Wednesday, October 9, 2013

جدید مسلم ذھن کے دھرے پیمانے

جدید مسلم ذھن کی غلامی کا یہ عجب حال ھے کہ اگر امریکہ اور پورپی اقوام کی سفاکیت کی پول کھولی جائے تو اسے نجانے کیوں ناگواری ھونے لگتی ھے۔ تاریخ کے بدترین استعمار کی سسٹمیٹک نسل کشی اور لوٹ مار (کہ جسکی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی) کو یہ ماضی کے چند برے قسم کے حکمرانوں کے مظالم کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنے لگتا ھے (مثلا یہ کہے گا کہ ''مسلمانوں میں بھی بہت سے برے حکمران گزرے ہیں، سپر پاور ایسا ھی کرتی ھے، وغیرہ'')۔ ایسا کہتے وقت یہ ذھن بڑی معصومیت کے ساتھ یہ فرض کرلیتا ھے گویا مسلمانوں کی خلافتیں بھی شاید اسی طرح استحصال اور نسل کشی پر قائم ہوتی رھی ھونگی، مسلمان بھی اسی طرح لوٹ کھسوٹ سے کام لیتے ھونگے اور شاید دنیا میں ایسا ہی ھوتا رھا ھوگا۔

اس پر بھی غور کیجئے کہ ان ذہین جدید لوگوں کو بادشاھوں کے مظالم تو ''نظم ملوکیت'' کا شاخسانہ نظر آتے ہیں اور اس وجہ سے یہ ملوکیت سے سخت نالاں ھونگے مگر جمہوری استعمار کی نسل کشی بھی انہیں چند جمہوری حکمرانوں کی غلطیاں دکھائی دیتی ہیں، فیاللعجب۔ قرآن نے اسی رویے کو 'مطففین' (لینے اور دینے کے پیمانوں کا فرق کرنے والوں) سے تعبیر کیا ھے۔ انسانی تاریخ میں جمہوریت کے دامن پر جتنے انسانوں کی قتل و غارت گری، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے داغ ہیں پوری انسانی تاریخ میں ان سے زیادہ بدنما داغ کسی اور نظم اجتماعی کے دامن پر نہیں ملیں گے۔ مگر یہ جدید مسلم ذھن پھر بھی اسی پر فدا ھوا چلا جا رہا ھے، اتنا ہی نہیں قرآن کی آیات پڑھ پڑھ کر یہ ثابت کررھا ھے کہ خدا کا ازلی ارادہ بھی ایسا ہی (سفاکانہ) نظام قائم کرنا رھا ھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔