جسکا خاوند، باپ، بھائی یا بیٹا (یا کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار) اسکی معاشی کفالت کا پورا ذمہ اٹھائے ھوئے ھے، گھر سے باہر آتے جاتے وقت اسکے تحفظ کی خاطر اسکے ساتھ ھونے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ھے، اسکی ضرورت کی ہر شے اسے گھر کی دہلیز پر مہیا کرتا ھے، اپنی عمر بھر کی کمائی ہنسی خوشی اس پر خرچ کردیتا ھے، اسے اچھا کھلاتا اور پہناتا ھے، اسکی عزت کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک قربان کردینے کیلئے تیار رھتا ھے، اور 'بالآخر' (بادل ناخواستہ ہی صحیح) گھر کے معاملات بھی اسی عورت کی جھولی میں ڈال دیتا ھے (یہ تصور کہ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی عورت کے پاس فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی ایک افسانہ ھے، خاندانی نظم کے اندر بچوں کی عمر ذرا زیادہ ھونے کے بعد عورت بالعموم کس قدر بااختیار ھوجاتی ھے اسکا اندازہ ہر شوھر کو ھوتا ھے )۔ یہاں جس عورت کی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا یہ کوئی تخیلاتی عورت نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں آج بھی خواتین کی غالب ترین اکثریت کم و بیش یہی زندگی گزار رھی ھے (کچھ اس خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور کچھ مارکیٹ نظم کا حصہ بن جانے کی وجہ سے مظالم کا شکار ہیں، ان مظالم کا تعلق ہرگز خاندانی نظام کے ڈھانچے سے نہیں جیسا کہ ہمارا لبرل طبقہ جھانسا دینے کی کوشش کرتا ھے کیونکہ اس صورت میں یہ غالب ترین اکثریت بھی ان مظالم سے محفوظ نہ ھوتی)۔

اب اسکا موازنہ کریں اس عورت کی زندگی سے جو اپنی معاشی کفالت کی خود ذمہ دار ھے، گھر اور بچوں کی ذمہ داری بھی اسی کے کاندھوں پر ھے، صبح ناشتہ بھی بناتی ھے، بچوں کو تیار بھی کرتی ھے، انکے لنچ کا بندوبست بھی کرتی ھے، آفس کے جبر کو بھی برداشت کرتی ھے، باس کی باتیں بھی سنتی ھے، شام کو سب کیلئے کھانا بھی بناتی ھے، لانڈری بھی کرتی ھے۔ اگر قسمت نے یارانہ کیا تو شاید عمر بھر ساتھ نبھانے والا کوئی شوھر ہاتھ آجائے وگرنہ یہ سارا بوجھ اکیلے ہی اٹھائے پھرے گی۔ یہ نقشہ ھے جدید و ترقی یافتہ معاشروں کی غالب ترین خواتین کی زندگی کا۔ اس عورت کو اپنے تحفظ و بقا کیلئے ان پروسزز ، اشیاء و خدمات کی ضرورت ھے جنہیں مارکیٹ سے 'خریدنا' پڑتا ھے لہذا یہ عورت اس نظام کے تحت مجبور ھے کہ اپنی قوت خرید کو برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ کا حصہ بنی رھے۔ یہ اس نظام کا عورت پر جبر ھے۔

نفس معاملہ یہ ھے کہ ھیومن رائٹس اور اسپر مبنی مارکیٹ اور جمہوری نظم معاشرے کی اکائی کو فرد تک محدود (individualize) کرکے عورت کی کفالت کی ذمہ داری خود عورت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں عورت پر ھونے والے بدترین مظالم میں سے عظیم تر ظلم ھے، ایک اس لئے کہ یہ اس جنس پر ایک ایسا بوجھ ڈال دینا ھے جو اسکی تخلیق کے مقصد ہی کے خلاف ھے، دوئم اس لئے کہ جدید نظام اس ظلم و شر کو عدل و خیر کے پردوں میں چھپا کر انسانوں کیلئے قابل قبول بناتا ھے (اس اعتبار سے یہ عورت کی بلا وجہ مار پیٹ کرنے سے بھی بڑا ظلم ھے کہ اس عمل کو ہر معاشرت و نظرئیے نے بہرحال برا ہی سمجھا مگر عورتوں میں پروفیشنل ازم کے فروغ کے ذریعے انکی مارکیٹائزیشن کے عمل کو آزادی و خودمختاری کے خوشنما نعروں میں پیش کیا جارہا ھے)۔ مارکیٹ نظم میں عورت اور مرد 'فرد' ہیں، یہاں دونوں اپنے تحفظ کیلئے غیر جذباتی و غیر شخصی ریاستی اداروں (impersonal and procedural state institutions) کے محتاج ہیں، جہاں ریاست کی پہنچ نہیں (ظاہر ھے ریاست ہر جگہ موجود نہیں ھوسکتی) وہاں طاقتور 'اکیلا' کمزور 'اکیلے' کو دبوچ لیتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ مارکیٹ نظم کے پھیلنے کے نتیجے میں ریپ (rape) کے مواقع بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روایتی برادری نظم میں عورت کے تحفظ کا دائرہ محرم (اور بعض اوقات خاندان سے متعلقہ چند قریبی اور قابل اعتماد غیر محرم) رشتہ داروں کے گرد بنا جاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ روایتی معاشرت میں ریپ کے وارداتیں انتہائی شاذونادر ھوتی ہیں کیونکہ ایک فرد (یا چند افراد) کے ہاتھ یہ موقع آجانا ہی خاصا مشکل امر ھوتا ھے کہ وہ ایک اکیلی عورت کو اس حالت میں کہیں پالے کہ اسے اپنی ھوس کا نشانہ بنا سکے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔

ان دونوں میں سے کونسی عورت زیادہ محفوظ و آسودہ زندگی گزار رھی ھے؟ آخر ان دونوں کے حال میں اس قدر فرق کیوں ھے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ھے کہ ایک عورت اس نظم کا حصہ ھے جو خدا کی بتائی ھوئی فطری طرز معاشرت میں زندگی بسر کررھی ھے، وہ معاشرت جو محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تعمیر ھوتی ھے، دوسری عورت تسکین لذات و بڑھوتری سرمایہ کی خاطر اغراض کی بنیاد پر تعمیر کی گئی معاشرت کا ایک پرزہ بنا دی گئی ھے اور جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ یہ نظام اسے فراھم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی لئے پہلی عورت محفوظ ھے جبکہ دوسری غیر محفوظ (vulnerable)۔ جن 'دانشوروں' اور 'سکالرز' کا خیال یہ ھے کہ موجودہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ ظلم نہیں کرتا وہ بصیرت ہی سے محروم ہیں، انکے یہ لایعنی تجزئیے انہیں موجودہ نظام کے خلاف جہاد کرنے سے روکتے ہیں کہ انکے نزدیک یہ نظام فتنہ، ظلم و فساد فی الارض کا باعث نہیں بن رھا۔ جبکہ حقیقت یہ ھے کہ انسانی تاریخ میں تہذیب کا ایسا اجاڑ آج تک کسی معاشرتی و ریاستی نظم نے اس منظم طور پر نہ کیا ھوگا جتنا اس نام نہاد ترقی یافتہ جدید تہذیب نے کیا ھے۔

آخر اسکی وجہ کیا ھے کہ جدید انسان بہر حال اس محفوظ عورت کو غیرمحفوظ بنانے کیلئے اسے مارکیٹ کے مظالم و جبر کا شکار کرنا چاھتا اور ایسا کرنے کو عقل کا تقاضا بھی سمجھتا ھے (جیسے اس نے مرد کو اس ظلم و جبر کا شکار کرڈالا ھے)؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ جدید انسان آزادی یعنی بڑھوتری سرمایہ کو بالذات مقصد گردانتا ھے اور اس کائنات کی ہر شے (بشمول انسان) اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ھے، لہذا عورت بھی اس اصول سے مستثنی نہیں۔ عمل تکاثر میں مہمیز اضافے کی خواہش ہی اسکی قلب کی اصل کثافت ھے۔
20Like
مکمل تحریر >>

سوشل ازم اور کمیون ازم کا فرق


سوشل ازم سے مراد مزدوروں کی ریاستی ڈکٹیٹرشپ کے زیر نگرانی ایک پالیسی پیکج ھے جبکہ کمیونزم کا مطلب اس پالیسی پیکج سے دریافت ھونے والی اشتراکی جنت (Utopia) ھے۔

اشتراکی مفکرین کا خیال ھے کہ انسانی تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ھے جو حصول آزادی کیلئے ھونے والے مادے کے تغیرات اور اسکے نتیجے میں برپا ھونے والی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں محو سفر رہتی ھے۔ مادے کی یہ ترقی طبقاتی کشمکش کے ذریعے انسانیت کو ایک کے بعد دوسری بہتر شکل میں تبدیل کرتے رھتی ھے جسکے نتیجے میں انسانی عقائد، اخلاق، طرزعمل، معاشرت، ریاست، علم، حسن، عدل الغرض ھر تصور میں ارتقاء ھوتا رھتا ھے۔ ان مفکرین کے خیال میں انسانیت اپنا یہ سفر طے کرتے کرتے (لبرل) سرمایہ داری میں داخل ھوچکی ھے جو اپنے سے ماقبل تمام معاشرتی نظاموں سے بہتر نظام ھے کہ یہ آزادی (بڑھوتری سرمایہ) کے زیادہ مواقع پیدا کرتی ھے۔ البتہ انکے خیال میں انسانیت کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ھوا کیونکہ scarcity ابھی ختم نہیں ھوئی لہذا انسان مکمل طور پر ابھی آزاد نہیں ھوا۔ پس اسے ایک اصلاحی قدم مزید آگے بڑھنا ھے۔

وہ قدم کیا ھے؟ وہ قدم ھے سوشل ازم، یعنی انسانیت پر لازم ھے کہ وہ اپنی تاریخ کے ناگزیر قوانین کو سمجھ کر اپنے شاندار مستقبل کے حصول کیلئے ان پالیسیوں کو اپنائے جن کی نشاندھی مارکس (اور چند دیگر اشتراکی مفکرین) نے کی۔ یہ پالیسیاں کچھ اس نوع کی ہیں:
- ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کا خاتمہ اور ان پر اشتراکی ریاست کا قبضہ
- پروگریسو ٹیکسیشن (progressive taxation)
- لازمی لیبر ورک (آمدن کا واحد ذریعہ صرف لیبر ورک)
- تیز رفتار انڈسٹرئیلائزیشن
- پیداوار کی تقسیم پیداواری عمل میں صرف کئے گئے اوقات کار اور ضرورت کی بنیاد پر
ان پالیسیوں کے نتیجے میں درج ذیل نوع کی تبدیلیاں رونما ھوں گی:
- ورکنگ کنڈیشن میں بہتری
- کام کے اوقات (working hours) میں کمی
- پیداواری صلاحیت میں اضافہ
- اجرتوں اور معیار زندگی میں اضافہ
- معاشی و معاشرتی عدم مساوات میں کمی

سوشل ازم درج بالا نوع کی پالیسی پیکج کا نام ھے۔ طویل عرصے تک ان پالیسیوں پر عمل پیرا ھونے کے نتیجے میں ایک نیا انسان اور معاشرہ دریافت ھوگا، جسکے خدو خال کچھ یہ ھونگے:
- پیداوار میں کثرت (abundance) ھوجائے گی، یوں scarcity کا وجود ختم ھوجائے گا
- اس پیداواری کثرت سے لوگوں کے عقائد و طرز عمل تبدیل ھوجائیں گے، یوں ایک نیا انسان دریافت ھوگا جسے مارکس specie being کہتا ھے
- پیداواری عمل میں شرکت (مارکس کے نزدیک انسان کی اصل فطرت) اظہار ذات کا بنیادی داعیہ بن جائے گا
- ہر شے اجتماعی ملکیت بن جائے گی (اسی سے specie being دریافت ھوگا، جسکی شناخت کا بنیادی شعور 'اکیلی ذات' نہیں بلکہ 'انسانیت کا ایک رکن ھونا' ھوگی)
- جذبہ مسابقت ختم ھوجائے گا کہ یہ scarcity کا نتیجہ ھے
- جرائم کا خاتمہ ھوجائے گا کہ اس کا بنیادی محرک ہی ختم ھوجائے گا (ہر شخص کا فطری شعور ہی اسے جرم سے باز رکھنے کیلئے کافی ھوگا)
- انسان اپنی خواہشات کو پوری طرح کائنات پر مسلط کرنے لائق ھوگا، جو چاھے گا کرسکے گا (گویا فعال لما یرید کا مصداق ھوگا)
- ہر قسم کے طبقات (خاندان، مذھب، قومیں، شہری دیہاتی، پیشہ وارانہ تقسیم کار) ختم ھوجائیں گے کہ انکا مقصد صرف scarce ذرائع پر استحصالی تسلط کو جواز دینا اور اسکے نتیجے میں برپا ھونے والی ادارتی صف بندی کو اختیارکرنا ھوتا ھے، لہذا طبقاتی کشمکش نہ رھے گی۔ صرف فرد (specie being) باقی رہ جائے گا اور وہ جو چاھے گا کرسکنے کا مکلف ھوگا۔ اخلاقیات کے بے شمار موجودہ تصورات بے معنی ھوجائیں گے
- کیونکہ جبر کی بنیاد و ضرورت ھی ختم ھوجائے گی، لہذا ریاست تحلیل ھوجائے گی، محض ایک فطری پیداواری نظم باقی رہ جائے گا جو انسانیت کے خود اختیار کردہ فطری اظہار کا مظہر ھوگا

اشتراکی مفکرین انسانی تاریخ کے آخری سرے پر قائم ھونے والے اس معاشرے کو کمیونزم سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا سوشل ازم کا مطلب لبرل سرمایہ داری اور کمیونزم کے دوران عبوری ریاستی دور کا نام ھے جو لبرل سرمایہ داری کو مطلوبہ کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل کرنے کی بنیاد فراھم کرے گی۔ سوشل ازم اور کمیونزم کے اس نقشے سے بالکل واضح ھے کہ یہ سرمایہ داری ہی کی وکالت کا متبادل نظریہ ھے۔
مکمل تحریر >>

اشتراکیت بھی سرمایہ داری ہی ھے


عام طور پر اشتراکیت کو سرمایہ داری سے علی الرغم کوئی نظام سمجھا جاتا ھے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ھے کہ سرمایہ داری کو محض اسکی ایک مخصوص شکل 'لبرل یا مارکیٹ' سرمایہ داری کے ہم معنی فرض کر لیا جاتا ھے جبکہ یہ تصور درست نہیں۔ درحقیقت یہ دونوں (لبرلزم اور اشتراکیت) سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے دو نظرئیے ہیں۔ اشتراکیت سرمایہ دارانہ اہداف (آزادی، مساوات و ترقی) ہی کو حاصل کرنے کا ایک متبادل نظریہ ھے نہ کہ سرمایہ داری سے الگ کوئی نظام زندگی (جیسا کہ اشتراکیت کے علم بردار بڑی فی مہارت سے یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں)۔ اس بات کی دلیل درج ذیل ناقابل تردید حقائق ہیں:
1) لبرل ازم اور اشتراکیت دونوں کی بنیادیں تنویری (enlightenment) علمیت سے ماخوذ ہیں، اسی لئے یہ دونوں انسان کو قائم بالذات قرار دیتے ہیں
2) اشتراکیت بھی انہی اہداف (آزادی، مساوات و ترقی) کو حق اور مقصد قرار دیتی ھے جنہیں لبرل سرمایہ داری حق کہتی ھے
3) مارکس واضح طور پر کہتا ھے کہ اشتراکیت لبرل یا مارکیٹ سرمایہ داری سے برآمد ھوتی ھے
4) مارکس نے لبرل سرمایہ داری پر جو تنقید کی اسکا حاصل یہ ھے مارکیٹ کے ذریعے آزادی اور لامتناہی ترقی کا حصول ممکن نہیں ھوتا کیونکہ مارکیٹ صرف ایک مخصوص (برجوا) طبقے کی آزادی میں اضافہ کرتی ھے نہ کہ پوری انسانیت کی۔ اسی لئے مارکیٹ ایک خاص حد کے بعد ترقی (بڑھوتری سرمایہ میں اضافے) کے عمل میں رکاوٹ بن جاتی ھے
5) اگر کسی اشتراکی سے سوال کیا جائے کہ بتاؤ جو معاشرہ و ریاست تم قائم کرو گے وہ کن چیزوں کا حصول ممکن بنائے گا، تو اسکا جواب ھوگا: 'آزادی، مساوات اور ترقی'
6) یہی وجہ ھے کہ اشتراکی علاقے (مثلا روس، چین، کیوبا وغیرھم) ھوں یا لبرل ممالک (امریکہ و یورپ)، عملا ہر جگہ حرص و حسد سے مغلوب، نفس پرست، خدا و آخرت بیزار اور گناھوں کی اثیر ایک ہی قسم کی انفرادیت و معاشرت پروان چڑھتی ھے

یہی وجہ ھے کہ اشتراکیت کو 'ریاستی کیپیٹل ازم' (state capitalism) کہا جاتا ھے جبکہ لبرلزم کو 'مارکیٹ کیپیٹل ازم'۔ دونوں کی جڑ ایک ہی کلمہ خبیثہ ھے، یعنی ھیومن ازم کا (جاہلی) علمی ڈسکورس۔

اس بات کی تفہیم اس طور اھم ھے کہ جدید مسلم ذھن جب مارکیٹ نظم کے مظالم دیکھتا ھے تو اسکے حاضروموجود متبادل کے طور پر اشتراکیت کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے جو اتنی ہی بڑی ضلالت و گمراہی ھے جتنی لبرلزم۔ اور ہمارے یہاں اشتراکیت کی طرف متوجہ ھونے والے متجددین کی بھی کوئی کمی تو نہیں رہی (مثلا دیکھئے پرویز یا علی شریعتی کا اسلامی ماڈل)۔ پس یاد رکھنا چاہئے، اسلام کو سرمایہ داری کے کسی بھی نظرئیے و اصولی تصور (آزادی، ترقی، جمہوریت، ھیومن رائٹس، قوم پرستی، اشتراکیت وغیرھم) میں تلاش کرنا اسلام کو سرمایہ داری میں ضم کردینا ھے، اسلام کو سمجھنے کا پیرایہ قرون اولی میں اس پر عمل کی طرف جھانکنا ھے کہ اسلام کی ایک تاریخ ھے (Islam has a history)، نہ کہ اسے اسکی تاریخ سے کاٹ کر حاضروموجود نظریات میں تلاش کرنا۔
مکمل تحریر >>

Sunday, October 20, 2013

علم معاشیات کا تصور Perfect Competition (مکمل مسابقت) ۔۔۔۔۔۔ جدید دنیا کا "آئیڈئیل" ('خیر القرون') اور خیرالقرون کی طرف مراجعت کی اہمیت


علم معاشیات میں مکمل مسابقت سے مراد ذاتی اغراض کی جستجو پر مبنی تعلقات سے وجود میں آنے والا ایک ایسا مسابقتی معاشرتی نظم ھے جسکے نتیجے میں سرمائے میں امکانی حد تک زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ھوسکےگا۔ اس نظم کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں: ذاتی اغراض کے متلاشی بے شمار ھیومنز کا وجود، حصول سرمایہ کیلئے تعلقات بنانے اور توڑنے کی مکمل آزادی (free entry and exit)، تمام لوگوں کے پاس مکمل معلومات کی فراہمی (free and perfect information) اور سرمائے کی ترسیل اور اسکے حصول کیلئے کنٹریکٹ کی کاسٹ نہ ھونا (no transaction cost)۔ چنانچہ ماہرین معاشیات دعوی کرتے ہیں کہ مکمل مسابقت حصول سرمایہ کا وہ نظام ھے جہاں زیادہ سے زیادہ efficiency کا حصول خود بخود (بغیر کسی بیرونی، مثلاریاستی، مداخلت) ممکن ھوجاتا ھے۔

سوال پیدا ھوتا ھے کہ جب دنیا کا کوئی معاشرہ نہ صرف یہ کہ مکمل مسابقت کے نقشے پر پورا اترنا نہیں بلکہ ایسا ھونا بھی ممکن نہیں تو پھر علم معاشیات میں اس نظم کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور کیوں دیا جاتا ھے؟ اسکا جواب یہ ھے علم معاشیات میں مکمل مسابقتی معاشرت کی تعلیم اس لئے نہیں دی جاتی کہ یہ کہیں موجود ھے بلکہ اس لئے دی جاتی ھے کہ یہ اسکا 'مطلوب و مقصود' (ideal-type) نظام ھے۔

آئیڈئیل کا مقصد کیا ھوتا ھے؟ اسکے تین بنیادی مقاصد ھوتے ہیں:
1) معیاری 'پیمانے' کی فراہمی جسکی بنیاد پر حاضر و موجود کو جانچا جاسکے (کہ وہ مطلوب سے کتنا دور یا نزدیک ھے)
2) حکمت عملی کی جہت کا تعین (کہ حاضر و موجود کو 'کس طرف' تبدیل کرنا ھے)
3) حکمت عملی کا لائحہ عمل و نشاندھی (کہ کس قسم کے اقدامات کرنے کی ضرورت ھے)

چنانچہ علم معاشیات کا تصور مکمل مسابقت یہ نہیں بتاتا کہ حاضر و موجود دنیا کیسی ھے بلکہ یہ بتاتا ھے کہ حاضروموجود کو کیسا بنانا ھے، یہ مطلوب سے کتنی دور ھے اور اسے مطلوبہ نظم میں تبدیل کرنے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مثبت (positive) نہیں بلکہ ایک مثالی و معیاری (normative) تصور ھے۔ یہ تصور ریاست سے چند مخصوص نوع کے اقدامات کا تقاضا کرتا ھے (جسکی تشریح کسی دوسری پوسٹ میں کی جائے گی)۔

یہاں چند غور طلب نکات ہیں:
1) دور حاضر میں تبدیلی برائے تبدیلی نہیں آرہی جیسا کہ جدید ذہن کا خیال ھے، بلکہ ایک مخصوص آئیڈئیل (خیرالقرن) کی طرف آرہی ھے۔ چنانچہ دنیا یونہی گلوبلائزیشن کی طرف تبدیل نہیں ھورہی بلکہ اسکے پیچھے ایک مخصوص علمی ڈسکورس کار فرما ھے
2) جدید دنیا جمہوری عمل (لوگوں کی رائے) سے نہیں بلکہ مخصوص علمی ڈسکورس سے تشکیل پائی ھے اور پا رہی ھے، یہ علمیت بذات خود لوگوں کی آراء کی تشکیل سازی بھی کرتی ھے
3) دنیا کے ہر 'نظام زندگی' کا ایک آئیڈئیل ٹائپ ھوتا ھے جو حاصل ھوتا نہیں بلکہ حاصل ھوتا رھتا ھے (کبھی زیادہ اور کبھی کم)۔ اسلام کا بھی ایک آئیڈئیل ٹائپ ھے جسے خود سرکار (ص) نے 'خیرالقرون' قرار دیا
4) جو لوگ خیرالقرون کے اس بنیاد پر ناقد ہیں کہ 'یہ ممکن نہیں' انہیں چاہئے کہ ماہرین علم معاشیات کو مکمل مسابقت کی تعلیم دینے نیز دنیا کی تمام حکومتوں کو اسکی خاطر پالیسی سازی کے عمل سے روک دیں کہ یہ ممکن نہیں
5) پالیسی سازی ہمیشہ آئیڈئیل کے ریفرنس سے ھوتی ھے (کہ اسے کیسے حاصل کیا جائے)، جس نظرئیے کی پالیسی سازی کا عمل اسکے آئیڈئیل سے لا تعلق ھو جائے وہ کبھی منزل حاصل نہیں کرپاتا بلکہ اپنی شناخت دیگر نظامہائے زندگی میں تلاش کرنے لگتا ھے (جیسے جدید مسلم مفکرین نے کبھی اسلام کو جمہوریت کے اندر پہچانا تو کبھی سوشلزم کے ساتھ نتھی کردیا وغیرہ)۔ ایک آئیڈئیل ترک کردینے کا مطلب نیوٹرل ھوجانا نہیں بلکہ کسی دوسرے آئیڈئیل کو اختیار کرلینا ھوتا ھے اور بس
6) جو لوگ علم معاشیات (یا دیگر سوشل سائنسز) کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ گویا یہ مثبت سائنسی علوم ہیں وہ دھوکے اور وھم کا شکار ہیں، سوشل سائنسز اپنی وضع میں 'نارمیٹو' علوم ہیں جنکا بنیادی مقصد غیرسرمایہ دارانہ دنیا کو سرمایہ دارانہ نظم میں تبدیل کرنے کا لائحہ عمل وضع کرنا ھے (جیسا کہ مکمل مسابقت کے تصور سے واضح ھے)
مکمل تحریر >>

اخلاقیات اور جبر کا تعلق ۔۔۔۔ موجودہ نظم کیلئے تو جائز مگر مذھب کیلئے ناجائز ۔۔۔۔۔ جدید ذہن کی قلابازیاں


موٹروے پر کار ڈرائیو کرتے وقت یہ بات باآسانی محسوس کی جا سکتی ھے کہ ہمارے یہاں 95 فیصد سے زیادہ ڈرائیور سپیڈ لمٹ اور ڈرائیونگ لائنز کا سختی سے دھیان رکھتے ہیں، یعنی 120 سے زیادہ رفتار اختیار نہیں کرتے نہ ہی بلا وجہ لائنز تبدیل کرتے ہیں، چاھے ان پڑھ بس ڈرائیور ھوں یا مرسڈیز چلانے والے بابو۔ مگر یہی لوگ جب عام شاہراھوں یا ہائی وے پر گاڑیاں چلاتے ہیں تو ان قوانین کا خیال نہیں رکھتے۔ آخر موٹروے پر اس محتاط اور بظاہر 'اخلاقی' رویہ اختیار کرنے کی وجہ کیا ھے؟

اسکی وجہ ھے نگرانی کا نظام (surveillance)، یعنی موٹروے پر جا بجا سپیڈ چیک کی جارہی ھے اور تیز رفتاری پر جرمانہ عائد ھورھا ھے۔ یہ اس نظام کا نتیجہ ھے کہ سب لوگ ایک 'ایتھیکل' رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور آہستہ آہستہ یہ جبر سب کی عادت بن کر (یعنی habitualize ھوکر) انہیں جائز معلوم ھونے لگتا ھے۔ اسکی ایک اور مثال شہر اسلام آباد میں بیلٹ باندھ کر ڈرائیو کرنے کا قانون بھی ھے، راقم جب کراچی سے یہاں آیا تو شروع شروع میں بہت مشکل پیش آئی، البتہ ایک عدد جرمانے کے بعد بیلٹ لگانے کی کچھ ایسی عادت پڑ گئی ھے کہ ''ہر شہر اور سڑک'' پر ڈرائیو کرنے سے پہلے بیلٹ لگا لیتا ھوں اور جو نہ لگائے اسے بھی ''اخلاقی نصیحت'' کرتا ھوں''۔

دیکئھے یہاں کوئی نہیں کہتا کہ ''لوگوں پر جبر کیوں کررھے ھو، انکی اخلاقی تربیت کرنی چاھئے تمہیں وغیرہ؟''۔ مگر جونہی خدا کے حکم کے مطابق تربیت اخلاق کیلئے ''جسم ڈھانپنے کا قانون'' بنا دیا جائے تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے اور مکارم اخلاق کے عجیب و غریب فلسفے بکھیرنے والے میدان میں اتر آتے ہیں۔ اس موقع پر یہ لوگ یہ بات ثابت کرنے کیلئے کہ 'قانون سے اخلاقی اصلاح نہیں ھوسکتی' انوکھے دلائل کا ایک ایسا طومار اکٹھا کردیں گے جسے عقل و دانش سے دور کا بھی واسطہ نہیں ھوتا۔

آخر اس تضاد کی وجہ کیا ھے کہ جدید ذہن کو 'مذھب کی بنیاد' پر جبر ناجائز مگر 'جدید طرز زندگی' (جو درحقیقت سرمائے کی تنظیم کا نظام ھے) کے تقاضوں کی بنیاد پر جبر عین جائز معلوم ھوتا ھے؟ درحقیقت اس جدید ذہن کا المیہ یہ ھے کہ ہر وہ بات جسے ''خدا کے ساتھ نسبت ھے'' اسے غیر عقلی معلوم ھوتی ھے، ہاں وہی بات جب ''جدید نظام کے تناظر میں'' کہی جائے تو یہ اسے خود بخود ''عقلی'' اور ''بھلی'' معلوم ھونے لگتی ھے۔ پس مسئلہ عقل یا غیر عقل کا نہیں، بلکہ عقل کے ریفرنس پوائنٹ کا ھے۔ جدید ذھن کی عقل کا ریفرنس پوائنٹ 'خواہشات' ہیں جسکا نام اس بے وقوف نے 'عقل' ڈال رکھا ھے اور اپنی اس بیوقوفی سے یہ مذہبی لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا رھتا ھے۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, October 16, 2013

الحادی مغربی ڈسکورس کا خلاصہ اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ


جدید مغربی (تنویری یعنی enlightenment) ڈسکورس خدا پرستی کو رد کرکے انسانیت (یا نفس) پرستی کی دعوت عام کرنے کا ڈسکورس ھے۔ اس علمی ڈسکورس نے انسان کو قائم بالذات اور آزاد ہستی مان کر پہلے خدا کو انسان سے اخذ کرنے کی کوشش کی (یعنی ترتیب حقائق بدل دی)، پھر خدا کو غیر متعلقہ ثابت کرکے انسانی زندگی کی تشکیل کے حق سے بے دخل کیا، پھر اسے مہمل قرار دے کر اس انکار کیا اور بالآخر اسے ضلالت قرار دیا۔

ڈیکارٹ جو جدید الحاد کا بانی ھے اسنے I think therefore I am کا دعوی کرکے صرف عاقلانہ انسانی نفس کو قائم بالذات قرار دیا، یوں اس نے تمام علم و حقیقت کا منبع انسان کو قرار دیا (یہاں سے جدید انسانیت پرستانہ الحاد کا آغاز ھوا)، اگرچہ اس نے اپنے تئیں اس انسان پرستانہ علمیت کی بنا پر وجود خداوندی کا عقلی جواز دینے کی ناکام کوشش بھی کی۔ جان لاک، بارکلے اور روسو وغیرہ نے علم کی عقلی توجیہہ کی بنیادیں منہدم کرکے اسے تجربے کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی اور بارکلے پادری نے اس علم سے وجود خداودی پر استدلال بھی قائم کئے جسے ہیوم کی تشکیکیت نے تہس نہس کردیا۔ عقلیت اور تجربیت کی اس کشمکش کو کانٹ نے ملانے نیز سائنسی علم کی آفاقی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی لیکن اسکے نتیجے میں مابعدالطبعیات جسے کانٹ نامینا کہتا ھے (بشمول وجود خداوندی) علم کے دائرے سے باہر نکل گیا (یعنی یہ غیر متعلقہ شے بن کر رہ گئی)۔ ھیگل نے آکر نامینا کے وجود ہی کا انکار کردیا (یعنی جو انسانی ذرائع معلومات کی گرفت سے باھر ھے اسکا وجود ھے ہی نہیں) اور بالآخر فرائیڈ و مارکس وغیرہ جیسے چند دیگر فلاسفہ نے مذھب کو نفسیاتی بیماری و معاشرتی رویے کی پیدوار قرار دیکر اسکی خالصتا مادی و سماجی تشریحات بیان کرکے ڈیکارٹ سے شروع ہونے والے اس الحاد کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ انکے بعد مغربی ڈسکورس میں خدا اور مذھب آج تک کبھی سنجیدہ امور بحث نہیں بنے۔

ھہارے یہاں کے مفکرین چند سائنسدانوں یا مغربی فلسفیوں کے خدا پر ایمان رکھنے سے مغربی و سائنسی ڈسکورس کو مذہبی سمجھنے کی غلط فہمی
کا شکار ھوجاتے ہیں، مگر یہ محض غلط فہمی ھے۔ مثلا نیوٹن، آئین سٹائین وغیرھم طرز کے سائنس دان بظاہر تو عیسائ ھونے یا خدا پر ایمان کے مدعی تھے مگر یہ اس خدا کو نہیں مانتے تھے جو مذہبی کتاب سے اخذ ھوتا ھے بلکہ یہ انکا اپنا عقلی تراشیدہ خدا ہوتا تھا جسکا اظہار کسی کے نزدیک 'میتھس کے فارمولوں' میں ھوتا تھا، کسی کے نزدیک 'قوانین فطرت' میں، تو کوئ اسے 'گھڑی ساز خدا' سمجھتا تھا۔ مگر ظاھر ھے خدا وہ نہیں ھے جو میں اپنی عقل سے تراشتا ھوں بلکہ وہ ھے جسے نبی خدا کہتا ھے۔ اگر خدا وہ ھے جسے 'میں' تخلیق کرتا ھوں تو ایسے خدا کی کیا وقعت؟ ایسا خدا بالآخر مر ہی جاتا ھے اور آخر میں بچتا 'میں' ہی ھوں، جیسے نطشے نے بتایا کہ مغربی ڈسکورس میں خدا مرچکا (god is dead)۔

چنانچہ کسی ڈسکورس میں محض تصور خدا کا وجود اسے مذہبی نہیں بنادیتا، اصل سوال یہ ھے کہ اس خدا کی حیثیت کیا ھے، یعنی کیا وہ خدا انسان اور اسکی زندگی کو متعین بھی کرتا ھے یا نہیں؟ ظاہر ھے سائنسدانوں کا خدا بس ایک ذہنی تصور ھے جسکا دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہاں خدا اگر ھے بھی تو فارمولے یا قوانین فطرت وغیرہ کا نام ھے، تو ایسے خدا کی کیا حیثیت، یہ تو خود انسان کے قابو میں ھے؟ پس مذہبی ڈسکورس میں اصل اہمیت الہام اور نبی کی ضرورت کو ماننے کی ہوتی ھے جسے یہ جدید الحادی ڈسکورس ہرگز قبول نہیں کرتا۔
مکمل تحریر >>

مغربی (تنویری) و مذھبی تصورات آزادی کا بنیادی اور اصولی فرق


اکثر و بیشتر مذھبی اور مغربی فکر میں پاۓ جانے والے تصورات آزادی کو بری طرح خلط ملط کرکے ''اسلام بھی انسانی آزادی کا حامی ھے'' کا دعوی داغ دیا جاتا ھے، یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ھے کہ ''اصل آزادی تو ھے ہی اسلام میں''۔

اچھی طرح سمھنا چاھئے کہ تصور آزادی دو معنی میں استعمال ھوتا ھے، ایک آزادی بطور صلاحیت (freedom as ability) دوسرا آزادی بطور قدر (freedom as value)۔ آزادی بطور صلاحیت کا معنی انسان کی اس صلاحیت کا اقرار کرنا ھے کہ انسان اپنے ارادے سے ایک عمل اختیار یا رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے (ان معنی میں آزادی 'جبروقدر' کی بحث سے جنم لینے والا ایک تصور ھے)، یعنی جس طرح انسان میں سماعت و بصارت وغیرہ کی صلاحیت ھے اسی طرح کسی درجے میں ارادے کی آزادی کی صلاحیت بھی ھے۔ مذہبی تصور آزادی کی حقیقت بس اتنی ھی ھے، مذھبی فکر میں آزادی خیر و شر کی تعیین و تفہیم میں کوئ اصولی حیثیت نہیں رکھتی (یہی وجہ ھے کہ کسی فقہی ڈسکورس میں آزادی کو مصدر شریعت نہیں سمجھا گیا)۔ اسکے مقابلے میں آزادی بطور قدر کا معنی یہ ھے کہ انسان کے اس ارادہ کر سکنے کی صلاحیت کو بالذات مقصد اور قدر (خیر) گرداننا ھے نیز اس میں اضافے کو اصل الاصول مان کر خیر وشر کے معاملات طے کرنا ھے۔ آسان الفاظ میں آزادی بطور قدر کا معنی آزادی کو خود آزادی کے پیمانے پر جانچنا ھے، نہ کہ اس سے ماوراء اور باہر کسی دوسرے پیمانے پر۔ مغربی ڈسکورس میں تصور آزادی اس دوسرے معنی میں استعمال ھوتا ھے۔

ایک آسان مثال سے اس فرق کو سمجھا جاسکتا ھے۔ فرض کریں آپ اپنے لڑکے کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ وہ لڑکا ایک لڑکے یا خسرے سے شادی کرکے اسے گھر لے آتا ھے۔ اس موقع پر اگر آپ یہ کہیں کہ یہ عمل جائز نہیں کیونکہ شرع میں اسکی اجازت نہیں، تو اس صورت میں آپ آزادی کو آزادی کے اصول پر نہیں بلکہ اس سے باہر کسی دوسرے پیمانے (شرع) پر جانچ رھے ہیں، لہذا آپ 'آزادی بطور قدر' کو نہیں مان رھے کیونکہ آپ 'حقوق' اخذ کرنے کیلئے آزادی کے علاوہ کسی دیگر پیمانے کو بنیاد بنا رھے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغربی ڈسکورس میں آزادی کو آزادی سے ماوراء کسی دوسرے تصور پر جانچنے کا نہ تو کوئ تصور و پیمانہ موجود ھے اور نہ ہی اسکی گنجائش، یہاں آزادی (صلاحیت) کو جانچنے کا جائز پیمانہ صرف یہ ھے کہ آیا اس عمل سے آزادی (بحیثیت اصول) میں اضافہ ھوتا ھے یا نہیں۔ چنانچہ مغربی فکر میں لڑکے کی لڑکے یا خسرے سے اس شادی کو جائز و مستحسن عمل سمجھا جاۓ گا کیونکہ اسکے ذریعے اظہار ذات کا ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا گیا، یعنی فرد کے اپنے ارادے کو چاھنے اور اسے حاصل کرسکنے میں اضافہ ھوگیا۔

خلاصہ یہ کہ مذھبی ڈسکورس میں قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت ھے، یعنی یہاں اھم بات یہ نہیں کہ انسان جو چاھنا چاھتا ھے اسے چاھنے لائق بنتا جا رہا ھے یا نہیں بلکہ قابل قدر بات یہ ھے کہ انسان وہ چاہ رہا ھے یا نہیں جو خدا چاھتا ھے کہ وہ چاھے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں قدر 'آزادی بطور قدر کی نفی' کرکے فنا کے درجے پر فائز ھونے کی کوشش کرنا ھے۔ چنانچہ معلوم ھوا کہ آزادی بطور قدر کا اصل مطلب عبدیت کی نفی کرکے اپنے رب کا باغی بن جانا ھے۔ اسی لئے مغربی تصور آزادی کی درست قرآنی تعبیر 'بغی' (سرکشی) کے الفاظ سے ھوتی ھے نہ کہ مذھبی تصور آزادی سے۔
مکمل تحریر >>

ھیومن (Human) کون ھے؟۔۔۔۔۔۔۔ھیومن ازم کی بنیادیں


عام طور پر ھیومن کا ترجمہ انسان کرکے یہ سمجھا جاتا ھے کہ 'انسان تو بس انسان ہی ھوتا ھے، چاھے مشرق کا ھو یا مغرب کا'۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ھے۔ درحقیقت ہر تہذیب (نظام زندگی) کا ایک اپنا مخصوص تصور انفرادیت ھوتا ھے۔ اس تصور انفرادیت کے تعین کی بنیاد اس سوال کا جواب ھے کہ 'میں کون ھوں؟' (زندگی کا مقصد کیا ھے، خیر کیا ھے شر کیا ھے وغیرہ جیسے سوالات کا جواب اسی بنیادی سوال کے جواب سے طے پاتے ہیں)۔ بالعموم تاریخی طور پر اس سوال کا جائز مقبول عام جواب یہ رہا ھے کہ 'میں عبد (مسلمان) ھوں'، اور طویل عرصے تک اسی تصور انفرادیت کو انسانیت کا جائز اظہار سمجھا جاتا رہا ھے۔ اگرچہ پچھلے ادوار میں اسکے برعکس جواب دینے والے افراد اور معاشرے بھی موجود رھے ہیں البتہ اکثریت معاشرے (جیسے تمام مذھبی معاشرے) اسی مذہبی تصور انفرادیت پر مبنی تھے۔

سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپی معاشروں میں تحریک تنویر کے زیر اثر اس سوال کا ایک اور جواب عام ھونا شروع ھوا (جو آج ان معاشروں میں بہت راسخ ھوچکا) جسکے مطابق 'میں عبد نہیں بلکہ آزاد اور قائم بالذات (autonomous) ھوں' (اس تصور ذات کی ابتداء ڈیکارٹ کے جملے I think, therefore I am سے ھوتی ھے، جسکے مطابق کائنات کی واحد ہستی جو اپنے ھونے کا جواز خود اپنے اندر رکھتی ھے نیز جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر اور منبع علم ھے وہ اکیلی ذات 'میں' یعنی 'I' ھوں)۔ اس آزاد اور قائم بالذات تصور ذات کو تنویری فکر میں ''ہیومن'' کہا جاتا ھے۔ ھیومن اپنی بندگی کی نفی اور صمدیت کا دعوی کرتا ھے، دوسرے لفظوں میں ھیومن 'خدا کا باغی' تصور ذات یا انسان ھے۔

مشہور مغربی فلسفی فوکو کہتا ھے کہ 'ھیومن' انسانی تاریخ میں پہلی بار سترھویں صدی میں پیدا ھوا۔۔۔۔۔ان معنی میں نہیں کہ اس سےقبل دنیا میں انسان نہیں پاۓ جاتے تھے اور نہ ہی ان معنی میں کہ یہ کوئ زیادہ عقل مند انسان تھا اور پہلے کے انسان جاہل وغیرہ تھے، بلکہ ان معنی میں کہ اس سے قبل کسی انسانی تہذیب اور نظام فکر میں آزادی ( autonomy or self-determination) کو انفرادیت کے جائز اظہار کا مقصد سمجھا اور قبول نہیں کیا گیا (گویا یہ کفر و الحاد کی ایک جدید شکل تھی)۔ اس سے قبل انسانیت کیلئے لفظ mankind (خدا کی رعایاومخلوق) استعمال کیا جاتا تھا، ھیومینیٹی (humanity) کاتصورسترھویں صدی میں وضع کیا گیا۔ ھیومن ازم کا ڈسکورس درحقیقت اسی تصور ھیومن سے نکلتا ھے جسکے مطابق انسانیت کی بنیادی صفت آزاد و قائم بالذات ھونا ھے اور عقل کا مطلب اس انسانی آزادی میں اضافے (یعنی انسان کو عملا قائم بالذات بنانے) کو بطور مقصد حیات قبول کرنا ھے۔ ھیومینیٹی جدید مغربی الحاد کا نہایت کلیدی تصور (central construct) ھے اور تنویری فکر سے برآمد ھونے والے مختلف مکاتب فکر (مثلا لبرل ازم،سوشل ازم، نیشنل ازم وغیرہم) اسی تصور ھیومینیٹی کے مختلف نظرئیے،تعبیرات و توجیہات ھیں۔

جو لوگ تصور ذات کے تعین میں ایمانیات کی بنیادی اہمیت سے ناواقفیت کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ 'انسان تو بس انسان ھے' وہ انتہائ سطحی بات کرتے ہیں (زندگی کا مقصد، خیروشر، علم،حق اور عدل کے تصورات، معاشرتی و ریاستی نظم کی تشکیل وغیرہم اس سوال کا جواب تبدیل ھونے سے یکسر تبدیل ھوجاتے ہیں)۔ آسان مثال سے سمجھئے کہ حضرت عیسی بطور ایک معین شخصیت مسلمانوں اور عیسائیوں میں مشترک ھیں (کہ دونوں تاریخی طور پر ایک ہی مخصوص شخصیت کو عیسی مانتے ہیں) مگر انکے درمیان چودہ سو سال سے وجہ اختلاف 'تصور عیسی' ھے نہ کہ 'شخصیت عیسی' (یعنی ایک کہ یہاں عیسی ابن اللہ ھیں جبکہ دوسرے کے یہاں عیسی رسول اللہ)۔ اگر کوئ یہ کہے کہ 'عیسی تو بس عیسی ھے، مسلمان اور عیسائ بلاوجہ دست و گریباں ہیں' تو یقینا وہ ایک غیر علمی بات کرے گا۔ اسی طرح ھیومن کو بھی انسان کہنا اور مسلمان کو بھی انسان کہنا ایسی ہی کنفیوژن کا شکار ھونا ھے، ظاہر ھے وہ انسان جو خود کو خدا کا بندہ اور وہ جو خود کو خدا سمجھتا ھے بھلا کیسے یکساں زندگی (معاشرہ و ریاست) تعمیر کرسکتے ہیں؟
مکمل تحریر >>

اسلامک ماڈرنزم (مغربی اور اسلامی ڈسکورس میں مطابقت پیدا کرنے) کی فکری بنیادیں


یورپ میں جدید الحادی (یعنی تنویری، بشمول سائنسٹفک) ڈسکورس اور عیسائی مذھب کی تاریخی کشمکش یہ بتاتی ھے کہ عیسائیت اس الحاد کے آگے شکست و ریخت کا شکار ھوگئ۔ البتہ جدید مسلم مفکرین نے جدید تنویری الحاد اور مذھب کی اس کشمکش کو 'تنویری فکر بمقابلہ مذھب' کے بجاۓ 'تنویری فکر بمقابلہ عیسائیت' سے تعبیر کرکے 'تنویری فکر اور اسلام کا ملغوبہ' تیار کرنے کا علمی ڈسکورس وضع کیا۔

ان جدید مسلم مفکرین کے دو کلیدی مفروضات ہیں (اولا) عیسائیت چونکہ باطل اور غیر عقلی تھی لہذا اس عقلی تنویری (بشمول سائنٹفک) ڈسکورس کا سامنا نہیں کرسکی (ثانیا) تنویری ڈسکورس کی بنیاد یورپ میں مسلم سپین کے راستے اسلامی علمیت سے اخذ کرکے درآمد کی گئ۔ ان دونوں مفروضات کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام چونکہ حق (عقل و فطرت کے مطابق) ھے لہذا اسے عقلی تنویری ڈسکورس (جو فی الواقع اسلام ہی کا پرتو ھے) سے نہ صرف یہ کہ کوئ خطرہ نہیں بلکہ یہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ھے۔ یہیں سے اسلامک ماڈرنزم (یعنی مغرب اور اسلام میں اصولی مطابقت ھے، تنویری اقدار آزادی مساوات و ترقی اسلام کی عطا کردہ ھیں، سائنٹفک ڈسکورس اسلامی ھے، اسلام ماڈرن تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال سکتا ھے، جدید اداروں کی اسلام کاری کرکے انکے اسلامی متبادل تیار کرنے) کی تحریک کا آغاز ھوتا ھے۔

ظاھر ھے ان جدید مسلم مفکرین کے یہ دونوں ہی مفروضے غلط تھے کیونکہ تنویری ڈسکورس درحقیقت کسی مخصوص مذھب نہیں بلکہ بالذات مذھب کا رد ھے کہ یہ خدا پرستی کے بجاۓ انسان پرستی کی بنیاد پر استوار ھے۔ یقینا عیسائیت کے اس ڈسکورس سے شکست کھاجانے کی ایک وجہ اسکی داخلی کمزوریاں (مثلا شرک پر مبنی ھونا، فقہ کا نہ ھونا وغیرہ) بھی تھیں مگراسکی یہ شکست اس بات کی دلیل نہیں کہ تنویری فکر درست اور حق کا پرتو تھی (ویسے بھی دنیوی غلبہ حق کی دلیل نہیں ھوتا)۔ مسلم مفکرین کی عیسائیت کی اس شکست کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے کی ایک وجہ عیسائیت کی اسلام دشمنی بھی تھی (یعنی چونکہ عیسائیت کو مسلمان اپنے قدیم دشمن کے طور پر دیکھتے آئے تھے لہذا عیسائیت کی اس شکست و ریخت نیز تنویری مفکرین کی طرف سے عیسائیت کے خلاف کئے جانے والے پروپیگنڈے سے متاثر ھونا کوئ عجیب امر نہیں تھا)۔ اسی طرح تنویری ڈسکورس کو اسلام کی عطا قرار دینا شکست خوردہ ذہنیت کے سواء اور کچھ نہ تھا۔

لیکن ہر گزرتا وقت یہ ثابت کرتا جارہا ھے کہ مسلم ماڈرنسٹ حضرات کا تجزیہ غلط تھا کیونکہ تنویری فکر کے ساتھ جس کشمکش کا سامنا آج سے دو سو سال قبل عیسائیت کو درپیش تھا آج اسلام بعینہہ اسی کشمکش کا شکار ھے۔ مسلمان جس قدر اسلامک ماڈرنزم کو اختیار کرتے چلے جارھے ہیں اسلام اسی قدر سیکولرائز ھوکر تنویری ڈسکورس اور اس سے برآمد ھونے والی (لبرل سرمایہ دارانہ) معاشرتی و ریاستی صف بندی میں ضم ھوتا چلا جا رھا ھے۔ جس طرح توحید اور شرک ایک ساتھ جمع نہیں کئے جاسکتے بالکل اسی طرح خداپرستی اور انسان پرستی بھی یکجان نہیں ھوسکتے، ان دونوں میں سے کسی ایک کو لازما مغلوب ھونا ھی پڑے گا۔
مکمل تحریر >>

انیسوی/بیسویں صدی کا کامیاب ترین اجتہاد ۔۔۔۔ علوم اسلامیہ کا تحفظ: علمائے کرام کا ایک حیرت انگیز کارنامہ


جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب سرمایہ دارانہ استعماری ریاست نے خلافت اسلامیہ کے اجتماعی نظم کو تحلیل کردیا، اس موقع پر علماء کرام کے سامنے تین آپشنز تھے (1) استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد برپا کی جاۓ (مگر جنگ آزادی کی ناکامی سے بظاھر اسکا غیر موثر ھونا واضح ھوچکا تھا) (2) استعمار کے ساتھ مصالحت اختیار کرکے اسلام کو اس کے علمی و اجتماعی ڈھانچے کے مطابق ڈھال کر سرمایہ دارانہ نظم میں ضم کرنے کی کوشش کی جاۓ (سرسید کے علی گڑھ نے یہ بیڑا اٹھایا)، (3) ریاستی نظم سے علیحدگی اختیار کرکے علوم اسلامیہ کا تحفظ کیا جاۓ (نیز فرد و معاشرے کی اصلاح اور دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا جاۓ)۔

انیسویں (اور بیسویں صدی) کے مخصوص چیلنجز کے تناظر میں علماۓ کرام نے اس تیسرے آپشن کو اختیار کرنے کا اجتہاد کیا اور کہنا پڑتا ھے کہ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دفاعی جدوجہد برپا کرنے کا سب سے کامیاب ترین اجتہاد تھا۔ اس حکمت عملی کے تحت علماۓ بریلی و دیوبند نے برصغیر پاک و ھند میں مدارس کا ایک ایسا جال بچھایا جس کے نتیجے میں پوری اسلامی علمیت (ڈسکورس) بعینہہ اپنی اصلی تاریخی صورت میں محفوظ کرلی گئ اور بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ ڈسکورس کے خلاف جمع کیا جانے والا یہ سب سے بڑا خیر تھا۔

درحقیقت علماء کی دفاعی جدوجہد کا یہ اجتہاد ہی آج اسلامی تحریکات کو سرمایہ داری کے خلاف اقدامی جدوجہد کرنے کی بنیاد فراھم کرتا ھے۔ ایسے حالات میں کہ جب تمام مذاھب و نظریات زندگی تنویری ڈسکورس کے سامنے بری طرح پٹ چکے ھیں، علماۓ کرام کا اسلامی علمیت کو محفوظ کرلینا ہی اسلام کو وہ بنیاد فراھم کرتا جس کے بلبوتے پر آج اھل اسلام تن تنہا سرمایہ دارانہ (تنویری) ڈسکورس کا ڈٹ کر مقابلہ کررھے ہیں۔ اسی طرح اگر اصلاحی و انقلابی جماعتیں کامیابی سے ہمکنار ھوکر کوئ علاقہ حاصل کربھی لیں لیکن اگر اسلامی علوم ہی محفوظ نہ ھوں تو ریاستی عمل کو شارع کی رضا کے مطابق چلانے اور قائم رکھنے کی سرے سے کوئ بنیاد ہی باقی نہیں رھتی۔ درحقیقت علوم اسلامیہ کے تحفظ و فروغ کے بغیر 'اسلام ریاست' کا تصور ہی بے معنی تصور ھے کیونکہ ریاست تو ھے ہی ایک مخصوص علمیت کی بنا پر فیصلوں کے صدور اور نفاذ کا نام۔ پس اگر اسلامی علمیت ہی معدوم ھوجاۓ تو اسلامی ریاست بھلا کیسے وجود میں آسکتی ھے؟ ایں خیال است محال است۔

چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے تمام گروھوں پر لازم ھے کہ وہ علماۓ کرام کے اس حیرت انگیز حد تک عظیم الشان کارنامے پر جتنا ھوسکے اپنے رب کا شکر بجا لائیں اور عالم اسباب میں اس کارنامے کو معرض وجود میں لانے والے گروہ کی دل سے قدر کریں کہ یہ واقعی ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا جسکی مثال اکیسویں صدی میں سواۓ مسلمانوں کے کوئ دوسرا گروہ پیش کرنے سے قاصر ھے کہ سب کی علمیتیں (اگر کچھ تھیں بھی) یا تو قصہ پارینہ ھوچکیں اور یا پھر سرمایہ دارانہ ڈسکورس میں ضم ھوکر اضمحلال کا شکار ھوگئیں۔ سچ کہا نبی صادق نے 'انبیاء کے ورثاء تو بس علماءہی ھیں'۔
مکمل تحریر >>

مذھب اور الحاد میں فرق ایمان یا غیر ایمان نہیں بلکہ نوعیت ایمان کے ذریعے کا ھے '


میں کون ھوں' کے سوال کا جواب دینا ناگزیر ھے۔ کوئ چاھے یا نہ چاھے، اسے پسند ھو یا نا پسند، خاموش رھے یا چلا کر بولے ہر حال میں اس سوال کا جواب لازما دے کر رھے گا۔ اب اسکا ایک جواب وہ ھے جو انبیائے کرام نے تسلسل کے ساتھ بتایا (اور اس جواب پر انسان اپنے نفس کے اندر بہرحال ایک اثباتی داعیہ بھی محسوس کرتا ھے گوکہ وہ قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھتا) اور دور جدید میں اسکا دوسرا جواب وہ ھے جو چند ملحد سائنس دان اور فلسفی دیتے ہیں۔ یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ان ملحدین کا جواب کسی مجرد، آفاقی یا معروضی عقلیت نہیں بلکہ انکے ماقبل عقل احساسات و خواہشات پر مبنی ھوتا ھے جنکے لئے انکی عقل کوئ جواز پیش نہیں کرسکتی۔ الغرض اس سوال کے جواب میں بہرحال انسانی عقل کو ایمان ہی لانا پڑتا ھے۔ یعنی معاملہ یہ نہیں ھے کہ ایک جگہ تو ایمان ھے اور دوسری جگہ عقل وغیرہ۔ ہرگز نہیں، ان دونوں ڈسکورس میں سے ہر دو میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے معاملہ ایک ہی ھے کہ ان میں سے کس کی بات پر ایمان لایا جاۓ، انبیاء کی یا انسانی خواہشات کی۔ لہذا ملحدین کا یہ اعتراض کہ مذھب اس لئے ڈاگمیٹک ھوتا ھے کیونکہ وہ ایمان کا تقاضا کرتا ھے جبکہ ھم ایمان کی بجاۓ عقل کی بات کرتے ہیں فریب کاری اور نا سمجھی کے سواء اور کچھ نہیں۔
مکمل تحریر >>