Thursday, October 10, 2013

علم معاشیات کی بنیاد ۔۔۔۔۔ مذھب کے خلاف جدید الحاد کو تقویت دینا


علم معاشیات کے بارے میں ہمارے جدیدیت ذدہ مسلم مفکرین اور ماہرین سوشل سائنسز کا گمان ھے کہ شاید یہ چند آفاقی حقائق اور انسانی رویوں کا مظہر ھے۔ یہ لوگ علم معاشیات کے اس دعوے پر یقین رکھتے ہیں کہ قوانین طلب و رسد پر مبنی مارکیٹ نظم معاشرے میں خود بخود توازن اور ھم آہنگی برقرار رکھنے کا موجب ھے۔ انکا خیال ھے کہ ایڈم سمتھ اور اس جیسے دیگر ماہرین معاشیات نے گویا قوانین طلب و رسد کی صورت میں ایک آفاقی اور مثبت (positive) حقیقت کو دریافت کیا۔

مگر حقیقت یہ نہیں، طلب و رسد پر مبنی خود کار مارکیٹ نظم کا تصور درحقیقت کسی مثبت آفاقی سچائی کی دریافت کے طور پر نہیں بلکہ یورپ میں مذھب کی بنیاد پر ریاستی مداخلت سے گلو خلاصی کیلئے پیش کیا گیا تھا۔ تنویری (enlightenment) مفکرین کے ابتدائی ادوار میں یورپی معاشروں پر بالعموم اور ریاستوں پر جزوا عیسائی عقلیت و علمیت کا غلبہ ھوا کرتا تھا۔ یورپ میں نشات ثانیہ، تحریک اصلاح مذھب اور جدیدیت کے بعد جیسے جیسے مذھب کے خلاف الحاد مضبوط ھوتا چلا گیا، نیز یورپ میں لبرل سرمایہ دار اشرافیہ قوت حاصل کرنے لگی مذھب اور الحاد ذدہ طبقے کے درمیان چپقلش کی بنیادیں گہری ھوتی چلی گئیں۔ یورپ کا آزادی کا دلدادہ سرمایہ دار طبقہ مذھب کی بنیاد پر ریاست کی مداخلت سے سخت نالاں رھتا تھا۔ انکے تمام تر اعتراضات کے باوجود ریاست اپنی اس مداخلت کا جواز یہ پیش کرتی تھی کہ ان اصلاحات کے بغیر معاشرے میں فساد برپا ھوگا اور یہ قائم نہ رہ سکے گا۔ چانچہ یہی وہ موقع ھے جب ایڈم سمتھ جیسے ملحد لوگوں نے یہ تصور پیش کیا کہ معاشرے کے قیام و بقا کیلئے ریاستی مداخلت کی ضرورت ھے ہی نہیں کیونکہ سب سے بہترین معاشرہ تب قائم ھوتا ھے جب آپ لوگوں کو جو وہ کرنا چاہیں کرنے کیلئے مارکیٹ میں آزاد چھوڑ دیں۔ ان لوگوں نے یہ تصور عام کیا کہ حصول ویلفئیر اور قیام معاشرہ کیلئے کسی قسم کی ریاستی مداخلت کی سرے سے ضرورت ھے ہی نہیں بلکہ مارکیٹ اسکا بندوبست خودبخود کردیتی ھے۔ اس پورے معاشی تصور کو پیش کرنے کا مقصد درحقیقت مشاھدے پر مبنی کسی دریافت شدہ آفاقی حقیقت کا بیان نہیں تھا (کیونکہ اس دور میں تو مارکیٹ نظم پر مبنی کوئی معاشرہ کہیں تھا ہی نہیں کہ جسے دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا گیا ھو) بلکہ مذہبی بنیادوں پر ریاست میں مداخلت کا اخلاقی عدم جواز پیدا کرنا تھا۔ ان ماہرین معاشیات کا مقصد مذہبی پالیسیوں کا عدم جواز پیدا کرکے انکی جگہ سرمایہ دارانہ پالیسی سازی کو جواز دینا تھا۔ پس ان ماہرین معاشیات نے سرمایہ دار طبقے کو پوپ کے خلاف ایک علمی دلیل فراھم کردی جس کی بنیاد پر وہ ریاست کی مذہبی مداخلت کی علمی بنیادوں پر مخالفت کرنے لائق ھوگئے۔

ایڈم سمتھ کے دور سے لیکر آج تک علم معاشیات کا بنیادی مقصد یہی بتانا رہا ھے کہ سرمایہ دارانہ (خصوصا مارکیٹ) نظم کس طرح قائم ھوتا ھے اور اسے کس طرح قائم رکھا جاتا ھے۔ اس کے علاوہ اس علم کا دوسرا کوئی مقصد نہیں رہا۔ جو مسلم مفکرین علم معاشیات کو اسلامی تاریخی تصورات کا تسلسل سمجھتے ہیں یا اسکی اسلام کاری کرتے ہیں وہ اس کے تاریخی ارتقاء اور بنیادی عقائد سے عدم واقفیت کا شکار ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔