Tuesday, October 15, 2013

علم معاشیات ۔۔۔۔۔ جدید انسان کا مذھب (2) [گذشتہ کے ساتھ پیوست]


پچھلی پوسٹ میں علم معاشیات کے ایک بڑے نظرئیے نیوکلاسیکل اکنامکس (یا لبرل سرمایہ داری) کی بابت بتایا گیا کہ اپنی ساخت میں یہ ایک ڈاگمیٹک نظریہ ھے۔ یہاں اسی ضمن میں علم معاشیات کے دوسرے بڑے سیکولر نظرئیے سوشل ازم (یا ریاستی سرمایہ داری) کا مختصر نقشہ دیکھتے ہیں:

--> انسان کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسان قائم بالذات ہستی ھے اور اسکی آزادی کا اظہار فرد کی ذات میں نہیں بلکہ ایک مخصوص نوع یا گروہ (کلاس) میں ھوتا ھے

--> انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت کا بنیادی مسئلہ طبقاتی کشمکش ھے جسکا مقصد استحصال کو ممکن بنانا ھے۔ اس کشمکش کی بنیاد ذرائع کی قلت (scarcity) ھے، اس قلت کی وجہ سے لوگ ہمیشہ سے زیادہ سے زیادہ ذرائع پر قبضہ کرنے پر مجبور رھے ہیں اور اس کوشش میں انسانیت دو طبقات میں تقسیم ھوجاتی ھے، ایک طبقہ وہ جو ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ھوجاتا ھے دوسرا وہ جسے یہ پہلا طبقہ اپنے لئے کام کرنے پر مجبور کرکے اسکی پیداوار پر قبضہ کرتا ھے۔ اپنے اس استحصال کو جواز دینے کیلئے یہ استحصالی طبقہ علم، مذھب، ریاست، معاشرت کے نام پر چند نظریات گڑھ لیتا ھے

--> اس مسئلے کا حل کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل scarcity کا خاتمہ ھے (جو ''اصلی گناہ'' کی جڑ ھے)، مگر اسکے لئے طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ضروری ھے جو ذرائع پیدوار کے لامتناہی اضافے کی راہ میں رکاوٹ ھے کیونکہ استحصالی طبقہ سرمائے میں اتنا ہی اضافہ کرتا اور اسے اسطرح تقسیم کرتا ھے جو اسکے ذاتی مفادات کا تحفظ کرے نہ کہ انسانیت کی ترجیحات کا لحاظ رکھے

--> اس حل کا طریقہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس حل کے حصول کیلئے لازم ھے کہ سرمائے کی نجی ملکیت ختم کرکے اجتماعی ملکیت قائم کردی جائے جو زیادہ efficiency کے ساتھ ساتھ equity (قدرے مساویانہ تقسیم سرمایہ) کو بھی ممکن بنائے گی

--> ریاستی یا سیاسی پالیسی پیکج کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ضروری ھے کہ:
-- تمام مزدوروں کو ایک (وین گارڈ پارٹی کے) پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے جس کا مقصد موجودہ استحصالی طبقے سے دولت چھین کر اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنا ھوگا
-- اس کیلئے استحصالی طبقے (سوشلسٹ آئیدیالوجی کی 'شیطانی قوت') کے ساتھ جنگ و جدل ناگزیر ھے
-- استحصالی طبقے کا استحصال جوں جوں بڑھتا جائے گا (جو کہ ناگزیر عمل ھے) زیادہ سے زیادہ مزدور اس بغاوت میں شامل ھوتے چلے جائیں گے
-- اس جدوجہد کے نتیجے میں یہ پارٹی کامیاب ھوکر مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ (جو درحقیقت اصل جمہوریت ھوگی کہ انسانیت کی عظیم ترین اکثریت مزدور ھے) یعنی سوشلسٹ ریاست قائم کرے گی
-- یہ ریاست طویل عرصے تک سوشلسٹ تعلیمات کے مطابق ریاستی معاملات کو چلائے گی اور ان پالیسیوں نیز سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے نتیجے میں ذرائع پیدوار (سرمائے) میں لامتناہی اضافے کی بنیاد ڈالے گی

--> انسانیت اس نظام کو کیوں قبول کرے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ سوشلسٹ ریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں جب ذرائع پیداوار میں لامتناہی اضافہ ھوگا تو:
-- انسان scarcity پر ہمیشہ کیلئے قابو پالے گا، یوں انسانیت اس طبقاتی کشمکش کے شکنجے سے آزاد ھوجائے گی
-- تمام قسم کے طبقات (خاندان، مذھب، قومیتں وغیرھم) ختم ھوجائیں گے
-- scarcity اور طبقات کے خاتمے کے نتیجے میں ایک نیا انسان (specie being) اور معاشرہ (کمیونسٹ معاشرہ) دریافت ھوگا جہاں موجودہ اخلاقی قدریں لغو ھوجائیں گی (کیونکہ انکا مقصد استحصالی طبقے کے مفادات کا تحفظ ھے)، ریاست تحلیل ھوجائے گی (کہ اسکا مقصد تو استحصالی طبقے کیلئے جبر کرنا ھوتا ھے اور کمیونسٹ معاشرے میں جبر کی ضرورت ہی نہ ھوگی کہ وہاں طبقہ ہی نہ ھوگا)، چنانچہ وہاں فرد کیلئے جو وہ چاھناچاھے گا چاھنا ممکن ھوسکے گا (یعنی انسان عملا خدا بن جائے گا)

قابل غور بات یہ ھے کہ سیکولرازم کے یہ دونوں ہی بڑے دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ مقصد تو انسان کو قائم بالذات بنانا ھے البتہ فرق طریقے اور لائحہ عمل کا ھے۔ اسی لئے ھم کہتے ہیں کہ سوشل ازم ھو یا لبرل ازم، دونوں ہی سرمایہ داری کی دو مختلف شکلیں ہیں، دونوں کی جڑ ایک ہی کلمہ خبیثہ 'لا الہ الا الانسان' (ھیومن ازم) ھے جو تنویری علمیت (enlightenment) سے نکلنے والا اپنی نوعیت کا ایک نیا الحاد ھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔