Tuesday, October 8, 2013

جدیدیت کے مقابلے کیلئے بریلوی، دیوبندی و سلفی شناختوں کے فروغ کی ضرورت و اھمیت


بریلویت، دیوبندیت و سلفیت برصغیر میں اسلامی انفرادیت کے جائز اظھار کے مختلف علمی دھارے ھیں۔ اس خطے میں سرمایہ دارانہ استعماری غلبے کے بعد انھی اسلامی گروھوں نے ایک طرف اسلامی علمیت اور روایات کا تحفظ کیا اور دوسری طرف مسلم ماڈرن ازم کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے یہ سرمایہ داری کے فروغ میں رکاوٹ بنے۔ چنانچہ اس خطہ ارضی میں مذھبی بنیادوں پر "ماڈرن یا لبرل مسلم شناخت" کا مقابلہ کرنے کےلیۓ ان شناختوں کا فروغ نھایت ضروری ھے کیونکہ یھاں یھی شناختیں تعارف اسلام کی نفسیاتی و تاریخی بنیادیں رکھتی ھیں اور انکا فروغ درحقیقت روایتی اسلام کے فروغ کا سھل ترین طریقہ ھے۔ ان شناختوں کو تحلیل نھیں ھونا چاھیۓ کیونکہ انکے تحلیل ھونے کی صورت میں جو شے انفرادی شناخت کا ذریعہ بنتی ھے وہ یا تو تجدد پسندانہ اسلام کی صورت میں ھوتی ھے (جھاں متجددین حضرات کو ان لوگوں پر ھاتھ صاف کرنے کا موقع مل جاتا ھے) اور یا پھر سول سوسایٹی سے نکلنے والے تعلقات کے تانے بانے کی صورت میں (مثلا کارپوریشن،انٹرسٹ گروپس،سماجی تنظیموں کی شناخت وغیرہ)۔ ان دونوں کے فروغ کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ انفرادیت و معاشرت ھی پروان چڑھتی ھے۔ لھذا اس خطہ ارضی میں ان روایتی شناختوں کا قیام و بقا ضروری امر ھے اور انھیں اپنے تعارف کے طور پر اختیار کرنے میں کوئ عار محسوس نھیں کرنی چاھیۓ، اس شرط کے ساتھ کہ دوسرے گروہ کو کافر، مشرک، بدعتی، گستاخ رسول وجہنمی نہ سمجھا جاۓ بلکہ انکی پوزیشن کو نصوص کی کلامی تعبیر و تاویلی غلطی پر محمول کیا جاۓ۔ اگر ھمارے علماۓ متقدمین باوجود اھم نوعیت کے کلامی و فقھی اختلافات کے اھل سنت و الجماعت میں شمار ھوسکتے ھیں تو آج ھمیں خود پر اس دروازے کو بند نھیں کرلینا چاھیۓ۔ بصورت دیگر ھماری آپسی چپقلش سے لبرل و متجددین حضرات ھی کو فائدہ ھوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔