Wednesday, October 9, 2013

'قرون اولی کی طرف مراجعت'' سے وحشت کی وجہ ۔۔۔۔ جدید ڈسکورس کا جبر اور غلبہ دین کی اہمیت


آج اگر کسی سے کہا جائے کہ ''ھم قرون اولی کی طرف مراجعت چاھتے ہیں کہ یہی ھمارا آئیڈئیل ھے'' تو اس تصور سے اسے وحشت ھونے لگتی ھے اور وہ اسے غیر عقلی و غیر فطری تصور کرتا ھے۔ اسکا مفروضہ یہ ھوتا ھے کہ زمانہ تبدیل ھوتا رھتا ھے اور یہ دعوی کرتے وقت یہ جدید انسان تبدیلی کو کوئی مجرد (abstract) و نیوٹرل و غیر اقداری (value-free) شے سمجھ رھا ھوتا ھے۔ مگر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اگر تبدیل ھوتے رھنا ہی حقیقت ھے تو جدید طرز زندگی سے قرون اولی کی طرف تبدیلی کیوں نہ کرلی جائے؟ آخر یہ جدید انسان تبدیلی کے اس تصور (قرون اولی کی طرف مراجعت) کو 'بہتری' کے بجائے 'تنزلی' کیوں سمجھتا ھے؟ آخر کیا وجہ ھے کہ حاضروموجود دنیا میں تبدیلی آزادی و ترقی (آج کا غالب ڈسکورس) کیلئے آرہی ھے، کسی اور مقصد کیلئے نہیں؟ اگر تبدیلی برائے تبدیلی کوئی شے ھوتی ھے تو 'قرون اولی کی طرف' کیوں تبدیلی نہیں ھورہی یا کیوں نہ کرلی جائے؟

بات دراصل یہ ھے کہ تبدیلی برائے تبدیلی نامی کوئی شے اس کائنات میں وجود نہین رکھتی، تبدیلی ہمیشہ 'ایک آئیڈئیل کی طرف لائی جاتی' نہ کہ 'خود بخود آجاتی' ھے۔ تنویری ڈسکورس سے نکلنے والی جدید علمیت (و عقلیت) یہ دعوی کرتی ھے کہ تبدیلی آزادی (سرمائے) میں اضافے کیلئے ھونی چاھئے، یہی اسکا مطلوب و مقصود (آئیڈئیل) تصور تبدیلی ھے۔ اس تنویری تصور تبدلی کے مطابق وہ مذہبی قوتیں جو ایسی معاشرت و ریاست کے دفاع و فروغ کی جدوجہد کرتی ہیں جس میں آزاد (سرمائے کی غلام) انفرادیت کے بجائے مذہبی انفرادیت کے پھلنے پھولنے کے امکانات ھوں، وہ anti-social (تہذیب کش) تحریکات ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ آج زمانہ اسی حاضر و موجود اور غالب ڈسکورس (جدید تصور تبدیلی) کی طرف رواں دواں ھے (جس کیلئے اسے وضع کیا گیا تھا)۔ چنانچہ تبدیلی ہمیشہ آئیڈئیل کی طرف آتی ھے، چونکہ جدید انسان نے آزادی و ترقی (یعنی سرمائے میں اضافے) کے آئیڈئیل کو بالعموم قبول کرلیا ھے لہذا تبدیلی اسی جانب آرہی ھے، یہ نہ تو آسمان سے ٹپک رھی ھے اور نہ ہی خود بخود زمین سے اگ رہی ھے بلکہ اس کیلئے ایک نہایت پیچیدہ ادارتی صف بندی وضع کی گئی ھے جو ایک خود کار نظام کی طرح کروڑوں انسانوں کو تبدیلی کے اس عمل میں کولہو کے بیل کی طرح جوت رہی ھے۔

پس جدید انسان کی قرون اولی کی طرف مراجعت سے وحشت کی وجہ اس تصور تبدیلی کا کسی قانون فطرت یا عقل کے خلاف ھونا نہیں بلکہ جدید علمی و تہذیبی ڈسکورس کا فرد پر زبردست جبر ھے۔ جیسے جیسے لوگ ان جدید (جاہلی) اقدار (آزادی و ترقی) کو رد کرتے چلے جائیں گے، جیسے جیسے یہ جدید ادارتی صف بندی تہس نہس کا شکار ھوکر تحلیل کردی جائے گی، ویسے ویسے عام انسان کو قرون اولی کی طرف مراجعت کا تصور بھی فطری و عقلی محسوس ھونے لگے گا۔ 'عوام' کے تصورات عقل و فطرت کا ماخذ حاضروموجود غالب ڈسکورس ہی ھوا کرتا ھے۔ اسی لئے موجودہ جاہلی تہذیب کو رد کرکے غلبہ دین کی جدوجہد لازم و بنیادی ھے کہ اسکے بغیر چند نفوس کی اصلاح اور انہیں اس جبر سے بچا لیجانا تو ممکن ھے مگر اسلامی تصورات فطرت و عقل کا عوامی فروغ ممکن نہیں۔

پھر آئیڈئیل میں اھم بات یہ نہیں ھوتی کہ آپ کو وہ پورا کا پورا حاصل ھوچکا یا نہیں، بلکہ یہاں اھم بات یہ ھوتی ھے کہ تبدیلی اسکی جانب ھورہی ھے یا اسکے خلاف، یہ گویا پالیسی ویرئیبل ھوتا ھے جو عمل و تبدیلی کی جہت متعین کرتا ھے۔ یہاں یہ سوال بھی اھم نہیں ھوتا کہ آئیڈئیل پورا کا پورا حاصل ھونا ممکن بھی ھے یا نہیں، بلکہ اھم بات یہ ھوتی ھے کہ ھم اسے 'کتنا حاصل کرسکے'۔ ظاھر ھے اس دنیا میں آئیڈئیل کبھی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ھوسکتا بلکہ وہ تو حاصل ھوتا رھتا ھے، اسکی مثال یہ ھے کہ جیسے انفرادی حیثیت میں ہر مسلمان کیلئے آئیڈئیل نمونہ رسول یا صحابہ کا طرز عمل اختیار کرلینا ھے، مگر ظاھر ھے کوئی بھی انسان نہ تو رسول بن سکتا ھے اور نہ ہی صحابی بلکہ وہ ایسا بنتا رھنا چاھتا ھے اور اسی بنیاد پر وہ خود کو ٹٹولتا ھے کہ کتنا اپنے آئیڈئیل سے قریب ھوپایا۔ پس جتنا کوئی دور قرون اولی کی طرف مراجعت کرچکا یا کرلے گا اتنا ہی اعلی و ارفع کہلائے گا اور جو اس معیاری دور سے جتنا دور ھے وہ اتنا ہی کمتر ھے۔ ہماری جدوجہد کی بنیاد یہ ھے کہ دنیا کو جتنا ممکن ھوسکے ویسا ہی بنادیا جائے جیسی سرکار (ص) کے زمانے میں تھی، یعنی انفرادیت، معاشرت و ریاست کا بہترین نمونہ وہ ھے جسے خود سرکار (ص) نے 'خیرالقرون قرنی' کہا نہ کہ موجودہ جاہلی دور۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔