Thursday, October 24, 2013

اسلام میں غلامی کی ضرورت و پس منظر


اسلام کا (جنگی قیدیوں کے حوالے سے) غلامی کاآپشن نہایت پسندیدہ و عقلی تصور ہے۔ درحقیت اس کے ذریعے اسلام ان مارجنل لوگوں کو اسلامی معاشرے میں سمو دیتا (internalizeکردیتا) ہے، بجاۓ اس سے کہ وہ ہمیشہ marginal اور alien طبقے ہی رہیں۔ یہ اسی انٹرنلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں باقاعدہ سلطنت غلامان قائم ہونے کی نوبت تک آگئی۔چونکہ اسلامی ریاست ایک جہادی (ever expanding) ریاست ہوتی ہے لہذا اس میں غلامی کا یہ آپشن ہمیشہ کیلیے کھلا رکہا گیا اور فقہا نے ایسا ہی سمجھا (کیونکہ وہ اسلامی ریاست کی اس نوعیت سے بخوبی واقف تھے)۔ پھر جن لوگوں نے اسلامی ریاست کو مغربی ریاستوں کے پیمانوں پر 'ویلفئر نیشن سٹیٹ ' اور اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی کے تناظر میں دیکھا انہیں غلامی کے اس تصور سے عار محسوس ہوئ اور اپنی علمی و سیاسی تاریخ کو نظر انداز کرکے اس دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔سوال یہ ہے کہ جن قوموں نے اسے برا سمجہ کر ترک کیا انہوں نے اس طبقے کو سواۓ گوانتانامو جیسی جیلوں کے اور کچھ دیا؟ آخر ایسی قوموں کی علمیت اور عمل سے متاثر ہونے کی وجہ ہی کیا ہے؟ آج جب دنیا اس بات کو مان رہی ہے کہ معاشرتی مسائل حل کرنے کا درست طریقہ انہیں internalize کرنا ہے (مثلا غربت کے خاتمے کیلے ضروری ہے کہ لوکل سطح پر کوآپریٹوز کے ذریعے ذرائع میں اضافہ کیا جاۓ تاکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں نہ یہ کہ لوگوں کو رقم دے دی جاۓ)، ایسے میں ہم اسلام کے اس عظیم آپشن پر بات کرتے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔