Friday, October 11, 2013

عید قربان پر ایک لایعنی اعتراض

''ہر سال لاکھوں بے زبان جانوروں کی گردنوں پر مذھب کے نام کی چھریاں چلا کر عقائد کے فریضے ادا کرنے سے تو کہیں بہتر اس رقم سے فاقوں سے مرتی لب دم انسانیت کا پیٹ بھرنا ھے''۔

درج بالا جملہ جدیدیت ذدہ مذھب دشمن ذہنیت کی عکاسی ھے جسے مذھب کا اظہار کرنے والی ہر رسم سے چڑ ھے۔ مگر درج بالا قسم کی باتیں اس جدید ذہنیت کی علمیت نہیں بلکہ عقلی افلاس کا شاخسانہ ھے۔ گو کہ ھم مسلمان عبادات کے معاشی فوائد دیکھنے کے قائل نہیں کہ یہ ذہنیت عبادت کی روح ہی مجروح کردیتی ھے مگر مخالف ذہنیت کی تسلی کیلئے چند گذارشات پیش خدمت ہیں۔

اگر قربانی کی رسم کو خالصتا معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس پر اعتراض صرف وہی شخص کرسکتا ھے جس نے علم معاشیات کبھی نہ پڑھی ھو۔ مثلا (1) اسکے نتیجے میں آپ کے ملک میں فارمنگ اور کیٹل انڈسٹری نمو حاصل کرتی ھے جس سے بالعموم چھوٹا کسان یا غریب طبقہ ہی منسلک ہوتا ھے اور عید قربان پر اسے اپنی محنت کا اچھا مول مل جاتا ھے جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ھے، (2) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی کا پہیہ چلانا ھوتا ہے اور قربانی کا عمل اسکا بہترین ذریعہ ھے، (3) پھر ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ھے اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی گوشت کھاتا ہے جو پورا سال صرف اسکا خواب ہی دیکھتا ھے، (4) پھر ان جانوروں سے جو کھال حاصل ھوتی ھے اس سے لیدر پراڈکٹس بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ھوتا ھے، (5) پھر ذرائع نقل و حمل سے منسلک لوگ بھی ان دنوں کے دوران جانوروں کی ترسیل کے کاروبار کے ذریعے آمدن حاصل کرتے ہیں۔ الغرض عید قربان چند دنوں کے دوران اربوں روپے کی خطیر مگر بے کار بچتوں کو سیال مادے میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث بنتی ھے۔ جو لوگ علم معآشیات میں کینز (Keynes) کے ملٹی پلائیر (multiplier) کے تصور سے واقف ہیں کم از کم وہ تو عید قربان پر معاشی نقطہ نگاہ سے لب کشائی کی جرات نہیں کرسکتے۔





پھر اس جدید ذھن کی حالت یہ ھے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید قربان پر خرچ ھونے والی رقم کے وقت ہی آتا ھے جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ھے۔ البتہ اسے ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور مہنگے برگروں پر اڈا دیتے ہیں، ان کھربوں ڈالرز کے ضیاع پر یہ کبھی انگلی نہیں اٹھاتے جو یورپ اور امریکہ میں پیٹس (pets) (کتوں بلوں) کے کھلونے بنانے میں خرچ ھوتے ہیں، ان کھربوں ڈالر کے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں ھوتی جو ہر سال کاسمیٹکس انڈسٹری میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور جنکا مقصد اس کے سواء اور کچھ نہیں کہ میں زیادہ دنوں تک جوان نظر آؤں۔ الغرض آپ اپنے اردگرد غور کیجیے کہ ٹریلین ڈالرز کے ان بیش قیمت ذرائع کے بے دریغ ضیاع پر تو یہ جدید لوگ کبھی اعتراض نہیں کریں گے جو اپنی نوعیت میں غریب کے جذبات کچل دینے والے اخراجات ہیں اور جنکا مقصد امیروں کے چند ''لطیف احساسات'' کی تسکین کے سواء اور کچھ نہیں ھوتا، مگر عید قربان کے موقع پر یہ غریب کے کچھ ایسے حمایتی بن جاتے ہیں گویا ان سے بڑا غریب پرور آج تک پیدا ہی نہیں ھوا۔ درحقیقت ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ھے جس کیلیے یہ ہر موقع کا بےموقع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔


پھر یہ پہلو بھی قابل دید ھے کہ یہ جدید ذھن ''جانوروں کے بے زبان'' ھونے کا محاورہ پیش کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ھے گویا قربانی کا عمل جانوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا مظہر ھے۔ مگر جب مہنگے ریسٹورنٹس میں بیٹھ کر یہ سجیاں، کباب، تکے، کڑھایاں الغرض مزے مزے کی بار بی کیوز کھا رھا ہوتا ہے اس وقت نجانے اسکا یہ احساس ظلم کہاں چلا جاتا ھے؟ کیا ان لذیذ ڈشز میں استعمال ھونے والا گوشت من و سلوی کی طرح آسمانوں سے نازل ھوتا ہے یا وہ قصائیوں کے مذبح خانوں سے فراہم ھوتا ھے؟ الغرض ان جدید لوگوں کی کوئی بات ایسی نہیں جو عقل و دانش کے پیمانے پر پوری اترتی ھو۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔